Al-Qurtubi - Hud : 50
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : قوم عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارا نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر (صرف) مُفْتَرُوْنَ : جھوٹ باندھتے ہو
اور ہم نے عدا کی طرف ان کے بھائی ہود کو (بھیجا) انہوں نے کہا کہ میری قوم ! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تم (شرک کرکے خدا پر) محض بہتان باندھتے ہو۔
آیت نمبر 50 تا 60 اللہ تعالیٰ کا ارشاد : والیٰ عادٍاخاھم ھودًا یعنی اور ہم نے بھیجا۔ ارسلنانوحًاپر اس کا عطف ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کو ان (قوم عاد) کا بھائی کہا گیا ان میں سے ہونے کی وجہ سے، قبیلہ نے ان کو جمع کردیا تھا، جس طرح آپ کہتے ہیں : یا احاتمیم ایک قول یہ ہے ان کو ان کا بھائی کہا گیا کیونکہ وہ (ہود علیہ السلام) اولاد آدم (علیہ السلام) سے ہیں جس طرح کہ وہ (قوم عاد) اولاد آدم سے ہے۔ یہ الاعرف میں گزرچکا ہے۔ اور وہ بتوں کے بچاری تھے۔ کہا گیا ہے : عاد (نام کی) دو (قومیں) تھیں عاد اولیٰ او عاد ثانیہ۔ تو یہ عاد اولیٰ ہے، رہے عادثانیہ تو وہ شداد اور لقمان ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادارم ذات العماد میں مذکور ہیں۔ عاد ایک آدمی کا نام ہے پھر اس کی طرف منسوب ایک قوم پر اس کا اطلاق ہوا۔ قال یٰقوم اعبدوا اللہ مالکم من الٰہٍ غیرہ۔ غیرہلفظا مجرور اور غیرہمحلا مرفوع اور غیرہاستثنا کی بنیاد پر منصوبان انتم الامفترون یعنی تم غیر کو معبود بنانے میں اس (اللہ تعالیٰ عزوجل) پر جھوٹ بولنے والے ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : یٰقوم لآاسئلکم علیہ اجرًا ؕ ان اجری الاعلی الذی فطرنی اس کا معنی گزر چکا ہے۔ اور فطرت (سے مراد) مخلوق کی ابتدا ہے۔ افلا تعقلون یعنی اس کو جو قوم نوح پر جاری ہوا جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادویٰقوم استغفرواربکم ثم توبوٓا الیہسورت کی ابتداء میں یہ گزر چکا ہے۔ یرسل السمآء، یرسلمجزوم ہے کیونکہ یہ جواب ہے اور اس میں جزا کا معنی ہے۔ علیکم مدرارًاحال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، اس میں کثرت کا معنی ہے، یعنی آسمان موسلادھار بارش برسائے گا۔ اور عرب مفعال میں نسب کی صورت میں ہا کو حذف کردیتے ہیں۔ اکثر اوقات مفعال کا وزن افعلباب افعال سے آتا ہے جب کہ یہاں فعل سے آیا ہے کیونکہ یہ دزت السماء تدر اور تدر سے مشتق ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم یعنی قوم عاد باغوں، کھیتوں اور عمارتوں والی قوم تھی اور ان کی رہائش گاہیں شام اور یمن کے درمیان والے ٹیلے تھے جس طرح کہ سورة اعراف میں گزر گیا۔ ویزدکم یرسل پر اس کا عطف ہے۔ قوۃً الیٰ قوتکممجاہد نے کہا : (قوت سے مراد) شدت ہے۔ ضحاک نے کہا : شادابی، علی بن عیسیٰ کے نزدیک : عزت۔ اور عکرمہ کے نزدیک : اولاد ہے۔ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین سال ان سے بارش روک لی اور رحموں کو بانچھ کردیا پس ان کا کوئی بچہ پیدا نہ ہوا، تو حضرت ہود (علیہ السلام) نے انہیں کہا : اگر تم ایمان لے آؤ تو اللہ تعالیٰ تمہارے شہروں کو زندہ (آباد) کردے گا اور تمہیں مال اور اولاد عطا فرمائے گا۔ پس یہی قوت ہے۔ زجاج نے کہا : معنی یہ ہے کہ وہ قوت کا اضافہ فرمادے گا نعمتوں میں۔ ولا تتولوامجرمین یعنی تم اس سے اعراض نہ کرو جس کی طرف میں تمکو دعوت دیتا ہوں اور کفر پر قائم نہ ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قالوایٰھودماجئتنا ببینۃ یعنی واضح حجت۔ ومانحن لک بمؤمنینان کی طرف سے کفر پر اصرار ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ان نقول الا اعترٰئک یعنی تجھے مبتلا کردیا ہے۔ بعض اٰلھتنا اس سے مراد بت ہیں۔ بسوٓءٍ یعنی جنون نے آپ کا ان کو برا بھلا کہنے کی وجہ سے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے یہ مروی ہے کہا جاتا ہے : عراہ الا مرد اعتراہجب کوئی اس میں مبتلا ہوجائے۔ اور اسی سے ہے : واطعموا القانع والمعتر (الحج :36) قال انی اشھد اللہ یعنی ذات پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں۔ واشھدوٓا یعنی میں تم کو گواہ بناتا ہوں، اس وجہ سے نہیں کہ وہ اہل شہادت میں سے تھے بلکہ یہ تقریر کی انتہا ہے، یعنی اس لیے کہ تم پہچان لو۔ انی بریٓء مماتشرکون یعنی ان بتوں کی پوجا سے جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ فکیدونی جمیعًا یعنی تم اور تمہارے بت میری دشمنی اور مجھے نقصان دینے میں مکر کریں۔ ثم لاتنظرون یعنی تم مجھے مہلت نہ دو ۔ دشمنوں کی کثرت کے باوجود یہ قول اللہ تعالیٰ کی مدد پر کامل بھروسہ پر دلالت کرتا ہے۔ اور یہ نبوت کی علامات میں سے ہے کہ رسول اکیلا اپنی قوم کو کہتا ہے : فکیدونی جمیعًااسی طرح نبی کریم ﷺ نے قریش کو کہا اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا : فاجمعوٓاامرکم وشرکآکمالایۃ (یونس :71) تم اپنا معاملہ اور اپنے شرکاء کو جمع کرلو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : انی توکلت علی اللہ ربی وربکم یعنی میں اس کے حکم پر راضی ہوں اور اس کی مدد کے بارے میں پر امید ہوں۔ مامن دآبۃٍیعنی جو زمین پر رینگتا ہے۔ یہ مبتدا ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے۔ الاھواٰخذبنا صیتھا تم مجھے نقصان نہیں پہنچا سکو گے۔ ہر وہ چیز جس میں روح ہو اس کو دابیادابۃ کہا جاتا ہے اور اس دابۃ میں ہا مبالغہ کے لیے ہے۔ فراء نے کہا (اس سے مراد ہے کہ وہ) اس کا مالک اور اس پر قادر ہے۔ قتبی نے کہا : وہ اس پر غالب ہے، کیونکہ جس بندے کی پیشانی کو تو پکڑلے تو (گویا) تو اس پر غالب آگیا ہے۔ ضحاک نے کہا : وہ اس کو پیدا کرتا ہے پھر اس کو مارتا ہے اور معنی قریب قریب ہے اور نا صیۃ سے مراد سر کے اگلے حصے کے بال ہیں۔ نصوت الرجل انصوہ نصواً (کہا جاتا ہے) جب تم اس کی بیشانی کو کھینچو۔ ابن جریج نے کہا : اس کو ناصیۃ کے ساتھ کیا کیونکہ عرب یہ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی آدمی کی صفت عاجزی اور خضوع کے ساتھ بیان کی جائے۔ پس وہ کہتے ہیں : فلاں کی پیشانی فلاں کے ہاتھ میں ہے یعنی وہ اس کا مطیع ہے جس طرح چاہے وہ اس میں تصرف کرے۔ اور (عرب) جس کسی قیدی کو گرفتار کرتے اور پھر اس پر احسان کرکے اس کو آزاد کرنا چاہتے تو وہ اس کے پیشانی کے بالوں کو پکڑے تاکہ اس طرح وہ اس پر فخر کا اظہار کریں، پس اللہ تعالیٰ نے ان کو مخاطب فرمایا ایسے محاورہ کے ذریعے جس کو وہ اپنے کلام میں جانتے تھے۔ ترمذی حکیم نے ” نوادرالاصول “ میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشادمامن دآبۃٍ الاھواٰخذۘبنا صیتھا کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے اعمال کے مقام پر مقرر فرمائے پھر ان کی طرف دیکھا پھر انسان کی تخلیق فرمائی اور نگاہ قدرت ان کی تخلیق سے پہلے ہی ان کے ان اعمال سے پار ہوگئی جو وہ کرنے والے تھے پس جب ان کو پیدا فرمایا تو اس نظر کے نور کو ان کی پیشانیوں میں لکھ دیا پس یہ نور ان کی پیشانیوں کو پکڑے والا ہے۔ یہ انہیں ان اعمال کی طرف لے جاتا ہے جو مقادیر والے ان پر مقرر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے، مقادیر کو زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے پیدا فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص نے اسے روایت کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :” اللہ تعالیٰ نے مقادیر کو زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مقرر فرمایا “۔ اسی وجہ سے رسولوں کو تقویت ملی اور وہ اولوالعزم میں سے ہوگئے کیونکہ انہوں نے پیشانیوں کے نور کو ملاحظہ فرمایا اور انہیں یقین ہوچکا تھا کہ اس کی ساری مخلوق ان انوار کے سبب اتباع کررہی ہے جہاں تک اعمال میں سے ان میں اس کی بصارت پار ہوچکی ہے، پس ان میں سے جو مشاہدہ کے اعتبار سے زیادہ ہیں وہ عزم میں زیادہ پختہ ہیں، اسی وجہ سے اللہ کے نبی حضرت ہود السلام اتنے مضبوط ہوچکے تھے کہ یہاں تک کہہ دیا : فکیدونی جمیعا ثم لاتنظرون، انی توکلت علی اللہ ربی وربکم مامن دآبۃٍ الا ھواٰخذۢبناصیتھا پس سازش کرلو میرے خلاف سب مل کر پھر مجھے مہلت نہ دو بلاشبہ میں نے بھروسہ کرلیا ہے اللہ تعالیٰ پر جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی ہے کوئی جاندار بھی نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ نے پکڑا ہوا ہے اسے پیشانی کے بالوں سے۔ اس کو ناصیۃ اس لیے کہا گیا کیونکہ اعمال غیب الغیب سے ظاہر ہوئے اور مقادیر میں منصوص ہوگئے، خالق کی بصارت مخلوق کی تمام حرکات سے قدرت کے ذریعے پار ہوگئی، پھر زمین پر چلنے والے ہر حیوان کی حرکت اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان اس کی پیشانی میں دکھ دی گئی، پس اس کی اس جگہ کو ناصیۃ کہہ دیا گیا، کیونکہ وہ تقدیر کے مطابق بندوں کی حرکات کو ظاہر کرتی ہے، ناصیۃ ان حرکات کے اظہار سے ماخوذ ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کرنے سے پہلے دیکھا، اور اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کی پیشانی کے بارے میں ناصیۃٍکاذبۃٍخاطئۃٍ ۔ (العلق) فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ پیشانیوں میں کاذبۃ اور خاطئۃ بھی ہوتی ہیں۔ ان کی بیان کردہ تاویل کے مطابق ناصیۃ کو کذب اور خطا کی طرف منسوب کرنا محال ہے۔ ان ربی علیٰ صراطٍ مستقیمٍنحاس نے کہا : صراط کا لغوی معنی واضح راستہ ہے، معنی یہ ہے کہ اللہ جل شانہ اگرچہ ہر چیز پر قادر ہے مگر بغیر حق کے وہ لوگوں کو نہیں پکڑتا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس کی تدبیر میں کوئی خلل نہیں اور اس کی تخلیق میں کوئی تفاوت نہیں وہ پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فان تولوامحل جزم میں ہے۔ اس وجہ سے اس میں سے نون کو حذف کردیا گیا ہے اور یہ اصل میں تتولواتھا اجتماع تائین کی وجہ سے تا کو حذف کردیا گیا۔ فقد ابلغتکم مآارسلت بہٖٓ الیکم اس کا معنی ہے کہ میں نے تمہارے لیے بیان کردیا ہے۔ ویستخلف ربی قومًا غیرکم یعنی وہ تمہیں ہلاک کردے گا اور وہ ان کو پیدا فرمائے گا جو تمہاری نسبت زیادہ اس کی اطاعت کرنے والے ہوں گے وہ اس کی وحدانیت کا اعلان کریں گے اور اس کی عبادت کریں گے۔ ویستخلفیہ ماقبل سے مقطوع ہے اس وجہ سے مرفوع ہے۔ فقدابلغتکم کے ارشاد میں فا کے بعد ثابت ہو رہا ہے یہ اس پر معطوف ہے۔ حفص سے روایت کی گئی ہے انہوں نے عاصم سے روایت کی ویستخلفجزم کے ساتھ فا کی جگہ اور اس کے مابعد پر محمول کرتے ہوئے جس طرحویذرھم فی طغیانھم یعمھون۔ (الاعراف) اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ولاتضرونہ شیئا یعنی روگردانی اور اعراض کے ذریعے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ ان ربی علیٰ کل شیء حفیظ یعنی ہر چیز کا نگہبان علی بمعنی لام ہے۔ پس وہ میری حفاظت فرماتا ہے اس سے کہ تم مجھے کوئی برائی پہنچاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : لماجآء امرنا یعنی جب آیا ہمارا عذاب قوم عاد کی ہلاکت کے ذریعے۔ نجیناھودًاوالذین اٰمنوامعہ برحمۃٍ مناکیون کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر نجات نہیں پاتا اگرچہ اسے نیک اعمال ہی کیوں نہ حاصل ہوں۔ صحیح مسلم، صحیح بخاری اور دیگر (کتب) میں نبی کریم ﷺ سے ہے ” تم میں سے کسی کو اس کا عمل ہرگز نجات نہیں دے سکتا “۔ انہوں نے عرض کیا : اور نہ آپ کو یا رسول اللہ ؟ ﷺ آپ نے فرمایا :” اور نہ مجھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے “۔ ایک قول یہ ہے کہ برحمۃٍ مناکا معنی یہ ہے کہ ہم نے ان کے لیے اس ہدایت کو بیان کردیا جو رحمت ہے۔ اور وہ چار ہزار تھے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ تین ہزار تھے۔ ونجینٰھم من عذاب غلیظٍیعنی قیامت کے دن کے عذاب (سے) اور کہا گیا ہے : وہ سخت آندھی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورة ذاریات وغیرہ میں ذکر فرمایا اور اس کا بیان آئے گا۔ قشیری ابونصر نے کہا : وہ عذاب جس کے ذریعے نبی اپنی امت کو دھمکی دیتا ہے جب آجائے تو اللہ نبی اور اس کے ساتھ مومنین کو اس سے نجات عطا فرماتا ہے۔ ہاں ! اللہ کا نبی اور اس کی قوم کو مبتلا کرنا (ازقیاس بات) نہیں پس وہ ان کو آزمائش میں مبتلا فرمائے تو وہ کافروں کے لیے سزا ہوگی اور مومنوں کے لیے آزمائش، جب یہ اس میں سے نہ ہو نبی نے جسکی دھمکی دی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وتلک عادمبتدا اور خبر ہے۔ کسائی نے بیان کیا کہ عربوں میں سے جو عاد کو منصرف نہیں بناتا پس وہ اس کو قبیلہ کا نام بنا دیتا ہے۔ جحدوابٰایٰت ربھم یعنی انہوں نے معجزات کی تکذیب کی اور ان کا انکار کیا۔ وعصوا رسلہ یعنی صرف حضرت ہود (علیہ السلام) کا، کیونکہ ان کی طرف سوائے آپ کے کوئی اور رسول نہ بھیجا گیا۔ اس کی مثال (یعنی جمع بول کر واحد مراد لینا) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یٰایھا الرسل کلوا من الطیبٰت (المومنون :51) (الرسل سے مراد) صرف نبی کریم ﷺ ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے زمانے میں آپ کے علاوہ کوئی رسول نہ تھا۔ اور یہاں جمع ہے کیونکہ جس نے ایک رسول کی تکذیب کی تو (گویا) اس نے سب رسولوں کی تکذیب کی۔ اور ایک قول یہ ہے : انہوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) اور آپ سے پہلے رسولوں کی تکذیب کی، اور وہ اس طرح تھے کہ اگر ان کی طرف ہزار رسول بھی بھیجے جاتے تو وہ سب کا انکار کردیتے، واتبعوا امرکل جبارٍعنیدٍیعنی ان کے کمتر لوگوں نے اپنے رئیسوں کی اتباع کی۔ جبار سے مراد تکبر کرنے والا ہے اور عنید سے مراد سرکش ہے جو حق کو قبول نہیں کرتا اور نہ اس کا اقرار کرتا ہے۔ ابوعبیدنے کہا : عنید، عنود، عاند اور معاند سے مراد محالفت کی وجہ سے اعراض کرنے والا ہے۔ اور اسی سے اس رگ کو عاند کہا جاتا ہے جو خون کے ذریعے بہہ پڑتی ہے۔ زاجر نے کہا : إنی کبیر لا أطیق العندا اللہ تعالیٰ کا فرمان : واتبعوافی ھٰذہ الدنیالعنۃًیعنی ان کو اس کے ساتھ ملادیا گیا۔ ویوم القیٰمۃ یعنی ان کے پیچھے لگائی جائے گی قیامت کے دن اس کی مثل پس یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ویوم القیٰمۃ پر تمام ہورہی ہے۔ الآان عادًا کفروا ربھم فراء نے کہا : یعنی انہوں نے اپنے رب کی نعمت کا انکار کیا، اس نے کہا : کفرتہ اور کفرتبہ کہا جاتا ہے جس طرح شکرتہ اور شکرت لہ کہا جاتا ہے (یعنی یہ با کے صلہ کے ساتھ اور صلہ کے بغیر دونوں طرح آتا ہے) الابعدً العادٍ قوم ھود یعنی وہ اللہ کی رحمت سے دور رہیں گے اور بعد سے مراد ہلاکت ہے اور بعدبھلائی سے دوری کو بھی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : بعد یبعد بعدجب وہ پیچھے رہ جائے اور دور ہوجائے۔ اور بعد یبعد بعدا (کہا جاتا ہے) جب وہ ہلاک ہو۔ شاعر نے کہا : لا یبعدن قومی الذین ھم سم العداۃ وآفۃ الجزر نابغہ نے کہا : فلا تبعدن إن المنیۃ منھل وکل امری یومًا بہ الحال زائل
Top