Al-Qurtubi - Hud : 73
قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ١ؕ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَتَعْجَبِيْنَ : کیا تو تعجب کرتی ہے مِنْ : سے اَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم رَحْمَتُ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَبَرَكٰتُهٗ : اور اس کی برکتیں عَلَيْكُمْ : تم پر اَهْلَ الْبَيْتِ : اے گھر والو اِنَّهٗ : بیشک وہ حَمِيْدٌ : خوبیوں والا مَّجِيْدٌ : بزرگی والا
انہوں نے کہا کیا تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو ؟ اے اہل بیت تم پر خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں ہی۔ وہ سزا وار تعریف اور بزرگوار ہے۔
آیت نمبر 73 اس میں چارمسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قالوٓااتعجبین من امر اللہ جب اس نے کہا : واناعجوروھٰذابعلی شیخًا اور حیران ہوئی تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے امر یعنی اس کی قضا اور تقدیر سے اس کے تعجب کو ناپسند کیا، یعنی اس میں کوئی تعجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم دونوں کو بچہ عطا فرمائے اور وہ حضرت اسحاق ہے۔ اس آیت سے بہت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں اور یہ حضرت اسحاق سے عمر میں بڑے ہیں، کیونکہ حضرت سارہ کو بشارت دی گئی کہ اسحاق زندہ رہیں گے یہاں تک کہ ان سے یعقوب پیدا ہوں گے۔ عنقریب اس بارے میں گفتگو آئے گی اور اس کا بیان سورة صافات میں ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : رحمت اللہ وبرکٰتہ مبتدا ہے اور خبر علیکم ہے۔ سیبویہ نے اس کو علیکم کاف کے کسرہ کے ساتھ بیان کیا ہے یا کی مجاورت کی وجہ سے۔ کیا یہ خبر ہے یا دعا ؟ اس کا خبر ہونا زیادہ شرافت وفضیلت کا باعث ہے، کیونکہ یہ ان کے لیے رحمت اور برکت کے حصول کا تقاضا کرتی ہے، معنی یہ ہوگا : اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور برکت تم پر بھیجی اے اہل بیت اور اس کا دعا ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ ایسا امر ہے جس کی امید کی جاتی ہے اور بعد میں حاصل نہ ہوا۔ اھل البیت کی نصب اختصاص کی وجہ سے ہے۔ یہ سیبویہ کا مذہب ہے، ایک قول یہ ہے کہ ندا کی وجہ سے (منصوب ہے) مسئلہ نمبر 3 ۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ آدمی کی بیوی اہل بیت میں سے ہے، اس نے اس بات پر دلالت کی انبیاء کی ازواج اہل بیت میں سے ہیں۔ پس حضرت عائشہ ؓ اور دیگر تمام نبی کریم ﷺ کے اہل بیت میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یطھرکم تطھیرًا۔ (الاحزاب :33) اور عنقریب یہ آجائے گا۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سلام کی انتہاء وبرکٰتہپر ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے بارے میں خبر دی۔ رحمت اللہ وبرکٰتہ علیکم اھل البیتبرکت سے مراد بڑھوتری اور اضافہ ہے۔ ان برکات میں سے یہ بات ہے کہ تمام انبیاء ومرسلین حضرت ابراہیم وسارہ کی اولاد تھے۔ مالک نے وہب بن کیسان ابی نعیم عن محمد بن عمروبن عطاروایت کیا انہوں نے کہا : میں حضرت عبداللہ بن وباس ؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ آپ کے پاس اہل یمن میں سے ایک آدمی آیا، اس نے کہا : السلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، پھر اس نے اس کے ساتھ کچھ اور اضافہ کیا، تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اور اس وقت آپ کی بصارت چلی گئی تھی۔ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : وہ یمنی جس نے آپ کو چھپادیا تھا، لوگوں نے آپ کو اس کا تعارف کرایا، تو آپ نے فرمایا : بیشک سلام برکت پر ختم ہوجاتا ہے۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں مسجد میں داخل ہو اتو میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ آپ کے صحابہ کی جماعت میں تھا، میں نے کہا : السلام علیکم، آپ نے فرمایا : وعلیک السلام وتحمۃ اللہ بیس میرے لیے اور دس تیرے لیے۔ انہوں نے کہا : میں دوبارہ داخل ہوا، تو میں کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ، آپ نے فرمایا : وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہتیس میرے لیے اور بیس تیرے لیے۔ میں تیسری دفعہ داخل ہوا تو میں نے کہا، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہتو آپ نے فرمایا : وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہتیس میرے لیے اور تیس تیرے لیے۔ میں اور آپ سلام میں برابر ہیں۔ انہ حمیدمجید یعنی کیا گیا شان والا۔ ان دونوں کو ہم (قرطبی) نے اسماء حسنی میں بیان کردیا ہے۔
Top