Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا
: اور جب
جَآءَتْ
: آئے
رُسُلُنَا
: ہمارے فرشتے
لُوْطًا
: لوط کے پاس
سِيْٓءَ
: وہ غمیگن ہوا
بِهِمْ
: ان سے
وَضَاقَ
: اور تنگ ہوا
بِهِمْ
: ان سے
ذَرْعًا
: دل میں
وَّقَالَ
: اور بولا
ھٰذَا
: یہ
يَوْمٌ عَصِيْبٌ
: بڑا سختی کا دن
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے غمناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مشکل کا دن ہے
آیت نمبر
77
تا
83
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ولماجآءت رسلنالوطًاسیٓء بھمجب فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے نکلے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستی کے درمیان چار فرسخ (بارہ شرعی میل) کا فاصلہ تھا۔ (قوم) لوط کی دو بیٹیوں نے فرشتوں کو دیکھا اور وہ دونوں پانی بھر رہی تھی۔ اور ان دونوں نے خوبصورت شکل کو دیکھا۔ تو انہوں نے کہا : تم کون ہو ؟ اور کہاں سے تم آئے ؟ انہوں نے کہا : فلاں جگہ سےِ ، ہم اس گاؤں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا : اس کے رہنے والے فحش (کام کرنے والے) لوگ ہیں۔ تو انہوں نے کہا : کیا اس میں وہ شخص ہے جو ہمیں پناہ دے گا ؟ انہوں نے کہا : ہاں، یہ شیخ ہے اور انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کی ہئیت دیکھی تو آپ کو ان پر اپنی قوم (کی زیادتی) کا اندیشہ ہوا۔ سیٓء بھم یعنی ان کی آمد نے آپ کو پریشان کیا۔ کہا جاتا ہے : ساء یسوءتو یہ لازم ہوگا اور ساءہ یسوء تو یہ متعدی ہوگا۔ اور اگر آپ چاہیں تو سین کو ضمہ دے دیں کیونکہ اس کی اصل ضمہ ہے اور اصل میں یہ سوء سے سوی بھم ہے، واؤ کی حرکت سین کی طرف منتقل کردی گئی اور واؤ کو یا سے بدل دیا گیا اور اگر آپ ہمزہ کو شدنہ دیں تو اس کی حرکت یا کو دے دیں اور کہیں : سی بھمتخفیف کے ساتھ اور تشدید کے ساتھ بھی ایک شاذ لغت ہے۔ وضاق بھم ذرعًا یعنی ان کے آنے کے سبب آپ کا دل تنگ ہوا اور آپ نے اسے ناپسند کیا۔ اور ایک قول یہ ہے : آپ کی وسعت اور طاقت تنگ ہوگئی۔ اس کی اصل یہ ہے کہ اونٹ چلتے وقت اگلے پیروں سے اپنے قدموں کی گنجائش کی پیمائش کرے اور جب اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بار لادا جائے تو وہ اس سے تنگ ہوتا ہے کمزور ہوتا ہے اور اپنی گردن کو کھنچتا ہے۔ پس ضیق الزوع، ضیق الوسع سے عبارت ہوگا۔ اور کہا گیا : یہ ذرعہ القئ سے ہے یعنی وہ غالب آگئی یعنی وہ کسی نا موافق چیز کو اپنے اندر روکنے سے تنگ ہوگیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا دل اس وجہ سے تنگ ہوا کہ آپ نے ان (فرشتوں) کی خوبصورتی کو دیکھا اور اس وجہ سے کہ آپ اپنی قوم کے فسق کو جانتے تھے۔ وقال ھٰذا یوم عصیب یعنی شر میں سخت۔ شاعر نے کہا : وأنک إلا ترض بکر بن وائل یکن لک یوم بالعراق عصیب ” اور تو اگر بکر بن وائل کے ساتھ راضی نہ ہوا تو غراق میں تیرا دن بہت سخت ہوگا “ اور دوسرے نے کہا : یوم عصیب یعصب الأبطالا عصب القوی السلم الطوالا اور کہا جاتا ہے : عصیب اور عصبصب کسی چیز کی کثرت کو ظاہر کرنا، یعنی ناگوار شرکا مجموعہ اور قدعصب (کہا جاتا ہے) یعنی عصب بالشرعصابۃ (جس سے مراد جماعت ہے) اس سے عصبۃ اور عصابۃ کہا جاتا ہے یعنی کلمہ کو جمع کرنے والے مراد اپنی ذات میں جمع کرنے والے ہیں۔ اور عصبۃ الرجل سے مراد اس کے ساتھ نسب میں جمع ہونے والے ہیں اور تصبت لفلان یعنی میں اس کے عصبہ کی طرح ہوگیا۔ اور رجل معصوب سے مراد وہ آدمی ہے جس میں خلقت کا اجتماع ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وجآءہ قومہ یھرعون الیہحال واقع ہو رہا ہے۔ یھرعون سے مرادیسرعون ہے یعنی وہ دوڑتے ہوئے آئے۔ کسائی، فراء اور دیگر اہل لغت نے کہا : اھراع سے مراد ایسی تیزی ہے جس کے ساتھ خوف کی وجہ سے لاحق ہونے والی کپکپی ہو۔ کہا جاتا ہے : اھرع الرجل إھراعا یعنی اس نے جلدی کی سردی، غصے یابخار سے کپکپی میں، وھومھرع۔ مہلہل نے کہا : فجاء وا یھرعون وھم أساری نقودھم علی رغم الانوف ایک اور شاعر نے کہا : بمعجلاتٍ نحوہ مھارع اور یہ اسی طرح ہے جیسے أولع فلان بالأمر، أوعد ذید اور زھی فلان ہے یہ اسی طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ أھرع سے مرادھرعہ حرصہ ہے یعنی اس کے لالچ نے اس میں جلدی کی۔ اس بنیاد پر یھرعون سے مراد ہے کہ وہ اس پر ابھارتے ہیں اور جس نے پہلے قول کے مطابق بات کی ہے اس نے کہا : اس کو سوائے اھرع الرجل یعنی اسرع کے سنا ہی نہیں گیا، یعنی اس کو مجہول ہی بیان کیا گیا ہے۔ ابن قوطیۃ نے کہا : ھرع الانسان ھرعا، وأھرع یعنی وہ چلا اور اس نے جلدی کی۔ ہر وی نے کہا : ھرع الرجل وأھرع کہا اسے ابھارا گیا۔ حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما، قتادہ اور سدی نے کہا : یھرعونبمعنییھرولون ہے۔ ضحاک نے کہا : یسعون کے معنی ہے۔ ابن عیینہ نے کہا : گویا کہ وہ دفاع کررہے تھے۔ شمرین عطیہ نے کہا : یہ تیز چلنے اور دوڑنے کی درمیانی چال ہے۔ حسن نے کہا : دوچالوں کے درمیان کی چال ہے اور معنی قریب قریب ہے۔ انکی تیزی کا سبب یہ تھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کافرہ تھی جب اس نے مہمانوں کو دیکھا اور ان کی خوبصورتی اور جمال کو دیکھا تو وہ نکلی یہاں تک کہ اپنی قوم کی مجلس میں آگئی اور ان کو کہا کہ لوط (علیہ السلام) کے پاس آج رات ایسے نوجوان مہمان ہیں خوبصورتی میں ان جیسا نہیں دیکھا گیا وغیرہ وغیرہ۔ تو اس وقت وہ تیز تیز آپ کی طرف آئے۔ اور ذکر کیا جاتا ہے کہ فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کے شہر پہنچے تو انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو کھیتی باڑی میں مصروف پایا۔ ایک قول یہ ہے : انہوں نے آپ کی بیٹی کو نہر سدوم سے پانی بھرتے ہوئے پایا انہوں نے اس بیٹی سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کو ان کی ضیافت کرے بیٹی نے ان کی ہئیت کو دیکھا اور ان کے بارے میں قوم لوط سے ڈرگئی بیٹی نے کہا یہیں ٹھہرو، پھر اپنے باپ کی طرف گئی اور اسے خبر دی۔ تو انہوں نے کہا : ہم چاہتے ہیں کہ آج رات آپ ہماری میزبانی کریں، آپ نے ان کو کہا : کیا تم نے اس قوم کے عمل کے بارے میں نہیں سنا ؟ انہوں نے کہا : ان کا عمل کیا ہے ؟ آپ نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ زمین میں بدترین قوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمادیا تھا کہ انہیں عذاب نہ دنیا یہاں تک کہ حضرت لوط (علیہ السلام) چار مرتبہ ان کے خلاف گواہی دیں۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے کہ گفتگو کی۔ جبریل (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کو کہا : یہ ایک (مرتبہ گواہی) ہے اور کلام ان کے درمیان چلا حتی کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے چار مرتبہ گواہی کو مکرر فرمایا پھر ان کو لے کر شہر میں داخل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ومن قبل یعنی فرشتوں کے آنے سے پہلے۔ ایک قول یہ ہے : حضرت لوط (علیہ السلام) سے پہلے۔ کانوا یعملون السیاٰت یعنی مردوں کے ساتھ بدفعلی ان کی عادت تھی۔ جب وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے اور آپ کے مہمانوں کا قصد کیا تو حضرت لوط (علیہ السلام) دفاع کرتے ہوئے ان کی طرف گئے اور فرمایا : ھٰؤلآء بناتییہ مبتدا اور خبر ہے۔ آپ کے قول ھٰٓؤلآء بناتی کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے : آپ کی تین صلبی بیٹیاں تھیں، ایک قول ہے : دوبیٹیاں تھیں۔ زیتا اور زعوراء۔ ایک قول یہ ہے : ان کے دوسر دار تھے جن کی اطاعت کی جاتی تھی آپ نے اپنی دونوں بیٹیوں کا نکاح ان کے ساتھ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ ایک قول یہ ہے : اس حالت میں آپ نے ان کو نکاح کا کہا اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ (ان کی شریعت میں) کافر کا نکاح مومن عورت کے ساتھ جائز تھا۔ یہ آغاز اسلام میں بھی جائز تھا پھر منسوخ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دونوں بیٹیوں کا نکاح عتبہ بن ابی لہب اور ابوالعاص بن ربیع سے فرمایا وحی سے پہلے اور وہ دونوں کافر تھے۔ اور ایک گروہ، جس میں مجاہد اور حضرت سعید بن حبیر ہیں نے کہا : آپ نے اپنے قول بناتی کے ذریعے تمام عورتوں کی طرف اشارہ کیا، کیونکہ قوم کا نبی ان کا باپ ہوتا ہے اس کو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت تقویت ملی ہے۔ النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم وازواجہٓ امھٰتھم (الاحزاب :
6
) وھوأب لھم یعنی نبی مومنین کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے اور اس کی ازواج (مطہرات) ان کی مائیں ہیں اور وہ (نبی) ان کا باپ ہے۔ ایک گروہ نے کہا : یہ کام مدافعانہ تھا اور آپ نے اس کو نافذ کرنے کا ارادہ نہ فرمایا تھا، یہ قول ابوعبیدہ سے مروی ہے جس طرح اس آدمی کو کہا جاتا ہے جسے غیر کا مال کھانے سے روکا جاتا ہے، خنزیر تمہارے لیے اس سے بھی زیادہ حلال ہے۔ عکرمہ نے کہا : آپ نے ان پر اپنی اور اپنی امت کی بیٹیاں پیش نہیں کی تھیں بلکہ یہ انہیں اس لیے کہا تھا تاکہ وہ واپس لوٹ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ھن اطھرلکمیہ مبتدا اور خبر ہے، یعنی میں تمہاری ان سے شادی کردیتا ہوں، جو تم چاہتے ہو اس میں سے وہ تمہارے لیے طاہر ہیں یعنی حلال ہیں۔ تطھر سے مراد ایسی چیز سے بچنا ہے جو حلال نہ ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : آپ کی قوم کے سرداروں نے آپ کی بیٹیوں کے لیے پیغام نکاح دیا تو آپ نے اسے قبول نہ کیا۔ اطھر میں الف تفصیل کے لیے ہے کہ یہ وہم پیدا ہو کر مردوں کے ساتھ نکاح کرنا طاہر ہے بلکہ یہ آپ کے اس قول کی طرح ہے : اللہ اکبروأعلی وأجل یعنی اللہ سب سے بڑا، سب سے بلند اور سب سے اجل ہے اگرچہ یہ ازروئے تفصیل کے نہیں، یہ جائز ہے اور کلام عرب میں عام ہے اور کوئی اللہ تعالیٰ سے بڑا نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ بڑا ہو۔ ابوسفیان بن حرب نے غزوۂ احد والے دن کہا : اعلی ھبل اعلی ھبل یعنی ہبل (بت کا نام) بہت بڑا ہے، تو نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو فرمایا :” حسن اور عیسیٰ بن عمرو نے ھن اطھرپڑھا حال کی وجہ سے نصب کے ساتھ ھنضمیر عماد (فصل) ہے۔ خلیل، سیبویہ اور اخفش نے یہاں ھن کے عماد ہونے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ یہ ضمیر عاد اس صورت میں ہوتی ہے جس میں کلام اس کے مابعد کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا جیسے کان زید ھوأخانتا کہ اس کے ذریعے یہ استدلال کیا جاسکے کہ الاخ صفت نہیں۔ زجاج نے کہا : اور اس کے ذریعے اس بات پر استدلال کیا جاتا ہے کہ کان کو خبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نے کہا : اس کے ذریعے اس پر استدلال کہا جاتا ہے کہ خبر معرفۃ ہوتی ہے یا جو معرفۃ کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فاتقوا اللہ ولاتخزون فی ضیفی یعنی تم میری توہین نہ کرو اور تم مجھے ذلیل نہ کرو۔ اسی سے حضرت حسان ؓ کا یہ شعر ہے۔ فأخزاک ربی یا عتیب بن مالک ولقاک قبل الموت إحدی الصواعق مددت یمینا للبنی تعمدا ودمیت فاہٰ قطعت بالبوارق یہ بھی ممکن ہے کہ خزایۃ سے ہو جس کا معنی حیا اور شرم ہے۔ ذوالرمۃ نے کہا : خزایتہ ادرکتہ بعد جو لتہ من جانب الحبل مخلوطا بھا الغضب دوسرے شاعر نے کہا : من البیض لا تخزی إذا الریح العقت بھا مرطھا او زایل الحلی جیدھا ضیف کا اطلاق واحد ہونے کے باوجود تثنیہ اور جمع پر ہوتا ہے، کیونکہ یہ اصل میں مصدر ہے۔ شاعر نے کہا : لا تعدمی الدھر شفار الجازر للضیف والضیف أحق زائر اس میں تثنیہ اور جمع جائز ہے اور پہلا اکثر آتا ہے جس طرح کہ ترا قول : رجال صوم وفطروزورروزہ دار آدمی، افطار کرنے والے اور جھوٹ بولنے والے۔ اور خزی الرجل خزایۃٰیعنی اس نے حیا کیا جس طرح کہ وہ ذلیل ہوا اور حقیر ہوا اور خزی خزیاکہتے ہیں جب کوئی رسوا ہوجائے، ان دونوں صورتوں میں مضارع ے جزیہی آتا ہے۔ پھر ان کو اپنے اس ارشاد کے ذریعے جھڑکا۔ الیس منکم رجل رشید یعنی سخت آدمی کو نیکی کا حکم دیتا ہو اور برائی سے روکتا ہو، ایک قول یہ ہے : رشید، سے مراد ہدایت والا ہے۔ یارشیدبمعنی راشدیا بمعنیمرشد ہے یعنی صالحیا مصلح۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا (اس سے مراد) مومن ( ہے) ابو مالک نے کہا : برائی سے روکنے والا۔ ایک قول ہے : رشیدبمعنی الرشد ہے۔ الرشد اور الرشاد سے مراد ہدایت اور استقامت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بمعنی مرشدہو جس طرح حکیمبمعنی محکمہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قالوالقدعلمت مالنافیبنٰتک من حقٍروایت ہے کہ قوم کے لوگوں نے آپ (علیہ السلام) کی بیٹیوں سے منگنی کی پس آپ نے ان کو رد کردیا، اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ جس نے جس عورت کی منگنی کو رد کردیا ہو اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی تھی یہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قالوالقدعلمت مالنافی بنٰتک من حقمروی ہے کہ قوم لوط نے آپ کی بیٹیوں کے لیے پیغام نکاح بھیجا تو آپ نے انہیں رد کردیا۔ پس کلام کی توجہیہ یہ ہوگی ہمارا تیری بیٹیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہم نے ان کا قصد کیا ہے اور نہ ہی یہ ہماری عادت ہے کہ ہم اس کا مطالبہ کریں۔ وانک لتعلم مانریدمہمانوں کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قال لوان لی بکم قوۃًجب آپ نے ان کی گمراہی میں استمرار، اپنی کمزوری اور ان کے دفاع پر قادرنہ ہونے کو دیکھا تو تمنا کی کاش آپ ان کو روکنے کے لیے کسی مددگار کو پالیتے، تو آپ نے گھبراہٹ اور عجز کے طور پر کہا : لوان لی بکم قوۃًیعنی انصار اور مددگار ہوتے۔ حضرت عباس ؓ نے کہا : اس سے آپ نے بیٹے کا ارادہ فرمایا۔ اور انفعل مضمر کی وجہ سے محل رفع میں ہے جس کی تقدیرلواتفقیاوقع ہے، اور یہ لو کے تابع آنے والے ان میں عام (قاعدہ) ہے۔ لو کا جواب محذوف ہے یعنی لرددت اھل الفساد، یعنی میں فساد کرنے والوں کو ضرور ہٹا دیتا اور ان کے اور ان کے ارادوں کے درمیان حائل ہوجاتا۔ اواٰویٓ الیٰ رکنٍ شدیدٍیعنی میں پناہ لیتا اور مل جاتا۔ اواٰویٓنصب کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ قوۃ پر عطف کرتے ہوئے گویا کہ آپ نے کہا : لوان لی بکم قوۃ، اواٰویٓ الیٰ رکن شدیدٍ ۔ یعنی ان آوی ہے۔ انمضمرہ کے ساتھ یہ منصوب ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی رکن سے مراد خاندان اور کثرت کے ساتھ رکاوٹ اور دفاع کرنے والے ہیں۔ ان کے فعل کی قباحت نے آپ کو اس قول تک پہنچا دیا اس کے باوجود کہ آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت و طاقت سے واقف تھے۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ فرشتوں نے جب ان کلمات کے کہتے وقت آپ (علیہ السلام) پر (رنج وغم) کو پایا تو انہوں نے کہا : بیشک تیری پناہ گاہ بڑی مضبوط ہے۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ حضرت لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے بیشک وہ رکن شدید کی پناہ کی خواہش کرتے تھے “۔ الحدیث۔ سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے۔ امام ترمذی (رح) نے اس کو روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ” اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعد کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر ان کی ثروت میں “۔ محمد بن عمرو نے کہا : ثروت سے مراد کثرت اور قوت ہے، یہ حدیث حسن ہے۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) پر ان کی قوم غالب آگئی اور انہوں نے دروازہ توڑنے کی کوشش کی اس حال میں کہ آپ اس کو روکے ہوئے تھے (اس وقت) فرشتوں نے آپ کو کہا : آپ دروازے سے ہٹ جایئے، آپ ہٹ گئے اور دروازہ کھل گیا، حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اپنا پر مارا تو ان کی بصارت جاتی رہی اور وہ اندھے ہوگئے اور الٹے پاؤں بھاگے یہ کہتے ہوئے : بچاؤ بچاؤ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولقد راودوہ عن ضیفہٖ فطمسنآ اعینھم (القمر :
37
) اور انہوں نے لوط کے مہمانوں کے ساتھ برے کام کا ارادہ کیا تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مٹادیا۔ حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر مفسرین نے کہا : حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنا دروازہ بند کردیا اور فرشتے آپ کے ساتھ گھر میں تھے آپ اپنی قوم کے ساتھ مباحثہ کررہے تھے اور دروازے کے پیچھے سے انہیں قسمیں دلا رہے تھے اور وہ دیوار پر چڑھنے کی کوشش کررہے تھے، جب فرشتوں نے ان کی طرف سے ملنے والی آپ (علیہ السلام) کی محنت، کرب اور تھکاوٹ کو دیکھا تو انہوں نے کہا : اے لوط ! بیشک پناہ گاہ بڑی مضبوط ہے اور ان پر نہ ٹلنے والا عذاب آنے والا ہے۔ اور ہم تیرے رب کے فرستاوہ ہیں، دروازہ کھول دیجئے اور ان کو اور ہم کو چھوڑ دیجئے۔ آپ نے دروازہ کھول دیا تو جبریل (علیہ السلام) نے اپنا پر مارا جس طرح کہ گزر چکا ہے۔ ایک قول یہ ہے : جبریل (علیہ السلام) نے مٹھی بھر مٹی لی اور اس کو ان کے چہروں پر ڈال دیا، پس اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کو قریب اور دور والوں کی آنکھوں تک پہنچا دیا پس اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں (بصارت) کو مٹا دیا، وہ رستے کو نہ پہچان سکے اور اپنے گھروں تک راہ نہ پاسکے اور کہنے لگے : بچاؤ بچاؤ بیشک لوط کے گھر ایسے لوگ ہیں جو روئے زمین پر سب سے زیادہ جادوگر ہیں۔ انہوں نے ہمارے اوپر جادو کردیا اور ہماری آنکھوں کو اندھا کردیا۔ اور کہنے لگے : اے لوط ! جس طرح تو ہے یہاں تک کہ ہم صبح کرلیں تو تو دیکھ لے گا، وہ آپ کو دھمکیاں دینے لگے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قالوایٰلوط انارسل ربکجب فرشتوں نے آپ (علیہ السلام) کی پریشانی، بےچینی اور مدافعت کو دیکھا تو انہوں نے آپ کو اپنا تعارف کرایا، پس جب آپ کو پتہ چل گیا کہ یہ فرشتے ہیں تو آپ نے اپنی قوم کو داخلہ دے دیا۔ جبریل (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ ان کی آنکھوں پر مارا پس وہ اندھے ہوگئے اور ان کے ہاتھوں پر مارا وہ خشک ہوگئے۔ لن یصلوٓاالیک یعنی کسی برائی کے ساتھ۔ فاسرباھلک اس کو فاسربھی پڑھا گیا ہے یعنی ہمزہ وصلی اور قطعی دونوں طرح، دونوں فصیح لغتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا والیل اذایسر۔ (الفجر) اور فرمایا سبحٰن الذیٓ اسرٰی (بنی اسرائیل :
1
) (پہلی آیت میں ہمزہ وصل جب کہ دوسری میں قطعی ہے) ۔ بابغہ نے کہا : اس نے دونوں لغتیں جمع کردیں ہیں : أسرت علیہ من الجوزاء ساریۃ تزجی الشمال علیہ جامد البرد ایک اور شاعر نے کہا : حی النضیرۃ ربۃ الخذر اسرت إلیک ولم تکن تسری یہ بھی کہا گیا ہے : فاسرہمزہ کے ساتھ جب کوئی ابتدائی رات میں چلے اور سریجب کوئی رات کے آخری حصہ میں چلا ہو اور دن میں چلنے کے لیے صرفسارہی آتا ہے۔ لبید نے کہا : أذا المرء أسری لیلۃ ظن أنہ قضی عملا والمعء ما عاش عامل جب آدمی رات کے ابتدائی حصہ میں چلتا ہے تو اس کا گمان ہوتا ہے کہ اس نے کام پورا کرلیا حالانکہ آدمی جب تک زندہ ہے کام کرنے والا ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا : عند الصباح یحمد القوم السری وتنجلی عنھم غیابات الکری بقطع من الیلحضرت ابن عباس ؓ نے کہا : رات کا کچھ حصہ۔ ضحاک نے کہا : رات کا بقیہ حصہ۔ قتادہ نے کہا : رات کا ابتدائی حصہ گزر جانے کے بعد کا حصہ۔ اخفش نے کہا : رات کے آجانے کے بعد۔ ابن اعرابی نے کہا : رات کی کسی گھڑی میں۔ ایک قول یہ بھی ہے : رات کی تاریکی میں۔ ایک قول یہ ہے : رات کے سکون کے بعد۔ ایک قول ہے : رات کا حصہ، یہ تمام قریب قریب ہیں، ایک قول یہ ہے : یہ رات کا نصف حصہ ہے، یہ قطعہ نصفین سے ماخوذ ہے۔ اسی سے شاعر کا قول ہے : ونائحۃ تنوح بقطع لیل علی رجل بقارعۃ الصعید اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ سریکہتے ہیں رات کے وقت چلنے کو تو بقطعٍ من الیلکا کیا معنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر بقطع من الیلیہ فرمایا ہوتا تو یہ ممکن تھا کہ یہ رات کے ابتدائی حصے میں ہوتا۔ ولایلتفت منکم احد یعنی تم میں سے کوئی بھی اپنے پیچھے نہ دیکھے۔ یہ مجاہد کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : تم میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔ علی بن عیسیٰ نے کہا : تم میں سے مال واسباب میں سے جو کچھ وہ پیچھے چھوڑ کر جارہا ہے اس میں مشغول نہ ہو۔ الا امراتکمنصوب اور یہی قراءت معنی کے اعتبار سے واضح ہے یعنی آپ رات کے وقت اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جایئے سوائے آپ کی بیوی کے فاسر باھلک۔۔۔۔ الا امراتکاسی طرح حضرت ابن مسعود ؓ کی قراءت ہے فاسرباھلک۔۔۔۔ الا امراتکپس اھل سے اس کی استثنا ہے، اسی وجہ سے وہ آپ کے ساتھ نہ نکلی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کا نت من الغٰبرین۔ (العنکبوت) یعنی باقی رہ جانے والوں میں سے۔ ابوعمرو اور ابن کثیر نے الا امراتک، احد سے بدل کی وجہ سے مرفوع پڑھا ہے۔ ایک جماعت نے اس قراءت کا انکار کیا ہے جن میں سے ایک ابوعبید ہیں۔ انہوں نے کہا یہ صرف یلتفت کے رفع کے ساتھ صحیح ہے اور یہ صفت ہے کیونکہ ابدال اور جزم کی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ عورت کی طرف توجہ اور التفات مباح ہے حالانکہ معنی اس طرح نہیں۔ نحاس نے کہا : ابوعبید اور ان کے علاوہ ابوعمرو جیسے لوگوں کی جانب ان کی جلالت شان اور عربی میں ذی مرتبہ ہونے کے باوجود ایسا ہونا ضروری نہیں۔ احد سے بدل ہونے کی وجہ سے اس کو مرفوع پڑھنا صحیح ہے، اس کی تاویل وہ ہوگئی جو محمد بن ولید نے محمد بن یزید سے بیان کی ہے کہ جس طرح آدمی اپنے دربان کو کہتا ہے : لایخرج فلان، فلاں نہ نکلے، تو نہی کا لفظ تو فلاں کے لیے ہے جب کہ اس کا معنی مخاطب کے لیے ہے اس کا مطلب یہ ہوگا لاتدعہ یخرج یعنی تو اس کو اس حال میں نہ چھوڑ کہ وہ نکلے۔ اس کی مثل آپ کا یہ قول بھی ہے : لایقم احد الازید اس کا معنی یہ ہوگا : میں نے ان کو کھڑا ہونے سے منع کیا سوائے زید کے، تو اس طرح نہی تو حضرت لوط (علیہ السلام) کو ہے جب کہ اس کے الفاظ دیگر لوگوں کے لیے ہیں، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے ان کو اس بات سے روکا ہے کہ ان میں سے کوئی پیچھے نہ رہے سوائے آپ کی بیوی کے، یہ بھی جائز ہے کہ اس کی استثنا التفات کی نہی سے ہو کیونکہ یہ مکمل کلام ہے پھر معنی یہ ہوگا : تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے سوائے تمہاری بیوی کے کہ وہ پیچھے دیکھے گی اور ہلاک ہوجائے گی۔ اور حضرت لوط (علیہ السلام) اسے لے کر نکلے تو آپ نے رات کے وقت اپنے ساتھ نکلنے والے ساتھیوں کو پیچھے مڑکر دیکھنے سے منع فرمادیا، تو سوائے آپ کی بیوی کے کسی نے بھی پیچھے نہ دیکھا، اس نے جب عذاب کی سخت آواز کو سنا تو پیچھے دیکھا اور کہا : واقواماہ ! پس ایک پتھر اسے آلگا اور اس نے اس کو ہلاک کردیا۔ انہ مصیبھا یعنی عذاب سے۔ انہ کی ہ ضمیر سے مراد الامر اور الشان ہے یعنیفان الامروالشان والقصۃ، مآاصابھم ؕ ان موعدھم الصبحجب فرشتوں نے کہا : انامھلکوٓااھل ھٰذہ القریۃ (العنکبوت :
31
) کہ ہم اس گاؤں کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں، تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے کہا : ابھی ابھی، یعنی اپنی قوم پر اپنے غصے کی وجہ سے ان سے جلدی عذاب کا مطالبہ کیا، تو انہوں نے کہا : الیس الصبح بقریبٍکیا صبح قریب نہیں ہے۔ عیسیٰ بن عمرو نے اسکو الیس الصبحپڑھا ہے۔ بکے ضمہ کے ساتھ، یہ بھی ایک لغت ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صبح کو انکی ہلاکت گاہ بنایا ہو، کیونکہ اس (صبح کے وقت) میں زیادہ ٹھہرے ہوئے اور جمع ہوتے ہیں۔ بعض مفسرین نے کہا : حضرت لوط (علیہ السلام) طلوع فجر کے وقت اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر نکلتے تو آپ کے ساتھ ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا تو فرشتوں نے آپ کو کہا کہ اللہ تعالیٰ نے گاؤں فرشتوں کے سپرد فرمادیا ہے جن کے ساتھ بادلوں کے گرجنے کی آواز، بجلی کا کوندنا اور بالوں کے گرجنے کی سخت آوازیں ہیں اور ہم نے ان کو کہہ دیا ہے کہ عنقریب حضرت لوط (علیہ السلام) نکلیں گے لہٰذا تم انہیں تکلیف نہ دینا اور اس کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ پیچھے نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی ان کی بیٹیاں پیچھے دیکھیں گی لہٰذا ( اے لوط) جو کچھ آپ دیکھیں وہ آپ کو خوف میں مبتلا نہ کرے۔ پس حضرت لوط (علیہ السلام) نکلے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی خاطر زمین کو لپیٹ دیا یہاں تک کہ آپ نے نجات حاصل کی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فلماجآء امرنا، امرنا سے مراد عذابنا ہے، یعنی ہمارا عذاب۔ جعلناعالیھاسافلھا اور یہ اس طرح ہوا کہ جبریل (علیہ السلام) نے قوم کی بستیوں کے بیچے اپنے پر داخل فرمائے۔ اور وہ (بستیاں) پانچ تھیں، سدوم، یہ سب سے بڑی بستی تھی۔ عامورا، دادوما، وضعوہ اور قتم۔ تو ان (بستیوں) کو زمین کی سرحدوں سے اتنا اوپر اٹھالیا کہ وہ آسمان کے بالکل قریب ہوگئیں، یہاں تک کہ آسمان والوں نے ان کے گدھوں کی رینگ اور ان کے مرغوں کی اذان سن لی، نہ کوئی گھڑا الٹا اور نہ کوئی برتن ٹوٹا پھر وہ اپنے سروں کے بل الٹے کردیئے گئے اور ان پر پتھر برسائے۔ مقاتل نے کہا : چار (بستیوں) کو ہلاک کردیا گیا اور ضعوہ بچ گئی۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ واللہ اعلم اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وامطرناعلیھاحجارۃً من سجیلٍیہ اس بات پر دلیل ہے کہ جس نے ان جیسا فعل کیا اس کا حکم رجم ہے، سورة اعراف میں یہ گرزچکا ہے۔ تفسیر میں ہے امطرنا عذاب کے لیے اور مطرنارحمت کے بارے میں استعمال ہوتا ہے۔ جہاں تک کلام عرب کا تعلق ہے تو اس میں مطرت السماء اور امطرت السماء۔ دونوں طرح مستعمل ہے۔ اس کو ھروی نے بیان کیا۔ سجیل کے بارے میں اختلاف ہے، نحاس نے کہا : سجیل (کا معنی) شدید اور کثیر ہے۔ سجیل اور سجین (دونوں ایک ہیں) لام اور نون اختین ہیں، ابوعبیدہ نے کہا : سجیل سے مراد شدید ہے، اس نے شعر کہا : ضربًا تواصی بہ الأ بطال سجینا نحاس نے کہا : عبداللہ بن مسلم نے اس کو رد کیا اور کہا : یہ سجین ہے جب کہ وہ سجیل ہے تو اس کے ذریعے کیسے استشہاد کیا جاسکتا ہے ؟ نحاس نے کہا : یہ ردلازم نہیں آتا کیونکہ ابوعبیدہ کا نقطہ نظریہ ہے کہ ایک دوسرے کے قریب کی وجہ سے لام، نون سے بدلا ہوا ہے، البتہ ابوعبیدہ کے قول کا ایک اور طریقہ سے رد کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر یہ آپ کے قول کے مطابق ہوتا تو پھر ححارۃ سجیلاہوتا کیونکہ حجارۃ من شدید نہیں کہا جاتا اس کی وجہ یہ ہے کہ سدیداصفت ہے۔ ابوعبیدہ نے فراء سے بیان کیا کہ ارحاء کے پتھر کو سجیل کہا جاتا ہے۔ محمد بن جہم نے ان سے حکایت کیا کہ سجیل ایسا کیچڑ ہے جسے پکایا جاتا ہے حتی کہ وہ ارحاء کی طرح ہوتی ہے۔ ایک گروہ جن میں حضرت ابن عباس ؓ، حضرت سعید بن جبیر اور ابن اسحاق ہیں نے کہا کہ سجیل غیر عربی لفظ ہے جس کو معرب بنایا گیا ہے، اس کی اصل سنج وحیل ہے اس کو ” سنک وکیل “ بھی کہا جاتا ہے یعنی جیم کی جگہ کاف کے ساتھ، اور دونوں فارسی میں پتھر اور مٹی ہیں۔ عربوں نے ان کو معرب بنایا اور ان دونوں کو ایک ہی نام بنا دیا۔ ایک قول یہ ہے کہ عربی لفظ ہے۔ قتادہ اور عکرمہ نے کہا : سجیل سے مراد مٹی ہے اس کی دلیلیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے : لنرسل علیھم حجارۃ من طین۔ (الذاریات) حضرت حسن نے کہا : پتھروں کی اصل مٹی تھی پھر وہ سخت کردیئے گئے۔ عربوں کے نزدیک ہر سخت چیز سجیل ہے۔ ضحاک نے کہا : اس سے مراد پکی اینٹیں ہیں۔ ابن زید نے کہا : ایسی مٹی جس کو پکایا گیا ہو حتی کہ وہ پکی ہوئی اینٹ کی طرح ہوجائے۔ انہی سے راویت ہے کہ سجیل آسمان دنیا کا نام ہے۔ اس کو مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ اور ثعلبی نے ابو العالیہ سے بیان کیا ہے۔ یہ ضیعف ہے، کیونکہ منضود کے ساتھ کی صفت کا آنا اس کو رد کردیتا ہے، عکرمہ سے ہے کہ یہ آسمان میں پہاڑ ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے اشارہ فرمایا : وینزیل من السمآء من جبالٍ فیھا من بردٍ (النور :
43
) ایک قول یہ ہے کہ یہ سجل سے مشتق ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لکھ دیا جو ان کو پہنچے گا۔ پس یہ سجین کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وما ادرٰئک ماسجین۔ کتٰب مرقوم۔ (مطففین) یہ زجاج کا مختار قول ہے۔ ایک قول یہ ہے : یہ اسجلتہ سے مشتق ہے جب آپ کسی کو کوئی چیز عطا کریں (تو یہ بولا جاتا ہے) گویا کہ یہ عذاب تھا کو ان کو دیا گیا تھا، (شاعر) نے کہا : من یساجلنی یساجل ماجدا یملأ الدلو الی عقد الکرب اہل معانی نے کہا : پتھر اور مار میں سے جو چیز سخت ہو اسے سجیل اور سجین کہتے ہیں۔ ابن مقبل نے کہا : ورجلۃٍیضربون البیض ضاحیۃ ضرباً تواصی بہ الأبطال سجینا منضودٍحضرت ابن عباس ؓ نے کہا : (اس کا معنی ہے) پے در پے۔ قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے کسی چیز کا ایک دوسرے کے اوپر رکھنا۔ ربیع نے کہا : ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر رکھا گیا یہاں تک کہ ایک جسم ہوگئی۔ عکرمہ نے کہا : (منضودبمعنی) مصفوف ہے، بعض نے کہا : بمعنی مرصوص ہے دونوں کا معنی قریب قریب ہے۔ نضدت المتاع واللبن فھو منضود ونضیدونضد کہا جاتا ہے جب آپ کسی چیز کو دوسری چیز پر رکھیں۔ (شاعر نے) کہا : ورفعتہ إلی السجفین فالنعضد ابوبکر ہذلی نے کہا : (اس سے مراد) تیار شدہ ہے یعنی یہ اس عذاب میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ظالم دشمنوں کے لیے تیار فرمارکھا ہے۔ مسومۃًیعنی نشان زدہ یہ سیما سے مشتق ہے جس کا معنی علامت ہے، یعنی ان پر مہریں لگی ہوئی تھیں۔ ایک قول یہ ہے : ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جس کو اس نے مارنا تھا۔ یہ زمین کے پتھروں سے مشابہت نہ رکھتے تھے۔ فراء نے کہا : انہوں نے گمان کیا کہ سفیدی میں ان پتھروں پر سرخ اور سیاہ خطوط بنے ہوئے تھے پس یہی ان کی تسویم تھی۔ کعب نے کہا، ان پر سفید اور سرخ نشان لگے ہوئے تھے۔ شاعر نے کہا : غلام رماہ اللہ بالحسن یافعًا لہ سیمیا لا تشق علی البصر مسومۃً ، حجارۃً کی صفت ہے اور منضودٍ ، سجیلٍ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : عندربک میں اس بات پر دلیل ہے کہ یہ زمین کے پتھروں میں سے نہیں تھے۔ یہ حضرت حسن کا قول ہے۔ وماھی من الظلمین ببعیدٍ اس سے مراد قوم لوط ہے یعنی یہ سزا ان سے دور نہ تھی۔ مجاہد نے کہا : اس سے کفار قریش کو ڈرایا ہے معنی یہ ہوگا : اے محمد ﷺ پتھر (سزا) تیری قوم کے ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ قتادہ اور عکرمہ نے کہا : اس سے مراد اس امت کے ظالم ہیں۔ قسم بخدا ان پتھروں سے اللہ تعالیٰ نے کسی ظالم کو نہ بچایا۔ نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :” عنقریب میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے کہ مرد مردوں سے جنسی لذت حاصل کریں گے اور عورتیں عورتوں سے اور جب ایسا ہو تو قوم لوط کے عذاب کا انتظار کرنا کہ اللہ تعالیٰ ان پر سجیل کی کنکریاں برسائے گا “۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی : وما ھی من الظلمین ببعید۔ نبی کریم ﷺ سے روایت کردہ ایک اور روایت میں ہے ” دن اور رات کا سلسلہ چلتا رہے گا حتی کہ اس امت کے مرد، مردوں کی پشت کو حلال کرلیں گے جیسا کہ انہوں نے عورتوں کی پشت کو حلال کرلیا ہے پھر امت کے ان لوگوں پر تیرے رب کی طرف سے سنگ باری ہوگی “۔ ایک قول یہ ہے : معنی یہ ہے کہ یہ بستیاں ظالموں سے دور نہیں ہیں اور یہ شام اور مدینہ کے درمیان ہیں ببعید اس وجہ سے مذکر آیا ہے کہ یہ بمکان بعید کے معنی میں ہے۔ پتھر برسانے کے بارے میں دو قول ہیں : ایک قول یہ ہے کہ جب حضرت جبریل (علیہ السلام) نے ان بستیوں کو اٹھایا تو ان پر پتھر برسائے گئے، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ پتھر ان لوگوں پر برسائے گئے جو اس وقت بستیوں میں نہ تھے بلکہ بستیوں سے باہر تھے۔
Top