Al-Qurtubi - Hud : 84
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ
وَ : اور اِلٰي مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا وَ : اور لَا تَنْقُصُوا : نہ کمی کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكُمْ : تمہیں دیکھتا ہوں بِخَيْرٍ : آسودہ حال وَّاِنِّىْٓ : اور بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : ایک گھیر لینے والا دن
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) تو انہوں نے کہا اے قوم ! خدا ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اور ناپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو۔ میں تو تم کو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور (اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو) مجھے تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تم کو گھیر کر رہے گا۔
آیت نمبر 84 تا 95 اللہ تعالیٰ کا ارشاد والیٰ مدین اخاھم شعیبا یعنی وارسلناإلی مدینہم نے مدین کی طرف بھیجا، مدین حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم ہے۔ ان کی وجہ تسمیہ کے متعلق دو قول ہیں : ایک قول یہ ہے کہ وہ مدین بن ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ مدین کہا گیا ہے جب کہ مراد بنو مدین ہیں۔ جس طرح مضر کہا جاتا ہے اور مراد بنومضر ہوتے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ان کے شہر کا نام ہے اس لیے اس کی طرف ان کو منسوب کردیا گیا۔ نحاس نے کہا : مدین غیر منصرف ہئ، کیونکہ یہ شہر کا نام ہے، سورة اعراف میں یہ معنی گزرچکا ہے اور کچھ اس سے زیادہ بھی۔ قال یٰقوم اعبدوا اللہ مالکم من الٰہٍ غیرہ (اس کی تفسیر) گزر چکی ہے۔ ولاتنقصوا المکیال والمیزانوہ اپنے کفر کے ساتھ کم تولنے والے تھے جب ان کے پاس کوئی کھانے کا سامان وغیرہ بیچنے والا آتا تو زائد وزن کے ساتھ اس سے لیتے، اپنی استطاعت کے مطابق وہ انتہائی وزن پورا کرتے اور ظلم کرتے تھے اور اگر کوئی کھانے کا سامان خریدنے کے لیے آتا تو وہ اس کو کم وزن کے ساتھ بیچتے اور اس کے ساتھ بخل کرنے میں انتہائی کوشش کرتے، تو انہیں شرک کا قلع قمع کرکے ایمان لانے اور کم تولنے سے روک کر پورا وزن دینے کا حکم دیا گیا۔ انی ارٰئکم بخیرٍرزق میں وسعت اور نعمتوں کی کثرت مراد ہے۔ حضرت حسن نے کہا : ان کا بھاؤ سستا تھا۔ وانی اخاف علیکم عذاب یومٍ محیطٍ اللہ تعالیٰ نے یوم کی صفت احاطہ کے ساتھ بیان فرنائی حالانکہ اس دن کی احاطہ کے ساتھ صفت سے مراد ان (کفار) کا احاطہ ہے، کیونکہ عذاب کا دن جب ان کا احاطہ کرے گا تو عذاب کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے آخرت میں جہنم کا عذاب ہے اور ایک قول ہے کہ یہ دنیا میں استیصال کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے یہ آخرت میں جہنم کا عذاب ہے اور ایک قول ہے کہ یہ استیصال کا عذاب ہے جب کہ ایک قول ہے کہ بھاؤ بلند ہوجانے (کا عذاب) ہے اس کا یہ معنی حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ حدیث میں نبی کریم ﷺ سے روایت ہے ” ناپ اور تول میں جس قوم کا بھی کمی کرنا ظاہر ہو اللہ تعالیٰ نے ان کو قحط اور مہنگائی میں مبتلا کردیا۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ویٰقوم اوفوا المکیال والمیزان بالقسطکم تولنے سے روکنے کے بعد تاکیداً پورا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ ایفا سے مراد پورا کرنا ہے۔ بالقسط یعنی عدل اور حق کے ساتھ اور مقصود یہ ہے کہ ہر حصہ دار کو اس کا حصہ مل جائے کیل یا وزنی چیز کو پورا کرنا مراد نہیں کیونکہ یہ نہیں فرمایا : اوفوا المکیال والمیزانبل کہ مراد یہ ہے کہ معبود اور معین چیز کے حجم کو نہ کرو اسی طرح صنجات ہے۔ ولاتبخسوا الناس اشیاءھم یعنی جتنی چیز کے لوگ مستحق ہیں تم ان کو اس سے کم نہ دو ۔ ولاتعثوا فی الارض مفسدین اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیا کہ ناپ، تول میں خیانت کرنا زمین میں فساد برپا کرنے تک پہنچا دیتا ہے۔ سورة اعراف میں اس سے کچھ مزید گزرچکا ہے۔ اور ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : بقیت اللہ خیر لکم یعنی عدل کے ساتھ حقوق کو پورا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس کو باقی رکھا ہے وہ ازروئے برکت کے زیادہ ہے اور ظلم وجبر کے ذریعے ناپ تول میں کمی کرکے جو کچھ تم اپنے لیے بچالیتے ہو اس سے انجام کے اعتبار سے زیادہ پسند یدہ ہے۔ اس کا یہ معنی طبری وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ فراء نے کہا : اللہ کی نگرانی (مراد ہے) ابن زید نے کہا : اللہ کی رحمت، قتادہ اور حضرت حسن نے کہا : تمہارے رب کی طرف سے تمہارا حصہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اللہ کا رزق تمہارے لیے بہتر ہے۔ ان کنتم مؤمنینیہ شرط لگائی گئی کیونکہ وہ اس کی صحت کو تبھی جان سکتے ہیں جب وہ ایماندار ہوں۔ ایک قول یہ ہے : یہ احتمال بھی ہے کہ وہ یہ اعتراف کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے تو ان کو یہ خطاب فرمایا : ومآانا علیکم بحفیظٍیعنی نگران جو تمہارے ناپ تول کے وقت تمہاری نگرانی کرتا ہو یعنی تمہاری طرف سے ہونے والے ہر معاملہ کو دیکھنا میرے لیے ممکن نہیں حتی کہ میں حق کو پورا کرنے کے لیے تمہیں پکڑوں۔ ایک قول یہ ہے : اس سے مراد یہ ہے کہ میں اس بات تیار نہیں ہوں کہ تمہاری با فرمانی کی وجہ سے تمہارے اوپر ہونے والی اللہ کی نعمتوں کو زائل ہونے سے بچا لوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قالوایٰشعیب اصلوٰتک اس کو اصلوٰتک مفرد بھی چڑھا گیا ہے۔ تامرل ان نرتک ما یعبداٰبآؤنآ، انمحل نصب میں ہے۔ کسائی نے کہا : با کے مضمر ہونے کی وجہ سے محل جر میں ہے۔ روایت ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کثرت سے نماز پڑھتے تھے اور عبادات پر مواظبت اختیار کرنے والے تھے خواہ فرائض ہوں یا نوافل اور آپ کہتے : نماز تمہیں بےحیائی کے کامون اور گناہ سے روکتی ہے، جب آپ نے ان کو حکم دیا اور ان کو روکا تو انہوں نے نماز کی کثرت پر آپ کے استمرار کو دیکھ کر نکتہ چینی کی اور آپ کا مذاق اڑایا، انہوں نے کہا : اللہ نے ان کے بارے میں خبر نہیں دی۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں صلاۃ بمعنی قراءت ہے۔ یہ سفیان نے اعمش سے نقل کیا ہے، یعنی تیری قراءت تجھے حکم دیتی ہے، یہ اس بات پر دلیل ہے کہ وہ کافر تھے۔ حضرت حسن نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی معبوث فرمایا نماز اور زکوٰۃ کو اس پر فرض کیا ہے۔ اوان نفعل فیٓ اموالنامانشٰٓؤا۔ فراء کا گمان ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے :” اوتنھانا ان نفعل فی اموالنامانشاء “ سلمی اور ضحاک بن قیس نے أوان تفعل فی اموالناماتشاء دونوں فعلوں میں تا کے ساتھ پڑھا ہے۔ معنی یہ ہوگا : اے شعیب جو تو چاہتا ہے۔ نحاس نے کہا : اس قراءت کے مطابق أوأنکا پہلے أن پر عطف ہوگا۔ زید بن اسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا وہ ان دراہم کو کناروں سے کاٹنا ہے۔ ایک قول یہ ہے : اوان تفعل فی اموالنامانشٰٓواکا معنی یہ ہے ہم کم تولنے پر باہم رضا مند ہیں تو تو ہمیں اس سے کیوں روکتا ہے ؟ انک لانت الحلیم الرشیدان کی مراد یہ ہے کہ بزعم خویش (تم دانا اور نیک چلن ہو) ذق ۚ انک انت العزیزالکریم۔ (الدخان) میں ابوجہل کی صفت بھی اسی کی مثل ہے یعنی بزعم خویش۔ ایک قول یہ ہے : انہوں نے آپ کو یہ ازراہ استہزاوتمسخر کہا۔ یہ قتادہ کا قول ہے۔ اسی (قبیل) سے ہے ان کا حبشی کو، ابوالبیضاء کہنا (سفیدی کا باپ) اور سفید رنگ والے کو أبوالجون (سیاہی کا باپ) کہنا۔ اور اسی سے جہنم کے داروغوں کا ابو جہل کے لیے یہ قول ہے۔ ذق ۚ انک انت العزیز الکریم۔ (الدخان) سفیان بن عیینہ نے کہا : عرب بعض اوقات کسی چیز کو اس کی ضد کے ساتھ متصف کرتے ہیں بدشگونی اور فال پکڑنے کے لیے۔ جس طرح سانپ کے ڈسے ہوئے کو سلیم اور فلاہ (صحرا) کو مفازہ (جنگل) ، ایک قول یہ ہے : یہ تعریض ہے اس سے ان کی مراد گالی تھی۔ اور ان سب میں بہترین (تاویل) جس کی صحت پر قبل بھی دلالت کرتا ہے یہ ہے کہ تم حقیقتاً دانا اور نیک چلن ہو تو تم ہمیں کیسے حکم دیتے ہو کہ ہم چھوڑ دیں انہیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے ؟ اس پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے اصلوٰتک تامرک ان نترک مایعبداٰبآؤنآجب انہوں نے آپ کی عبادت اور نماز کی کثرت کو دیکھا اور اس بات کو دیکھا کہ آپ دانا اور نیک چلن ہیں تو انہوں نے اس بات کا انکار کردیا کہ آپ کو ان (بتوں) کو چھوڑ دینے کا حکم دیں گے جن کی عبادت ان کے باپ دادا کیا کرتے تھے۔ اور اس کا مابعد بھی اسی پر دلالت کرتا ہے یعنیقال یٰقوم ارءیتم ان کنت علیٰ بینۃٍ من ربی ورزقنی منہ رزقًا حسنًا یعنی کیا میں تمہیں گمراہی سے نہ روکوں ؟ یہ سارے کا سارا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے یہ حقیقتاً کہا اور وہ آپ کے بارے میں یہی اعتقاد رکھتے تھے۔ یہ معنی بنوقریظہ کے یہودیوں کی اس بات کی طرح ہے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ کو کہی جب آپ نے ان کو یاإخوۃ القردۃ (اے بندروں کے بھائیو) کہا، تو انہوں نے کہا : اے محمد ﷺ ہم آپ کو جاہل نہیں سمجھتے تھے۔ مسئلہ۔ اہل تفسیر نے کہا : ان کو دراہم ودنانیر کو کانٹے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا گیا۔ اور اسی کام سے انہیں منع کیا گیا تھا وہ صحیح (دراہم ودنانیر) کی اطراف کو قینچی سے کاٹ لیتے تھے تاکہ کٹا ہوا حصہ ان کو بچ جائے۔ صحیح (دراہم عدنانیر) کے ساتھ گن کر جب کہ کٹے ہوؤں سے وزن کرکے باہم معاملات کرتے تھے اور وزن میں کمی کردیتے تھے۔ ابن وہب نے کہا کہ امام مالک نے کہا ہے : وہ دراہم ونانیر کو توڑتے تھے۔ متقدمین مفسرین کی ایک جماعت نے یوں ہی کہا ہے جن میں حضرت سعید بن مسیب اور حضرت زید بن اسلم وغیرہ ہیں اور ان دونوں (دراہم ودنانیر) کا توڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ ابوداؤد کی کتاب میں حضرت علقمہ بن عبداللہ سے روایت ہے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا اس نے کہا : بغیر حرج کے مسلمانوں میں چلنے والے سکے کو توڑنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، کیونکہ جب یہ صحیح ہو تب تک اس کا مقصود بھی موجود ہے اور اس کا فائدہ بھی ظاہر ہے اس کو توڑ دیا جائے تو یہ سامان (کی طرح) بن جاتا ہے اور اس کا فائدہ ختم ہوجاتا ہے پس یہی چیز لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے لہٰذا یہ حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : وکان فی المدینۃ تسعۃ رھطٍ یفسدون فی الادض ولایصلحون۔ (النمل) کی تاویل میں کہا گیا ہے کہ وہ دراہم کو توڑتے تھے۔ یہ زید بن اسلم کا قول ہے۔ ابوعمر بن عبدالبر نے کہا : لوگوں کا گمان ہے کہ مدینہ میں محمد بن کعب فرظی کے بعد حضرت زید بن اسلم سے زیادہ تاویل قرآن کو جاننے والا کوئی نہیں تھا۔ مسئلہ۔ اصبغ نے کہا حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم بن خالد بن جنادہ جو زید بن حارث بن عتقی کا غلام تھا نے کہا : جس نے اس (دراہم) کو توڑا اس کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی اور اگر اس نے جہالت کا عذر پیش کیا تو یہ اس کا عذرنہ ہوگا اور یہ محل عذر نہیں ہے۔ ابن عربی نے کہا جہاں تک ان کے قول : لم تقبل شھادتہ (اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی) کا تعلق ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے اور کبیرہ گناہ عدالت کو ساقط کرتے ہیں جب کہ صغیرہ گناہ عدالت کو ساقط نہیں کرتے اور رہا ان کا قول کہ اس سلسلہ میں جہالت کا عذر قابل قبول نہیں تو یہ تو ایک واضح معاملہ ہے جو کسی پر بھی مخفی نہیں اور عذر تو صرف اس صورت ہوتا ہے جس میں صدق ظاہر ہو یا صدق کا سبب پوشیدہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ تو اس کو بندے کی نسبت زیادہ جانتا ہے جس طرح کہ امام مالک (رح) نے کہا۔ مسئلہ۔ جب یہ (قطع دراہم) ایسی با فرمانی اور فساد ہے جس کی وجہ سے شہادت رد کردی جاتی ہے تو جو شخص ایسا کرے اس کو سزا بھی دی جائے گی۔ حضرت ابن مسیب (رح) ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جسے کو ڑے مارے گئے تو آپ نے کہا : یہ کیا ہے ؟ آدمی نے کہا : یہ دنانیر اور دراہم کو کاٹتا ہے، حضرت مسیب نے کہا : یہ تو زمین میں فساد ہے اور آپ نے اس کی کوڑوں (کی سزا) کا انکار نہ کیا، اسی طرح کا واقعہ سفیان سے بھی مروی ہے، ابوعبدالرحمٰن نجیبی نے کہا : میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کے پاس بیٹھا تھا وہ اس وقت امیر مدینہ تھے تو آپ کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا جو دراہم کو کاٹتا تھا اس کے خلاف شہادت قائم ہوچکی تھی تو آپ نے اس کو مارا، اس کا حلق کیا اور اسی حالت میں اس کو چکر لگوانے کا حکم دیا اور یہ حکم بھی دیا کہ (چکر لگوانے والا) یہ کہے : یہ آدمی کی سزا ہے جو دراہم کو کاٹتا ہے، پھر آپ نے حکم دیا کہ اس کو آپ کے پاس واپس لایا جائے، تو آپ نے فرمایا : مجھے تیرا ہاتھ کاٹنے میں صرف یہ مانع ہے کہ آج کے دن سے پہلے میں نے اس سلسلہ میں کوئی کاروائی نہیں کی، اس سلسلہ میں اب میں نے پہل کردی ہے پس جو چاہے قطع ید بھی کرے۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : کوڑے کے ذریعے آپ کے ادب سکھانے میں کوئی کلام نہیں جہاں تک حلق کرنے کا تعلق ہے تو یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے کیا ہے۔ میں اپنی ولایت کے زمانے میں مارتا تھا اور خلق کرتا تھا اور میں ہر اس آدمی کے ساتھ ایسا کرتا رہوں گا جو اپنے بالوں کو نافرمانی پر معاون اور فساد کے سلسلہ میں ان کے ذریعے خوبصورتی کے حصول کا ذریعہ سمجھے گا۔ اور یہ (بالوں کا) کاٹنا نافرمانی کے ہر اس طریقے میں لازم ہے جو بدن میں غیر موثر ہو اور جہاں تک اس کا ہاتھ کاٹنے کا تعلق ہے تو یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے چوری کے باب سے لیا ہے اور یہ سزا دراہم کو کاٹنے کی وجہ سے ہو نہ کہ ان کو توڑنے کی وجہ سے کیونکہ توڑنا تو وصف میں فساد پیدا کرنے کے مترادف ہے جب کہ کاٹنا اس کی مقدار میں کمی کرنے کے مترادف ہے۔ تو یہ خفیہ طور پر مال لینا ہی ہوگا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے : کیا قطع ید کے سلسلہ میں حرز اصل نہیں ؟ تو ہم نے کہا : یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر ؓ یہ خیال کرتے ہوں کہ مخلوق کے درمیان دینار یا دراہم میں فرق کرنے کے لیے ان کی بناوٹ ہی ان کے لیے حرز ہے۔ اور ہر چیز کا حرز اس کی حالت کے مطابق ہوتا ہے اس کو حضرت ابن زبیرؓ نے نافذ کیا اور آپ نے دنانیر اور دراہم کو کاٹنے کی وجہ سے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹا۔ ہمارے مالکی علماء نے کہا : بیشک دنانیر ودراہم پر اللہ تعالیٰ کے نام کی مہریں ہیں اگر اہل تاویل کے قول کے مطابق اللہ کی مہر کو توڑنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو وہ اس کا اہل تھا اور جس نے بادشاہ کے نام والی مہر کو توڑا تو اسے تادیبا سزا دی جائے گی۔ ابن عربی نے کہا : میرا خیال ہے کہ قطع ید دراہم کو کاٹنے کے سبب سے ہوگا ان کو توڑنے کی وجہ سے نہیں۔ میں اپنی ولایت کے زمانے میں یہی کرتا ہوں مگر یہ کہ میں جہاں کے ساتھ گھرا رہا۔ میں نے گمراہ حاسدین کی گفتگو کے سبب اس میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا پس اہل حق میں سے جو ایسا کرسکتا ہے اس کو اللہ سے اجروثواب کی امید کرتے ہوئے ایسا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ادشاد : قال یٰقوم ارءیتم ان کنت علیٰ بینۃٍ من ربییہ گزرچکا ہے۔ ورزقنی منہ رزقًا حسنًا یعنی کھلا اور حلال۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کثیر المال شخص تھے۔ یہ قول حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ کا ہے۔ ایک قول یہ ہے : اس سے مراد ہدایت وتوفیق اور علم ومعرفت ہے۔ کلام محذوف بھی ہے، یعنیافلاانھکم عن الضلال (کیا میں تمہیں گمراہی سے نہ روکوں) ایک قول یہ ہے : ارءیتم ان کنت علیٰ بینۃٍ من ربیکا معنی یہ ہے کہ کیا میں گمراہی کی اتباع کروں ؟ ایک قول یہ ہے : ارءیتم ان کنت علیٰ بینۃٍ من ربیکا معنی ہے کہ تم مجھے کم تولنے اور کسی کا حق گھٹانے کے سلسلہ میں نافرمانی کا حکم دیتے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے غنی فرمادیا ہے ؟ ومآارید ان اخالفکم، أرید کی وجہ سے محل نصب میں ہے۔ الیٰ مآ انھٰکم عنہ یعنی میں ایسا نہیں کرتا کہ تم کو کسی کام سے روکوں اور خود اس کا ارتکاب کروں جب طرح میں اس کام کو چھوڑتا نہیں ہوں جس کو کرنے کا تمہیں حکم دوں۔ ان ارید الالاصلاح ما استطعت یعنی میں اصلاح کے کام علاوہ کچھ نہیں چاہتا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ (میں یہ چاہتا ہوں) کہ عدل کے ذریعے اپنی دنیا کی اور عبادت کے ذریعے اپنی آخرت کی اصلاح کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے ما استطعت فرمایا کیونکہ کوئی کام سر انجام دینے کی شرط استطاعت ہے صرف ارادہ نہیں۔ مامصدریہ ہے یعنی میں اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق اصلاح چاہتا ہوں۔ وماتوفیقیٓیعنی میری ہدایت، توفیق سے مراد ہدایت ہے الا باللہ ؕ علیہ توکلت یعنی میں نے بھروسا کیا۔ والیہ انیب یعنی اپنے اوپر یہ تمام مصائب آنے کی صورت میں (اسی کی طرف) لوٹتا ہوں۔ ایک قول یہ ہے : آخرت میں اسی کی طرف لوٹوں گا۔ ایک قول یہ ہے کہ انابت سے مراد دعا ہے اور اس کا معنی یہ ہوگا کہ اسی کی خاطر میں دعوت دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : یٰقوم لایجرمنکمیحییٰ بن وثاب نے یجرمنکمپڑھا ہے۔ شاقیٓمحل رفع میں ہے۔ ان یصیبکم محل نصب میں ہے، یعنی میری دشمنی ایمان کو ترک کرنے پت نہ ابھارے ورنہ تمہارے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو تم سے پہلے کفار کے ساتھ ہوا یہ حضرت حسن اور قتادہ کا قول ہے۔ یجرمنکمکا معنی سورة مائدہ، شقاق اور سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ یہاں یہ عداوت کے معنی میں ہے۔ یہ سدی کا قول ہے اسی سے اخطل کا یہ قول ہے : الا من مبلغ عنی رسولا فکیف وجدتم طعم الشقاق حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ شقاقی کا معنی اضراری ہے۔ قتادہ نے کہا : اس کا معنی (فراقی) میری جدائی ہے۔ وما قوم لوطٍ منکم ببعیدٍاس کا سبب یہ ہے کہ وہ قوم لوط کی ہلاکت کے زمانے کے قریب تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ قوم لوط کے گھر تم سے دور نہیں اصل میں بمکان بعید ہے اسی وجہ سے بعیدکو واحد ذکر کیا گیا۔ کسائی نے کہا : یعنی ان کے گھر تمہارے گھروں میں (سے دور نہیں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اوستغفرواربکم ثم توبوٓاالیہ اس کی تشریح گزرچکی ہے۔ ان ربی رحیم ودودیہ اللہ سبحانہ کے اسماء میں سے دواسم ہیں۔ ہم (قرطبی) نے ان کو اپنی کتاب الاسنی شرح الاسماء الحسنی میں بیان کیا ہے۔ جو ہری نے کہا : جب آپ کسی کے ساتھ محبت کریں تو کہتے ہیں ” وددت الرجل اودہ ودا “ اور الودود سے مراد محبت کرنے والا ہے الود، الؤد اور المودۃ کا معنی محبت ہے۔ نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ شعیب (علیہ السلام) کا ذکر ہوتا تو آپ فرماتے : ” وہ انبیاء کے خطیب ہیں “۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قالوایٰشعیب مانفقہ کثیرًامماتقول یعنی ہم نہیں سمجھتے، کیونکہ آپ بعث الموت اور دوبارہ اٹھائے جانے میں سے غائب امور پر ہمیں ابھارتے ہیں اور آپ ہمیں ایسی نصیحتیں کرتے ہیں جیسی نصیحتوں کا ہمارے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ انہوں نے آپ کا کلام سننے سے اعراض برتتے ہوئے اور اسے حقیر سمجھتے ہوئے یہ بات کہی فقہ، یفقہ کہا جاتا ہے جب کوئی قفہ کو سمجھے۔ کسائی سے ققہ فقھاحکایت کیا گیا ہے جب کوئی فقیہ بن جائے۔ وانالنرٰئک فیناضعیفًاحضرت سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ کے کہا کہ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی بصارت کو مسئلہ تھا۔ امام ثوری نے کہا : کہ ایک قول یہ ہے کہ آپ کی نظر کمزور تھی، ان سے نحاس نے حضرت سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ کے قول کی مثل قول بیان کیا۔ نحاس نے کہا : اہل زبان نے بیان کیا ہے کہ حمیراندھے کو ضعیف کہتے ہیں یعنی اس کی بصارت جانے کی وجہ سے وہ ضیعف ہوگیا، جس طرح کہ اس کو ضریر کہا جاتا ہے یعنی اس کی بنیائی جانے کے سبب اس کا نقصان ہوگیا۔ اسی طرح اس کو مکفوف بھی کہا جاتا ہے یعنی بنیائی جانے کی وجہ سے وہ دیکھنے سے رک گیا۔ حضرت حسن نے کہا : اس کا معنی ضعیف البدن ہے یہ علی بن عیسیٰ نے بیان کیا ہے۔ سدی نے کہا : ضعیفًاکا معنی وحیداً ہے یعنی اکیلا یعنی آپ کے پاس وہ لشکر اور معاون نہیں جن کے ذریعے آپ ہماری مخالفت کرسکیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دنیا کے صالح اور مصالح اور اہل دنیا کی سیاست کی معرفت کی کمی ہے۔ ضعیفًاحال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ولولارھطکمبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے، آدمی کے رہط سے مراد وہ خاندان ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتا ہے اور جن کے ذریعے اسے تقویت ملتی ہے۔ اسی سے الراھطاء ہے جو کہ چوہے کے بل کو کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے وہ اعتماد حاصل کرتا ہے اور اسی میں اپنے بچوں کو چھپاتا ہے۔ لرجمنٰک یعنی ہم رجم کے ذریعے آپ کو قتل کردیں گے وہ جب کسی آدمی کو قتل کرتے تو اسے پتھروں کو چھپاتا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے رھط ان کی ملت کے لوگ تھے ایک قول یہ ہے : لرجمنٰککا معنی ہے کہ برا بھلا کہیں گے۔ اس سے جعدی کا یہ قول ہے : تراجمنا بمر القول حتی نصیر کأننا فرسا رھان رجم کا معنی بھی ہے اسی وجہ سے شیطان کو رجیم کہا جاتا ہے۔ وماانت علینا بعزیزٍیعنی آپ ہمارے اوپر غالب آنے والے نہیں نہ ہی جبر کرنے والے اور نہ روکنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قال یٰقوم ارھطیٓ، ارھطیٓمبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور معنی یہ ہوگا کہ کیا تمہارے دلوں میں میرا قبیلہاعزعلیکم من اللہ اللہ سے زیادہ معزز ہے، زیادہ عزت والا اور زیادہ برتر ہے حالانکہ وہ تمہارا مالک ہے ؟ واتخذتموہ ورآء کم ظھریًا یعنی اللہ کے احکام میں سے جو میں تمہارے پاس لایا ہوں انہیں تم نے پس پشت ڈال دیا ہے، تم نے انہیں اپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا ہے، اور میری قوم کے ڈر سے تم مجھے قتل کرنے سے رک گئے ہو۔ جب کوئی آدمی کسی کام میں کوتاہی کرے تو جعلت امرہ بظھرہ کہا جاتا ہے۔ سورة بقرہ میں یہ معنی گرزچکا ہے۔ ان ربی بما تعملونان کے کرتوتوں سے مراد کفر اور معصیت وغیرہ ہیں۔ محیط، محیطبمعنی وہ جاننے والا ہے ایک قول کے مطابق محیطبمعنیحفیظحفاظت کرنے والا ہے۔ قولہ تعالیٰ : ویٰقوم اعملواعلیٰ مکانتکم انی عامل ؕ سوف تعلمونیہ دھمکی اور وعید ہے۔ سورة الانعام میں یہ ارشاد گزر چکا ہے۔ من یاتیہ عذاب یخزیہ یعنی کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے ہلاک کردے گا ؟ من محل نصب میں ہے جیسے واللہ یعلم المفسدمن المصلح (البقرہ :220) ومن ھوکاذبمعطوف علیہ ہے اور ایک قول یہ ہے : اس سے مراد یہ ہے کہ عنقریب تم جان لوگے کہ ہم میں سے چھوٹا کون ہے ؟ ایک قول یہ ہے : یہ محل رفع میں ہے، تقدیر عبارت یہ ہے یخزیہ ومن ھوکاذب اور ایک قول کے مطابق تقدیر عبارت یہ ہے : من ھوکاذب فسیعلم کذبہ ویذوق وبال امرہجو جھوٹا ہے عنقریب اپنے جھوٹ کو جان لے گا اور اپنے معاملے کے وبال کا مزہ چکھ لے گا۔ فراء کا خیال یہ ہے کہ وہ ومن ھوکاذبین ھوضمیر کو اس لیے لائے ہیں کیونکہ وہ من قائم نہیں کہتے بلکہ وہ من قام، ومن یقوم کہتے ہیں اور اگر من قائم کہنے کی ضرورت ہو تو من قائم کہتے ہیں، پس انہوں نے ھوکا اضافہ اس لیے کردیا تاکہ جملہ فعل یفعل کے قائم مقام ہوجائے۔ نحاس نے کہا : اس کے خلاف شاعر کا یہ شعر دلالت کرتا ہے : من رسول إلی الثریا بانی ضقت ذرعا بھجرھا والکتاب وارتقبوٓاانی معکم رقیب یعنی عذاب اور ناراضگی کا انتظار کرو، پس میں مدد اور رحمت کا منتظر ہوں۔ قولہ تعالیٰ : ولماجآء امرنا ایک قول یہ ہے : جبریل نے ایک چیخ ماری تو ان کی روحین ان کے جسموں سے باہر نکل آئیں۔ نجیناشعیبًاوالذین اٰمنوامعہ برحمۃٍ مناواخذت الذی ظلموا الصیحۃ چیخ سے مراد جبریل (علیہ السلام) کی چیخ ہے اور اخذتفعل مونثالصحیۃ کی وجہ سے لایا گیا ہے۔ جب کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کے قصہ میں واخذالذین ظلموا الصیحۃ (ہود :67) میں فعل کی تذکیرالصیحۃ بمعنی الصیاح کی صورت میں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سوائے حضرت صالح (علیہ السلام) اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوموں کے دو قوموں کو ایک عذاب سے ہلاک نہیں فرمایا، ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے کڑک کے ذریعے ہلاک فرمایا، صرف اتنا فرق تھا کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کو نیچے سے کڑک نے آلیا جبکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو اوپر سے۔ فاصبحوافی دیارھم جٰثمین۔ۙ کان لم یغنوا فیھا ؕالابعدًالمدین کما بعدت ثمود۔ اسکا معنی گزر چکا ہے۔ کسائی نے بیان کیا ہے کہ ابوعبدالرحمن سلمی نے کما بعدت ثمودعین کے ضمہ کیساتھ پڑھا ہے نحاس نے کہا : لغت میں معروف یہی ہے کہ جب کوئی ہلاکت ہوجائے تو بعد یبعدبعداً وبعداً کہا جاتا ہے۔ مہدوی نے کہا : جسنے بعدت میں عین کو مضموم پڑھا تو یہ لغت خیر اور شر دونوں میں مستعمل ہے اور اسکا مصدر البعد ہے جب کہ بعدتبالخصوص شر میں استعمال ہوتا ہے۔ البعدجماعت کی قراءت کے مطابق لعنت کے معنی میں آتا ہے بعض اوقات دو لغتوں کا معنی، معنی میں قربت کیوجہ سے جمع ہوجاتا ہے، تو یہ اس لفظ میں ہوتا ہے جسکا مصدر علی غیر لفظہ آتا ہے۔
Top