Al-Qurtubi - Hud : 8
وَ لَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِلٰۤى اُمَّةٍ مَّعْدُوْدَةٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُهٗ١ؕ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْهِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْهُمْ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَئِنْ : اور اگر اَخَّرْنَا : ہم روک رکھیں عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابَ : عذاب اِلٰٓى : تک اُمَّةٍ : ایک مدت مَّعْدُوْدَةٍ : گنی ہوئی معین لَّيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے مَا يَحْبِسُهٗ : کیا روک رہی ہے اسے اَلَا : یاد رکھو يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْهِمْ : ان پر آئے گا لَيْسَ : نہ مَصْرُوْفًا : ٹالا جائے گا عَنْهُمْ : ان سے وَحَاقَ : گھیر لے گا وہ بِهِمْ : انہیں مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے
اور اگر ایک مدت معین تک ہم ان سے عذاب روک دیں تو کہیں گے کہ کون سی چیز عذاب کو روکے ہوئے ہے۔ دیکھو جس روز ان پر واقع ہوگا (پھر) ٹلنے کا نہیں اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزأ کیا کرتے ہیں وہ ان کو گھیر لے گی۔
آیت نمبر 8 اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ولین اخرنا عنھم العذاب الٰٓی امۃ معدودۃ، لین میں ” لام “ قسم کا ہے اور لیقولن کا ” لام “ جواب قسم ہے۔ الٰٓی امۃٍ کا معنی مدت اور معلوم زمانے تک، یہاں امۃٍ کا معنی مدت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ، مجاہد، قتادہ اور جمہور مفسرین نے یہی کہا ہے۔ اور امۃٍکی اصل جماعت ہے اور حین اور سنین کو امۃٍکے ساتھ تعبیر کیا گیا کیونکہ امۃٍاس میں ہوتی ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا مضاف الیہ حذف ہے اور معنی ہے الی مجئ امۃ جس میں کوئی ایسا نہیں جو ایمان لاتا پس وہ ہلاکت کے مستحق ہوجاتے یا الی انقراض امۃ یعنی ایسی امت کے گزرنے تک جس میں وہ ہے جو ایمان لاتا ہے پس اس کے گزرنے کے بعد ایمان لاتا وہ باقی نہ رہتا، اور امت مشترک ہے اس کی آٹھ صورتیں بنتی ہیں۔ امت جماعت ہوتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی وجد علیہ امۃً من الناس (القصص :23) اس پر اس نے لوگوں کی جماعت کو پایا۔ اور امت انبیاء (علیہم السلام) کے پیروکاروں کو بھی کہتے ہیں، امت سے مراد بھلائی کا وہ جامع آدمی ہے جس کی اقتدا کی جاتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ان ابرٰھیم کان امۃً قانتا للہ حنیفًا (النحل :120) بیشک ابراہیم ایک امت تھے، اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار۔ امت سے مراد دین اور ملت ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشادانا وجدنآ اٰبآء نا علٰٓی امۃٍ (الزخرف : 22) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا۔ امت سے مرادحین اور زمان ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ولین اخرنا عنھم العذاب الٰٓی امۃٍ معدودۃٍ اور اگر ہم ملتوی کردیں عذاب کچھ عرصہ تک اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد واد کر بعد امۃٍ (یوسف : 45) امت سے مراد قدوقامت بھی ہے اس سے مراد انسان کی لمبائی اور اس کی بلندی ہے، اسی سے کہا جاتا ہے : فلاں حسن الامۃ یعنی فلاں اچھی قامت والا ہے۔ اور امت سے مرادوہ آدمی بھی ہے جو اپنے دین میں منفرد ہو اس میں کوئی بھی اس کا شریک نہ ہو نبی کریم ﷺ نے فرمایا یبعث زیدبن عمرو بن نفیل امۃً وحدہ زید بن عمرو بن نفیل کو اٹھایا جائے گا۔ امت سے مراد ماں (الام) ہے کہا جاتا ہے : ھذہ امۃ زید یعنی زید کی ماں۔ لیقولن مایحبسہ یعنی عذاب۔ انہوں نے یہ یا تو اس عذاب کی تکذیب کرتے ہوئے کہا ان سے اس عذاب کے مؤخر ہونے کی وجہ سے یا پھر جلدی کرتے ہوئے اور استہزا کرتے ہوئے کہا، اس سے مراد یہ ہے : کس چیز نے ہم سے اس کو روکے رکھا۔ الا یوم یاتیھم لیس مصروفا عنھم کہا گیا ہے : یہ غزوۂ بدر میں مشرکین کا قتل ہے، اور جبرئیل کا قتل کرنا ہے ان مذاق کرنے والوں کو جس طرح کہ بعد میں آئے گا۔ وحاق بھم یعنی وہ نازل ہوا اور اس نے احاطہ کیا۔ ماکانوابہ یستھزءون یعنی جزا اس کی جس کا وہ مذاق کیا کرتے تھے۔ اس میں مضاف محذوف ہے۔
Top