Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 25
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ۙ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللّٰهِ : اللہ کا عہد مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مِيْثَاقِهٖ : اس کو پختہ کرنا وَيَقْطَعُوْنَ : اور وہ کاٹتے ہیں مَآ : جو اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ : اللہ نے حکم دیا اس کا اَنْ : کہ يُّوْصَلَ : وہ جوڑا جائے وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اُولٰٓئِكَ : یہی ہیں لَهُمُ : ان کے لیے اللَّعْنَةُ : لعنت وَلَهُمْ : اور ان کے لیے سُوْٓءُ الدَّارِ : برا گھر
اور جو لوگ خدا سے عہد واثق کر کے اسکو توڑ ڈالتے اور جن (رشتہ ہائے قرابت) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کو قطع کردیتے ہیں اور ملک میں فساد کرتے ہیں ایسوں پر لعنت ہے۔ اور انکے لئے گھر بھی برا ہے
آیت نمبر 25 تا 26 قولہ تعالیٰ : والذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ جب اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو پورا کرنے والوں اور اپنے حکم پر عمل پیرا ہونے والوں کا ذکر فرما چکا تو اب ان کا ذکر فرما رہا ہے جو ان کے برعکس ہیں۔ ” نقض المیثاق “ سے مراد اس کے حکم کا ترک ہے۔ ایک قول یہ ہے : اپنے عقلوں کو مہمل چھوڑ دینا مراد ہے، کہ وہ عقل کے ذریعے تدبر نہیں کرتے تاکہ اللہ کو پہچان لیں۔ ویقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل یعنی قطع تعلق کرتے ہیں اور تمام انبیاء پر ایمان لانے کے عہد کو قطع کرتے ہیں۔ ویفسدون فی الارض یعنی کفر اور گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اولئک لھم اللعنۃ یعنی رحمت سے دوری اور محرومی۔ ولھم سوء الدار اس سے مراد سؤ المنقلب ہے اور وہ جہنم ہے۔ حضرت سعد بن وقاص ؓ نے فرمایا : اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ! یہ آزاد لوگ ہیں۔ قولہ تعالیٰ : اللہ یبسط الرزق لمن یشآء ویقدر جب اللہ تعالیٰ نے مومن و کافر کے انجام کو ذکر فرمایا تو پھر یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں رزق کو کشادہ بھی کرتا ہے اور تنگ بھی کیونکہ یہ دار الامتحان ہے، پس کافر پر رزق کی کشادگی اس کی عزت کی دلیل نہیں اور نہ ہی کسی مومن پر رزق کی تنگی اس کی اہانت کی دلیل ہے۔ یقدر کا معنی ” یضیق “ ہے یعنی وہ تنگ کرتا ہے۔ اسی سے ومن قدر علیہ رزقہ (الطلاق :7) ہے یعنی اس نے تنگ کیا اور ایک قول کے مطابق یقدر سے مراد یہ ہے کہ وہ ضرورت کی مقدار عطا فرماتا ہے۔ وفرحوا بالحیوۃ الدنیا یعنی مشرکین مکہ دنیا پر خوش ہیں اور اس کے علاوہ سے واقف نہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس سے جاہل ہیں۔ یہ یفسدون فی الارض پر معطوف ہے۔ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے تقدیر عبارت یہ ہے : والذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ ویقطعون ما امر اللہ بہ أن یوصل ویفسدون فی الارض وفرحوا بالحیاۃ الدنیا۔ وما الحیوۃ الدنیا فی الاخرۃ، فی الاخرۃ سے مراد فی جنب الاخرۃ ہے یعنی آخرت کے پہلو میں الا متاع یعنی متاع من الأمتعۃ جس طرح پیالا اور وہ چھوٹا برتن جس میں سالن کھایا جاتا ہے۔ مجاہد نے کہا : تھوڑی چیز جو چلی جانے والی ہے، دن چڑھا تو اسے زوال لازمی آئے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ اس طرح کا زادرہ ہے جس طرح ایک چروا ہے کے پاس زادراہ ہوتا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے : متاع الحیاۃ الدنیا د سے مراد دنیوی زندگی کا وہ حصہ ہے جس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق : اس سے مراد تقوی اور نیک عمل میں سے جو اس دنیا سے آخرت کی طرف بطور زادراہ لے جاتا ہے وہ ہے۔
Top