Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 32
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ١۫ فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ
وَلَقَدِ : اور البتہ اسْتُهْزِئَ : مذاق اڑایا گیا بِرُسُلٍ : رسولوں کا مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَمْلَيْتُ : تو میں نے ڈھیل دی لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) ثُمَّ : پھر اَخَذْتُهُمْ : میں نے ان کی پکڑ کی فَكَيْفَ : سو کیسا كَانَ : تھا عِقَابِ : میرا بدلہ
اور تم سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ تمسخر ہوتے رہے ہیں تو ہم نے کافروں کو مہلت دی پھر پکڑ لیا۔ سو (دیکھ لو کہ) ہمارا عذاب کیسا تھا ؟
آیت نمبر 32 تا 34 قولہ تعالیٰ : ولقد استھزی برسل من قبلک فاملیت للذین کفروا ثم اخذتھم۔ الاستھزاء کا معنی سورة ” بقرہ “ میں اور الإملاء کا معنی ” آل عمران “ میں گزر چکا ہے، یعنی ان کا تمسخر اڑایا گیا اور ان کے ساتھ زیادتی کی گئی، پس میں نے کافروں کو کچھ مدت مہلت دی تاکہ جو میرے علم میں تھے کہ ایمان لائیں گے وہ ایمان لے آئیں، جب قضاء پوری ہوئی تو میں نے عقوبت کے ذریعے انہیں پکڑ لیا۔ فکیف کان عقاب یعنی آپ نے کیسا دیکھا جو میں نے ان کے ساتھ کیا ؟ پس آپ کی قوم کے مشرکین کے ساتھ بھی میں اسی طرح کروں گا۔ قولہ تعالیٰ : افمن ھو قآئم علی کل نفس بما کسبت یہ قیام وہ نہیں جو قعود کی ضد ہوتا ہے بلکہ مخلوق کے امور کی ولایت کے معنی میں ہے، جس طرح کہا جاتا ہے : قام فلان بشغل کذا، فانہ قائم علی کل نفس بما کسبت یعنی وہ ہر نفس کے اعمال کی نگہبانی کرتا ہے، اسے پیدا کرتا ہے، اسے رزق دیتا ہے، اسکی حفاظت کرتا ہے اور اس کے عمل پر اسے جزا دیتا ہے، معنی یہ ہوگا کہ وہ ایسا حفاظت کرنے والا ہے جو غافل نہیں ہوتا، جو اب محذوف ہے۔ مطلب یہ ہوگا : کیا غافل نہ ہونے والا نگہبان اس کی طرح ہے جو غافل ہوتا ہے۔ ایک قول یہ ہے : افمن ھو قآئم میں قآئم کا معنی عالم جاننے والا ہے۔ یہ اعمش کا قول ہے۔ شاعر نے کہا : فلولا رجال من قریش أعزۃ سرقتم ثیاب البیت واللہ قائم اللہ جانتا ہے کہ اگر قریش کے سرداروں کا تجھے خوف نہ ہوتا تو تم بیت اللہ کا غلاف بھی چرا لیتے۔ واللہ قائم یعنی واللہ عالم، پس اللہ تعالیٰ ہر نفس کے اعمال کو جاننے والا ہے۔ ایک قول کے مطابق ضحاک کے نزدیک : اس سے مراد وہ ملائکہ ہیں جو بنی آدم کے مؤکل ہیں وجعلوا حال ہے، یعنی قد جعلوا یا استھزئ پر عطف ہے یعنی استھزئ وجعلوا، یعنی انہوں نے نام رکھ دیا للہ شرکآء جو اللہ کے شریک ہیں، شرکآء سے مراد وہ بت ہیں جن کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے۔ قل سموھم یعنی اے محمد ! آپ ان کو فرمائیے : سموھم یعنی ان کے نام تو بیان کرو، یہ دھمکی کے طور پر ہے، یعنی انہوں نے نام بھی رکھے ہوئے ہیں : لات، مناۃ اور ہبل وغیرہ۔ ام تنبئونہ بما لا یعلم فی الارض۔ ام استفہامیہ بطور توبیخ ہے یعنی کیا تم اسے آگاہ کرتے ہو۔ درحقیقت یہ گزشتہ استفہام پر عطف معنوی ہے، کیونکہ سموھم کا معنی ہے ألھم أسماء الخالقین۔ ام تنبئونہ بما لا یعلم فی الارض ؟ ایک قول یہ بھی ہے : معنی یہ ہے کہ آپ ان کو فرمائیے کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کو کسی باطنی بات سے آگاہ کرنا چاہتے ہو جسے وہ نہیں جانتا یا ظاہری قول کی بات کرتے ہو جسے وہ جانتا ہے، اگر وہ کہیں کہ باطن کے متعلق جس کو وہ نہیں جانتا تو یہ محال ہے اور اگر وہ کہیں ظاہر کی بات ہے جسے وہ جانتا ہے تو آپ انہیں فرمائیے : ان کے نام تو بتاؤ، پھر اگر وہ لات و عزی کا نام لیں تو آپ انہیں فرمائیں : اللہ تو اپنے لیے کسی کو شریک نہیں جانتا۔ ایک قول کے مطابق : ام تنبئونہ کا عطف افمن ھو قآئم پر ہے۔ یعنی کیا وہ جو نگہبان ہے یا تم اللہ تعالیٰ کو ایسی چیز سے آگاہ کرنا چاہتے ہو جس کو وہ نہیں جانتا، یعنی تم اللہ کا شریک بناتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے لیے کسی شریک کو نہیں جانتا، کیا تم اسے زمین میں اپنے کسی شریک سے آگاہ کرتے ہو حالانکہ وہ اسے نہیں جانتا ؟ اور زمین میں شریک کے ہونے کی نفی اس لیے کی ہے کہ زمین کے علاوہ کسی اور مقام پر تو اس کا کوئی شریک ہے ہی نہیں کیونکہ مشرکین نے زمین میں ہی اس کے شرکاء کا دعوی کیا ہے۔ ام بظاھر من القول کا معنی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انبیاء پر نازل فرمایا حضرت قتادہ نے کہا : اس کا معنی باطل ہے، اسی سے شاعر کا قول ہے : أعیرتنا البانھا ولحومھا وذالک عار یا بن ریطۃ ظاھر عار ظاھر سے مراد باطل ہے۔ ضحاک نے کہا : اس سے مراد بکذب من القول یعنی یا وہ گوئی ہے۔ اور پانچواں احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے نظاھر من القول ایک ایسی محبت ہوگی جس کو وہ اپنی گفتگو کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں اور کلام کا معنی یہ ہوگا : کیا تم اسے اس کی خبر مشاہدہ کرکے دیتے ہو یا بطور دلیل تم یہ بات کرتے ہو، بل زین للذین کفروا مکرھم یعنی اس کو چھوڑئیے، بلکہ کافروں کے لیے ان کا مکرو فریب آراستہ کردیا گیا ہے۔ ایک قول یہ ہے : اس طریقے سے یہ استدراک ہے، یعنی اللہ کا کوئی شریک نہیں، لیکن کافروں کے لیے ان کا مکرو فریب آراستہ کردیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد نے بل زین للذین کفروا مکرھم پڑھا ہے یعنی فعل مجہول کے بجائے فعل معروف۔ اور جماعت کی قرات کے مطابق جس ذات نے کافروں کے لیے ان کے مکرو فریب کو آراستہ کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ایک قول کے مطابق : وہ شیطان ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کفر کو ہی مکر کہہ دیا گیا ہو، کیونکہ رسول کے ساتھ ان کا مکر کفر ہی تھا۔ وصدوا عن السبیل یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں راہ (راست) سے روک دیا، یہ حمزہ اور کسائی کی قرات ہے جبکہ باقیوں نے فتحہ کے ساتھ اسے پڑھا ہے یعنی صدوا ابو حاتم نے بھی اللہ تعالیٰ کے دیگر ارشادات کی وجہ سے اسے ہی اختیار کیا ہے جیسے وتصدون عن سبیل اللہ (الاعراف : 86) اور ھم الذین کفروا وصدوکم عن المسجد الحرام (الفتح : 25) اور زین اور صدوا میں ضمہ کی قرات بھی عمدہ ہے کیونکہ اہل سنت کے مذہب میں یہ معلوم بات ہے کہ اس کا فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے، تو اس آیت میں قدر کا اثبات ہے یہی ابو عبید کا مختار ہے۔ یحییٰ بن وثاب اور علقمہ نے اسے صدوا صاد کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، اسی طرح ھذہ بضاعتنا ردت الینا میں ردت کو را کے کسرہ کے ساتھ مجہول پڑھا ہے۔ ان کی اصل صدور اور رددت ہے، جب پہلی دال کا دوسری دال میں ادغام کیا گیا تو اس کی حرکت ما قبل کو دی گئی تو پہلے حرف پر کسرہ آگیا۔ ومن یضلل اللہ یعنی اس کی ذلت و رسوائی کے ذریعے فما لہ من ھاد۔ ھاد سے مراد توفیق دینے والا ہے۔ اس صورت میں کو فیوں اور ان کے متبعین کی قرات کا ثبوت ہے، اس کی دلیل اللہ کا ارشاد ومن یضلل اللہ اور وصدوا ہے، جبکہ بڑے بڑے قراء بغیر یا کے دال پر وقف کرتے ہیں، اسی طرح دال اور واق وغیرہ کیونکہ آپ کسی آدمی کے بارے میں کہتے ہیں : ھذا قاض و وال وھاد تو آپ یا کو اس کے ساکن ہونے اور تنوین کے ساتھ التقاء کی وجہ سے حذف کردیتے ہیں۔ اس کو فما لہ من ھادی و والی وواقی یا کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، یہ ان لوگوں کی لغت کے مطابق ہوگا جو ھذا داعی و والیو واقی یا کے ساتھ پڑھتے ہیں، کیونکہ یا کا حذف تو حالت و صل میں تنوین کے ساتھ التقاء ساکنین کی وجہ سے ہوتا ہے، اور ہماری یہ قرات وقف کی صورت میں ہے، لہٰذا واپس لوٹ آئے گی تو ھادی، والی اور واقی ہوجائے گا۔ خلیل نے قاض کی ندا کے بارے میں : یا قاضی یا کو ثابت رکھ کر کہا ہے، کیونکہ نداء کی صورت میں تنوین نہیں آتی جس طرح الداعی اور المتعالی کی صورت میں تنوین نہیں آتی۔ قولہ تعالیٰ : لھم عذاب فی الحیوۃ الدنیا یعنی راہ راست سے روکے ہوئے مشرکین کے لیے دنیا میں قتل، قید و بند اور اس کے علاوہ بیماریوں اور مصائب کی صورت میں عذاب ہے۔ ولعذاب الاخرۃ اشق یعنی اشد زیادہ سخت، جس طرح آپ کا قول : شق علی کذا یشق۔ وما لھم من اللہ من واق یعنی کوئی ایسا مانع نہیں جو انہیں اس کے عذاب سے بچا سکے اور نہ ہی کوئی دفاع کرنے والا ہے۔ اور من زائدہ ہے۔
Top