Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے) اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔
آیت نمبر 8 تا 9 اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : اللہ یعلم ما تحمل کل انثی یعنی بچہ، بچی، عمدہ، قبیح، نیک اور نافرمان میں سے اور سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ علم غیب میں منفرد ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور ہم نے وہاں امام بخاری کی حضرت ابن عمر ؓ سے حدیث بھی ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” غیب کی چابیاں پانچ ہیں “۔ الحدیث اور اس میں یہ بھی ہے کہ ” جو رحم کم کرتے ہیں اسے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا “۔ وما تغیض الارحام وما تزداد کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت قتادہ نے فرمایا : یعنی یہ ہے کہ جو نو ماہ سے پہلے بچہ گرا دیتی ہیں اور جو نو ماہ سے زیادہ عرصے میں جنتی ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ مجاہد نے کہا : جب عورت حالت حمل میں حائضہ ہوجاتی ہے تو یہ اس کے بچے کے لئے نقصان کا باعث ہوتا ہے اور اگر حیض چھ دن سے زیادہ ہوجائے تو جو نقصان ہوچکا ہوتا ہے وہ پورا ہوجاتا ہے۔ مجاہد سے ہی روایت ہے : الغیض سے مراد ہے ” خون میں سے جو رحم کم کردیتے ہیں “ اور زیادتی سے مراد جو ان سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق : کمی اور زیادتی دونوں بچے کی طرف راجع ہوتی ہیں جس طرح مثلاً ایک انگلی یا کسی اور عضو کا کم ہوجانا یا انگلی یا کسی عضو کا زیادہ ہوجانا۔ ایک قول یہ بھی ہے : الغیض سے مراد حیض کے خون کا ختم ہونا ہے اور وما تزداد سے مراد وضع حمل کے بعد نفاس کا خون ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ حاملہ کو حیض آسکتا ہے یہ امام مالک اور ایک قول کے مطابق امام شافعی کا بھی قول ہے۔ عطا، شعبی اور دیگر کا قول ہے کہ اسے حیض نہیں آسکتا۔ یہی امام (اعظم) ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے آپ کی دلیل یہی آیت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کی تاویل کے بارے میں فرمایا : یہ حمل کا حیض ہوتا ہے، عکرمہ اور مجاہد سے بھی اسی طرح مروی ہے اور یہی حضرت عائشہ ؓ کا ارشاد ہے اور جب حاملہ عورتوں کو حیض آجاتا تو آپ ان کو ترک نماز کا فتوی دیتی تھیں، اور اس وقت صحابہ ؓ کثرت سے موجود تھے کسی نے بھی آپ کی اس بات کا انکار نہیں کیا تو گویا اس پر سب کا اجماع ہوگیا۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ ابن قصار نے کہا ہے : ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو آدمیوں کا بچے کے بارے میں تنازعہ ہوگیا، تو وہ کیس حضرت عمر ؓ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے یہ کیس قیافہ شناسوں کے سامنے پیش کردیا۔ قیافہ شناسوں نے وہ بچہ ان کے ساتھ ملایا، تو حضرت عمر ؓ نے دودھ کی زیادتی کے سبب اس کا فیصلہ فرمایا اور قریشی عورتوں سے آپ نے پوچھا آپ نے فرمایا : دیکھو اس بچے کی کیا صورت حال ہے ؟ انہوں نے کہا : پہلے شوہر نے اس کے ساتھ خلوت کی اور اسے فارغ کردیا تو حالت حمل میں اسے حیض آگیا اس نے یہ سوچا کہ شاید اس کی عدت ختم ہوگئی ہے تو دوسرے مرد نے اس کے ساتھ دخول کیا بچہ دوسرے کے پانی کے ذریعے پروان چڑھا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : اللہ اکبر ! اور بچے کو پہلے مرد کے حوالے کردیا اور یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا اور نہ صحانہ میں سے کسی نے کہا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس پر اجماع ہے۔ واللہ اعلم۔ مخالف کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ حاملہ کو حیض آسکتا ہے اور حاملہ عورت جو خون دیکھے گی وہ حیض ہوگا تو پھر حیض کے ذریعے استبرا صحیح نہیں ہوگا حالانکہ اس پر اجماع ہے کہ حیض کے ذریعے استبراہو جاتا ہے۔ امام مالک سے امام محمد کی کتاب میں ایک روایت ہے جو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ حیض نہیں۔ مسئلہ نمبر 3: اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ حاملہ بعض اوقات نو ماہ سے کم یا زیادہ مدت میں بھی وضع حمل کرتی ہے اور علمائ کا اجماع ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ عبد الملک بن مردوان چھ ماہ کی مدت میں پیدا ہوا تھا۔ مسئلہ نمبر 4: یہ چھ ماہ چاند کے اعتبار سے ہوں گے جس طرح کہ سارے شرعی مہینے۔ اسی وجہ سے امام مالک کے بعض اصحاب سے مذہب کے بارے میں روایت ہے۔ میرا (قرطبی) خیال ہے ابن حارث کی کتاب میں ہے کہ اگر وہ چھ ماہ سے تین دن کم ہوا تو بچہ مہینوں کی کمی یا زیادتی کی علت کے سبب کسی کے ساتھ ملحق ہوگا اس کو ابن عطیہ نے بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 5: حمل کی اکثر مدت میں علماء کا اختلاف ہے۔ ابن جریج نے جمیلہ بنت سعد سے عن عائشہ ؓ روایت کیا ہے آپ نے فرمایا : حمل تکلہ کے سائے کے پھرنے کی مقدار بھی دو سال سے زیادہ نہیں ہوگا، اس کو دار قطنی نے ذکر کیا ہے جمیلہ بنت سعد، عبید بن سعد کی بہن نے لیث بن سعد سے بیان کیا : اس کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال ہوگی۔ امام شافعی (رح) سے چار سال مروی ہے۔ امام مالک سے ایک روایت کے مطابق اور یہی مشہور ہے پانچ سال کی مدت منقول ہے۔ آپ سے ایک روایت مالانہایۃ کی بھی ہے اگرچہ وہ مدت دس سال سے بھی زائد کیوں نہ ہوجائے۔ آپ سے یہ تیسری روایت ہے۔ زہری سے چھ اور سات سال مروی ہیں۔ ابوعمر نے کہا : صحابہ کرام میں سے کسی نے اس کی مدت سات سال کہی ہے۔ امام شافعی سے کئی مدتیں منقول ہیں۔ جن میں سے آخری چار سال ہے۔ کوفی (یعنی احناف) کہتے ہیں : دو سال ہے اس سے زیادہ نہیں۔ محمد بن عبد الحکیم کہتے ہیں : ایک سال ہے اس سے زیادہ نہیں۔ داؤد کہتے ہیں : نو ماہ ہے، ان کے نزدیک حمل اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ابو عمر نے کہا : یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو سوائے اجتہاد کے اور عورتوں کے معروف معاملات کی طرف لوٹنے کے کوئی اصل نہیں وباللہ التوفیق۔ دار قطنی نے ولید بن مسلم سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : میں نے حضرت مالک بن انس کو کہا کہ مجھے حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے حدیث بیان کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” حمل تکلہ کے سائے کے پھرنے کی مقدار بھی دو سال سے زیادہ نہیں ہوتا “ تو آپ نے کہا : سبحان اللہ ! یہ کون کہتا ہے ؟ یہ ہماری لونڈی ہے جو کہ محمد بن عجلان کی بیوی ہے، حاملہ ہوتی ہے اور چار سال میں حمل وضع کرتی ہے، بہت زیادہ سچی عورت ہے اور اس کا شوہر بھی بہت زیادہ سچا ہے۔ اس نے تین حمل بارہ سال کی مدت میں وضع کیے ہیں۔ اس کا ہر حمل چار سال کا ہوتا۔ مبارک بن مجاہد نے اس بات کو ذکر کیا ہے اور کہا : ہمارے ہاں مشہور تھا کہ محمد بن عجلان کی بیوی چار سال میں حمل وضع کرتی تھی اور اسے حاملۃ الفیل کہا جاتا تھا۔ اس نے ہی روایت کیا ہے کہ ایک دن حضرت مالک بن دینار بیٹھے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کہا : اے ابو یحییٰ ! چار سال سے حاملہ عورت کے لیے دعا مانگو وہ شدید تکلیف میں ہے، مالک سخت غصے ہوئے اور مصحف کو بند کیا پھر کہا : یہ قوم ہمیں انبیاء خیال کرتی ہے پھر پڑھا پھر دعا مانگی پھر کہا : اے اللہ ! اگر اس عورت کے پیٹ میں ہوا ہے تو اسے ابھی خارج فرما اور اگر اس کے پیٹ میں بچی ہے تو اسے بچے میں تبدیل فرما، بیشک تو جس کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے، تیرے پاس ” ام الکتاب “ ہے۔ حضرت مالک نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور لوگوں نے بھی ہاتھ اٹھائے، قاصد اس آدمی کے پاس آیا اور کہا : تیری بیوی کو کوئی مسئلہ ہے، وہ آدمی گیا۔ حضرت مالک نے ابھی اپنے ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ مسجد کے دروازے سے وہ آدمی سامنے ہوا اس کی گردن پر ایک بچہ تھا جس کے بال سخت گھنگریالے تھے، (تقریباً ) چار سال کا بچہ، اس کے دانت بالکل برابر تھے اور اس کی ناف کٹی ہوئی تھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس آیا اس نے کہا : اے امیر المومنین ! میں دو سال اپنی عورت سے غائب رہا میں واپس آیا تو وہ حاملہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اس عورت کے رجم کے بارے میں لوگوں کے ساتھ مشاورت کی، تو حضرت معاذ بن جبل ؓ نے کہا : اے امیر المومنین ! اگرچہ آپ کو اس عورت پر اختیار حاصل ہے لیکن اس کے پیٹ پر کوئی اختیار نہیں۔ اس کو چھوڑ دیں یہاں تک کہ یہ وضع حمل کرلے، حضرت عمر ؓ نے اسے چھوڑ دیا، تو اس نے ایسا بچہ جنا جس کے سامنے والے دانت نکل چکے تھے، آدمی نے مشابہت کو پہچان لیا اور کہا : رب کعبہ کی قسم ! یہ میرا بیٹا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : عورتیں معاذ جیسا انسان پیدا نہیں کرسکیں، اگر معاذ نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا۔ ضحاک نے کہا : میری ماں نے مجھے جنا اس حال میں کہ دو سال اس نے مجھے اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھا۔ اس نے مجھے جنا تو میرے دانت نکل چکے تھے۔ امام سے ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ بھی دو سال تک اپنی ماں کے پیٹ میں رہے، ایک قول کے مطابق تین سال رہے۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن عجلان تین سال تک اپنی ماں کے پیٹ میں رہا، ان کی ماں فوت ہوگئی اور وہ بہت زیادہ الٹ پلٹ ہو رہے تھے، تو اس کا پیٹ چاک کیا گیا اور انہیں نکالا گیا تو ان کے دانت نکل چکے تھے۔ حماد بن سلمہ نے کہا ہے کہ ہرم بن حبان کو ہرم کہتے ہی اس لیے ہیں کہ یہ اپنی ماں کے پیٹ میں چار سال رہے۔ غزنوی نے ذکر کیا کہ ضحاک دو سال میں پیدا ہوا۔ اور اس کے دانت نکل چکے تھے تو اس کا نام ضحاک رکھ دیا گیا۔ عباد بن عوام نے کہا : ہماری ایک لونڈی نے چار سال میں بچہ جنا جس کے بال کندھوں تک پہنچ چکے تھے اسکے پاس سے پرندہ گزرا تو اس نے کہا : ” کش “۔ مسئلہ نمبر 6: ابن خویز منداد نے کہا : حیض اور نفاس کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مدت اور حمل کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مدت بطریق اجتہاد ماخوذ ہے، کیونکہ ان کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا ان میں سے کسی چیز پر اتنا ہی حکم لگانا درست ہوگا جتنا ہمارے سامنے ظاہر ہوا ہو یا جتنا عورتوں میں عادتاً پایا جاتا ہو یا نادر طور پر جتنا پایا گیا ہو۔ جب ہم نے کسی عورت کے حمل کو چار یا پانچ سال دیکھ لیا تو ہم نے اس کا حکم لگا دیا، اور جب حیض اور نفاس کے سلسلہ میں ہم نے کوئی مستقل صورت نہ دیکھی تو ہم نے دیکھا کہ عورتوں میں شاذو نادر پائی جانے والی مدت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 7: ابن عربی نے کہا : بعض تساہل پسند مالکیوں سے منقول ہے کہ حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت نو ماہ ہے۔ اور یہ قول سوائے ہلاکت میں پڑنے والے کے کسی نے کبھی بھی نہیں کیا، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ رحم میں تدبیر کرنے والے سات سیارے ہیں وہ ایک ایک ڈیوٹی کرتے ہیں۔ چوتھا مہینہ سورج کا ہوتا ہے، اسی وجہ سے بچہ حرکت کرتا ہے اور اضطراب میں ہوتا ہے۔ جب سات ماہ میں سات سیاروں کے درمیان چکر مکمل ہوجاتا ہے تو آٹھویں ماہ میں وہ کام زحل کے سپرد ہوتا ہے تو وہ اپنی ٹھنڈک کے ساتھ اس کو قبول کرتا ہے، کاش میں ان کے ساتھ مناظرہ کرنے یا جنگ کرنے پر قادر ہوتا، کتنا عجیب ہے چکر تمام ہونے کے بعد وہ زحل پر ہی آسکتا ہے کسی اور کے پاس نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کی خبر دی ہے یا تم اللہ تعالیٰ پر بہتان تراشی کرتے ہو ؟ اور جب یہ ممکن ہے کہ ان میں سے دو کے پاس تدبیر دوبارہ لوٹ سکتی ہے تو یہ کیوں جائز نہیں کہ وہ تدبیر تین یا چار کے پاس دوبارہ آجائے یا تمام کے پاس دو ، تین مرتبہ لوٹ آئے ؟ امور باطنہ پر یہ کیسا باطل گمانات کے ساتھ فیصلہ ہے ؟ مسئلہ نمبر 8: قولہ تعالیٰ : وکل شیء عندہ بمقدار یعنی نقصان اور زیادتی میں سے بمقدار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد ماں کے پیٹ سے بچے کے نکلنے کی مقدار اور نکلنے تک اس کے پیٹ میں اس کے ٹھہرنے کی مقدار ہے۔ حضرت قتادہ نے کہا : اس سے مراد رزق اور زندگی کی مقدار ہے۔ مقدار سے مراد قدر ہے۔ اور آیت کا عموم ان سب کو شامل ہے۔ واللہ سبحانہ أعلم۔ میں (قرطبی) نے کہا : یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مدح بیان کرتی ہے کہ وہ عالم الغیب والشہادۃ ہے، یعنی وہ اس چیز کو بھی جانتا ہے جو مخلوق سے غائب ہے اور اس کو بھی جانتا ہے جس کا مخلوق نے مشاہدہ کر رکھا ہے۔ غیب بمعنی غائب مصدر ہے اور شھادہ بمعنی شاھد مصدر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علم غیب میں منفرد ہونے اور مخلوق پر مخفی چیزوں کا باطن کے ذریعے احاطہ کرنے پر آگاہ فرمایا ہے، اس معاملے میں کسی کی شرکت جائز نہیں، جہاں تک اہل طب کا تعلق ہے جو نشانیوں اور علامات کے ذریعے استدلال کرتے ہیں تو اگر وہ اس کے بارے میں قطعی بات کرتے ہیں تو یہ کفر ہے اور اگر وہ یہ کہیں کہ یہ تجربہ ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ عادت و تجربہ تو ناکام بھی ہوسکتا ہے جبکہ علم میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ الکبیر یعنی وہ ذات کہ ہر چیز اس سے کم درجے میں ہے المتعال اس سے بلند ہے جو مشرکین کہتے ہیں۔ ہر چیز سے اپنی قدرت اور قہر کے ذریعے بلندو برتر ہے۔ ان دونوں صفات کا ذکر ہم (قرطبی) نے ” شرح الاسماء “ میں مکمل طور پر کردیا ہے۔ والحمدللہ
Top