Al-Qurtubi - Ibrahim : 11
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نَّاْتِیَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
قَالَتْ : کہا لَهُمْ : ان سے رُسُلُهُمْ : ان کے رسول اِنْ : انہیں نَّحْنُ : ہم اِلَّا : صرف بَشَرٌ : بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسے وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَمُنُّ : احسان کرتا ہے عَلٰي مَنْ يَّشَآءُ : جس پر چاہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ : کہ نَّاْتِيَكُمْ : تمہارے پاس لائیں بِسُلْطٰنٍ : کوئی دلیل اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم سے وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : پس بھروسہ کرنا چاہیے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
پیغمبروں نے ان سے کہا کہ ہاں ہم تمہارے ہی جیسے آدمی ہیں لیکن خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (نبوت کا) احسان کرتا ہے۔ اور ہمارے اختیار کی بات نہیں کہ ہم خدا کے حکم کے بغیر تم کو (تمہاری فرمائش کے مطابق) معجزہ دکھائیں۔ اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے۔
آیت نمبر 11 تا 12 قولہ تعالیٰ : قالت لھم رسلھم ان نحن الا بشر مثلکم یعنی جس طرح تم کہتے ہو ہم صورت اور ہیئت میں تمہاری طرح ہیں۔ ولکن اللہ یمن علی من یشآء من عبادہ یعنی جس پر چاہتا ہے نبوت کے ذریعے مہربانی فرماتا ہے۔ ایک قول یہ ہے : توفیق، حکمت، معرفت اور ہدایت کے ذریعے احسان فرماتا ہے۔ حضرت سہل بن عبد اللہ نے کہا : اس سے مراد تلاوت قرآن اور اس کے فہم کے ذریعے احسان فرماتا ہے۔ میں (قرطبی) نے کہا : یہ عمدہ قول ہے۔ طبری نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت بیان کی ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا میں نے حضرت ابو ذر ؓ کو کہا : اے چچا ! مجھے وصیت کرو۔ آپ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح پوچھا جس طرح آپ نے پوچھا ہے تو آپ نے فرمایا : ” کوئی دن، رات اور گھڑی نہیں جس میں اللہ تعالیٰ صدقہ نہ فرماتا ہو جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے الہام کرنے کی طرح کا احسان اپنے بندوں پر نہیں فرمایا “۔ وما کان لنا ان ناتیکم بسلطن یعنی حجت اور آیت الا باذن اللہ۔ اللہ کے اذن سے مراد اس کی مشیت ہے یعنی یہ ہمارے بس میں نہیں، ہم یہ طاقت نہیں رکھتے کہ اللہ کے امر اور قدرت کے بغیر جس طرح تم مطالبہ کرتے ہو اس طرح ہم حجت اور دلیل لے آئیں، الفاظ خبر کی صورت میں ہیں مگر معنی نفی کا ہے، کیونکہ کوئی بھی اس کام کا پابند نہیں جس پر وہ قادر نہ ہو۔ وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون اس کا معنی گزر چکا ہے۔ وما لنا الا نتوکل علی اللہ، ما استفہامیہ ہے اور مبتدا ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے اور لنا خبر ہے، اور اس کے بعد والا جملہ حال ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہوگی : أی شئ لنا فی ترک التوکل علی اللہ اللہ تعالیٰ پر بھروسے کو ترک کرنے کے سلسلہ میں ہمارے لیے کون سی شے ہے ؟ وقد ھدنا سملنا یعنی وہ راستہ جو اللہ کی رحمت تک پہنچاتا ہے، اور اس کی سختی اور انتقام سے نجات دلاتا ہے۔ ولنصبرن لام قسم کا ہے۔ اصل میں واللہ لنصبرن ہے۔ علی ما اذیتمونا اس کے بعد بہ کے الفاظ بھی ہیں، توہین اور مارنا، تکذیب اور قتل وغیرہ جیسی اذیتیں مراد ہیں۔ ان اذیتوں کی برداشت اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس بھروسے کی وجہ سے ہے کہ وہ ہمیں کافی ہے اور وہ ہماری مدد فرمائے گا۔ وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون۔
Top