Al-Qurtubi - Ibrahim : 15
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍۙ
وَاسْتَفْتَحُوْا : اور انہوں نے فتح مانگی وَخَابَ : اور نامراد ہوا كُلُّ : ہر جَبَّارٍ : سرکش عَنِيْدٍ : ضدی
اور پیغمبروں نے (خدا سے اپنی) فتح چاہی تو سرکش ضدی نامراد رہ گیا۔
آیت نمبر 15 تا 17 قولہ تعالیٰ : واستفتحوا یعنی انہوں نے مدد کی التجا کی، یعنی رسولوں کو اپنی قوم کے خالق فتح کی التجا اور ان کی ہلاکت کی دعا کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر کا نقطہ نظر ہے۔ سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے اور اس سے حدیث طیبہ ہے کہ نبی کریم ﷺ مہاجرین کی کامیابی و کامرانی کے لیے فتح کی التجا کرتے تھے یعنی مدد طلب کرتے تھے۔ ابن زید نے کہا : مختلف امتوں نے دعا کے ذریعے فتح کی التجا کی جس طرح قریش نے کہا : اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک الایۃ (الانفال : 32) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” انہوں نے میری تکذیب کی ہے پس میرے درمیان اور ان کے درمیان فیصلہ فرما “۔ مختلف امتوں نے کہا : اگر یہ سچے ہیں تو ہمیں عذاب میں مبتلا کر۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ہی مروی ہے کہ اس کی مثال ائتنا بعذاب اللہ ان کنت من الصادقین ہمارے اوپر اللہ کا عذاب لا اگر تو سچوں میں سے ہے۔ فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین (الاحقاف) ہمارے اوپر وہ لا جس کا تو نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہوا ہے اگر تو رسولوں میں سے ہے۔ وخاف کل جبار عنید، جبار سے مراد وہ متکبر ہے جو اپنے اوپر کسی کا کوئی حق نہیں سمجھتا۔ نحاس کے ذکر کردہ بیان کے مطابق اہل لغت کے نزدیک اس کا یہی معنی ہے اور عنید حق کا انکار کرنے والا اور اس سے پہلو تہی اختیار کرنے والا۔ حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر سے مروی ہے : جب کوئی قوم سے دوری اختیار کرلے تو عند عن قومہ کہا جاتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ العند سے ہے اور العند سے مراد ناحیہ اور کونہ ہوتا ہے اور عاند فلان سے مراد ہے اس نے کونے میں اعراض کرتے ہوئے پکڑا۔ شاعر نے کہا : إذا نزلت فاجعلونی وسطا إنی کبیر لا أطیق العندا ہر وی نے کہا : اللہ تعالیٰ کے ارشاد : جبار عنید سے مراد میانہ روی کی نسبت ظلم اختیار کرنے والا ہے۔ اور یہ العنود، العنید اور العاند ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث میں ہے کہ آپ سے مستحاضہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : انہ عرق عاند۔ ابو عبید نے کہا : یہ وہ ہے جس نے سرکشی اور بغاوت اختیار کی جس طرح انسان بغاوت کرتا ہے۔ تو یہ رگ بھی اس سے نکلنے والے خون کی کثرت کی وجہ سے اسی کی طرح ہے۔ شمر نے کہا : عاند وہ ہے جس کا خون نہیں رکتا۔ حضرت عمر ؓ اپنی سیرت کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں میانہ روی سے ہٹنے والے کو اپنی طرف کھینچتا ہوں۔ لیث نے کہا : اونٹوں میں سے عنود وہ ہے جو دیگر اونٹوں کے ساتھ نہیں ملتا بلکہ ہمیشہ ایک طرف رہتا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ جو مخالفت کا ارادہ کرے یا جماعت سے علیحدہ ہونا چاہے میں اسے اس کے ساتھ ملا دیتا ہوں۔ مقاتل نے کہا : عنید سے مراد متکبر ہے۔ ابن کیسان نے کہا : یہ اپنی ناک کے ذریعے بلند ہونے والا ہے۔ ایک قول یہ ہے : العنود اور العنید سے مراد وہ ہے جو رسولوں کے خلاف تکبر اختیار کرتا ہے اور حق کے راستے سے ہٹ جاتا ہے اس پر نہیں چلتا۔ عرب راستے سے ہٹ جانے والے اونٹ کے متعلق کہتے ہیں : شر الابل العنود۔ ایک قول کے مطابق : العنید سے مراد گناہگار اور نافرمان ہے۔ حضرت قتادہ نے کہا : عنید وہ ہے جس نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کیا۔ میں (قرطبی) نے کہا : آیت میں جبار اور عنید کا معنی ایک ہی ہے اگرچہ لفظ مختلف ہیں۔ اور ہر وہ آدمی جو حق سے دور ہوتا ہے وہ جبار اور عنید ہے یعنی متکبر ہے۔ ایک قول یہ ہے : آیت میں اس سے مراد ابو جہل ہے، اس کو مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ ماوردی نے اپنی کتاب أدب الدنیا والدین میں حکایت بیان کی ہے کہ ولید بن یزید بن عبد الملک نے ایک دن قرآن کریم کو کھولا تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد : واستفتحوا وخاف کل جبار عنید نکلا تو اس نے قرآن پاک کو پھاڑ دیا اور یہ اشعار پڑھنے لگا : اتوعد کل جبار عنید فھا أنا ذاک جبار عنید إذا ما جئت ربک یوم حشر فقل یا رب مزقنی الولید کیا تو ہر جبار عنید کو دھمکی دیتا ہے یہ لو میں ہوں وہ جبار عنید۔ جب تو اپنے پروردگار کے پاس حشر والے دن آئے گا تو کہہ دینا : اے میرے پروردگار ! مجھے ولید نے پھاڑا ہے۔ پھر کچھ ہی دن رہا کہ اسے بری طرح قتل کردیا گیا اور اس کے سر کو اس کے محل پر لٹکا دیا گیا پھر اسے شہر کی چار دیواری پر لٹکایا گیا۔ قولہ تعالیٰ : من ورآئہ جھنم یعنی اس کافر کے پیچھے جہنم ہے یعنی اسکی ہلاکت کے بعد جہنم ہے اور وراء بمعنی بعد ہے نابغہ نے کہا حلفت فلم أترک لنفسک ریبۃ ولیس وراء اللہ للمرء مذھب میں نے ہر قسم اٹھائی اور تیرے نفس کے لیے کوئی شک نہ چھوڑا اور ان کے لیے اللہ کے بعد کوئی اور مفر نہیں۔ یہاں وراء اللہ سے مراد بعد اللہ ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ومن ورآئہ عذاب غلیظ سے مراد من بعدہ ہے۔ اور اللہ کے ارشاد ویکفرون بما ورآءہ (البقرہ :91) سے مراد بما سواہ ہے۔ یہ فراء کا قول ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : اس کا معنی بما بعدہ ہے۔ ایک قول کے مطابق : من ورائہ سے مراد من أمامہ ہے اسی سے شاعر کا قول ہے : ومن ورائک یوم أنت بالغہ لا حاضر معجز عنہ ولابادی من ورائک سے مراد من امامک یعنی تیرے سامنے ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : أترجوا بنو مروان سمعی و طاعتی وقومی تمیم والفلاۃ ورائیا ورائیا سے مراد مام یعنی سامنے ہے۔ لبید نے کہا : ألیس ورال ان تراخت منیتی لزوم العصا تحنی علیھا الأصابع ورائی سے مراد أمامی ہے اور وکان وراءھم ملک سے مراد کان أمامھم ملک ہے۔ ابو عبیدہ اور ابو علی قطرب وغیرہ کا یہی نقطہ نظر ہے۔ اخفش نے کہا : یہ اسی طرح ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ ھذا الأمر من ورائک یعنی عنقریب تیرے پاس آجائے گا اور أنا من وراء فلان یعنی میں اس کی تلاش میں ہوں اور عنقریب اس تک پہنچ جاؤں گا۔ نحاس نے کہا : اللہ کے ارشاد من ورآئہ جھنم میں ورآئہ سے مراد امامہ ہے یہ اضداد میں سے نہیں بلکہ یہ توریہ ہے۔ ازہری نے کہا : وراء بمعنی امام اور خلف دونوں ہے یہ اضداد میں سے ہے، یہ ابو عبید کا بھی قول ہے۔ اور ان دونوں کا اشتقاق ان میں سے ہے جو پوشیدہ ہوتی ہیں، پس جہنم پوشیدہ ہے اور ظاہر نہیں ہوتی، لہٰذا یہ وراء ہوگئی کیونکہ دکھائی نہیں دیتی، اس کو ابن انباری نے حکایت کیا ہے اور عمدہ بات ہے۔ ویسقی من مآء صدیہ یعنی ایسا پانی پلایا جائے گا جو پیپ کی طرح ہوگا، جس طرح بہادر آدمی کو اسد کہا جاتا ہے، اس سے مراد بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اسد کی طرح ہے یہ تمثیل اور تشبیہ ہے۔ ایک قول یہ ہے : یہ وہ ہے جو دوزخیوں کے جسم سے قیح اور خون بہتا ہے۔ محمد بن کعب قرظی اور ربیع بن انس نے کہا : یہ دوزخیوں کا غسالہ ہے، اور یہ پانی ہے جو زانی مردوں اور عورتوں کی شرمگاہوں سے نکلتا ہے۔ صدید، صد سے ماخوذ ہے۔ ابن مبارک نے ذکر کیا ہے کہ ہمیں صفوان بن عمرو نے عن عبید اللہ بن بسر عن ابی امامہ عن النبی ﷺ خبر دی ہے کہ ویسقی من مآء صدید۔ یتجرعہ کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا : ” ان کے منہ کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس کو ناپسند کریں گے۔ جب اسے اس کے قریب کیا جائے گا تو یہ اس کے چہرے کو بھون دے گا اور اس کی حدت اس کے سر تک پہنچ جائے گی اور جب وہ اسے پیے گا تو یہ اس کی انتڑیاں کاٹ دے گا یہاں تک کہ وہ اس کی دبر سے نکلے گا “۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وسقوا مآء جمیعا فقطع امعآءھم۔ (محمد) اور اللہ ارشاد فرماتا ہے : وان یستغیثوا یغاثوا بمآء کالمھل یشوی الوجوہ، بئس الشراب (الکہف :29) اس روایت کو ترمذی نے بیان کیا ہے اور کہا ھذا حدیث غریب۔ (دونوں آیات حدیث کے معنی کی شرح ہیں) جس عبید اللہ بن بسر نے صفوان بن عمرو سے حضرت ابو امامہ کی حدیث روایت کی ہے شاید وہ عبد اللہ بن بسر کا بھائی ہو۔ یتجرعہ یعنی وہ اس کو گھونٹ گھونٹ کرکے پیئیں گے، اس کی کڑواہٹ اور حرارت کی وجہ سے ایک ہی دفع نہیں پی سکیں گے۔ ولا یکاد یسیغہ یعنی وہ اسے نگل نہیں سکے گا۔ جرح الماء واجترعہ وتجرعہ کہا جاتا ہے اور اس کا معنی ساغ الشراب فی الحق یسوغ سوغا یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب وہ آسانی سے نگل لے، اسی طرح وأساغہ اللہ إساغۃ ہے اور یکاد صلہ ہے، یعنی وہ اس کو دیر لگانے کے بعد نگلے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وما کا دوا یفعلون (البقرہ) یعنی انہوں نے سستی کے بعد کام سر انجام دیا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یصھربہ ما فی بطونھم والجلود۔ (الحج) تو یہ اساغت پر دلالت کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : نہ وہ اس کو جائز قرار دے گا اور نہ وہ اس کے ذریعے فائدہ حاصل کرے گا۔ ویاتیہ الموت من کل مکان حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یعنی ہر طرف سے اس کے دائیں بائیں، اوپر نیچے، آگے اور پیچھے سے موت کے اسباب اس کے پاس آئیں گے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد لھم من فوقھم ظلل من النار و من تحتھم ظلل (الزمر :16) ان کے اوپر سے دوزخ کا سایہ ہوگا اور ان کے نیچے سے سایہ ہوگا۔ ابراہیم تیمی نے کہا : اس کے جسم کے ہر حصے سے وہ اس کے پاس آئے گی یہاں تک کہ بالوں کے اطراف سے بھی، ان تکلیفوں کے لیے موت کا لفظ بولا گیا ہے جو اس کے جسم کے ہر حصے سے آئیں گی۔ ضحاک نے کہا : ہر طرف اور ہر جگہ سے حتی کہ اس کے پاؤں کے انگوٹھے سے موت اس کے پاس آئے گی۔ اخفش نے کہا : اس سے مراد وہ مصیبتیں ہیں جو جہنم میں کافر کو جھیلنا پڑیں گی اللہ تعالیٰ نے ان مصیبتوں کو موت فرمایا ہے اور یہ موت بھی بڑی ہوگی۔ ایک قول یہ ہے : اس کے ہر عضو پر عذاب کی ایک صورت مسلط ہوگی۔ عذاب کی ایک صورت کا ایک لحظہ کے لیے تسلط اس پر ستر مرتبہ کی موت سے زیادہ مشکل ہوگا۔ عذاب کی مختلف صورتوں میں ڈسنے والا سانپ، ڈنگ مارنے والا بچھو، جلا دینے والی آگ، پاؤں کی بیڑیاں، گردن میں گرم زنجیریں، زنجیروں کے ساتھ جکڑنا، تابوت میں بند کرنا، پیپ، گرم پانی اور اس کے علاوہ کئی اور صورتیں ہیں۔ محمد بن کعب نے کہا : جب کافر جہنم میں پانی مانگے گا تو اسے دیکھ کر کئی موتیں مرے گا، جب اسے اس کے قریب کیا جائے گا تو پھر کئی موتیں مرے گا، اور پھر جب اسے پیے گا تو کئی موتیں مرے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ویاتیہ الموت من کل مکان وما ھو بمیت سے یہی مراد ہے۔ ضحاک نے کہا : وہ نہیں مرے گا تو راحت طلب کرے گا۔ ابن جریج نے کہا : اس کی روح اس کی پسلیوں میں معلق ہوجائے گی اور باہر نہیں نکلے گی تو وہ مرے گا تو راحت طلب کرے گا۔ ابن جریج نے کہا : اس کی روح اس کی پسلیوں میں معلق ہوجائے گی اور باہر نہیں نکلے گی تو وہ مرے گا، پھر اس کے پیٹ سے روح اپنی جگہ کی طرف نہیں لوٹے گی تو زندگی اسے فائدہ دے گی، اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے ارشاد ثم لا یموت فیھا ولا یحیی۔ (الاعلی) میں ہے یعنی اس میں نہ وہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا۔ ایک قول کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کے جسم میں کئی آلام پیدا فرمائے گا جن میں سے ہر ایک موت کے الم کی طرح ہے۔ ایک قول یہ ہے : وما ھو بمیت سے مراد یہ ہے کہ اس کے ذریعے موت کے شدائد کو طوالت اور سکرات الموت کو لمبا کیا جاسکے گا تاکہ یہ صورت اس کے عذاب میں زیادتی کا سبب بنے۔ میں (قرطبی) نے کہا : اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کافر مرے گا، حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لایقضی علیھم فیموتوا ولا یخفف عنھم من عذابھا (فاطر :36) نبی کریم ﷺ کے ارشادات بھی اسی طرح کے ہیں، کفار کے حالات ایسے ہوں گے جیسے اس آدمی کے حالات ہو سکتے ہیں جس پر ہمیشہ سکرات الموت طاری رہیں۔ واللہ اعلم۔ ومن ورآئہ یعنی اس کے آگے۔ عذاب غلیظ اس سے مراد سخت اور مسلسل تکلیف وہ عذاب ہے جس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ولیجدوا فیکم غلظۃ (التوبۃ : 123) ہے۔ اس سے مراد بھی شدت اور قوت ہے۔ اللہ کے ارشاد : ومن ورآئہ عذاب غلیظ کے بارے میں حضرت فضیل بن عیاض (رح) نے کہا کہ اس سے مراد سانسوں کو روکنا ہے۔
Top