Al-Qurtubi - Ibrahim : 18
مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ اِ۟شْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ١ؕ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو منکر ہوئے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل كَرَمَادِ : راکھ کی طرح اشْتَدَّتْ : زور کی چلی بِهِ : اس پر الرِّيْحُ : ہوا فِيْ : میں يَوْمٍ : دن عَاصِفٍ : آندھی والا لَا يَقْدِرُوْنَ : انہیں قدرت نہ ہوگی مِمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا عَلٰي شَيْءٍ : کسی چیز پر ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ الضَّلٰلُ : گمراہی الْبَعِيْدُ : دور
جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا انکے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ آندھی کے دن اس پر زور کی ہوا چلے (اور) اسے اڑا لے جائے (اسی طرح) جو کام وہ کرتے رہے ان پر ان کو کچھ دسترس نہ ہوگی یہی تو پرلے سرے کی گمراہی ہے۔
آیت نمبر 18 تا 20 قولہ تعالیٰ : مثل الذین کفروا بربھم اعمالھم کرما، مثل کے رفع میں نحویوں کا اختلاف ہے۔ سیوبیہ کے نزدیک یہ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے جب کہ خبر مضمر ہوگی۔ تقدیر عبارت یہ ہے وفیما یتلی علیکم او یقص مثل الذین کفروا بربھم پھر نئے سرے سے کلام فرمایا اور فرمایا : اعمالھم کرماد یعنی راکھ کے ڈھیر کی طرح۔ اشتدت بہ الریح زجاج نے کہا : تقدیر عبارت ہوگی مثل الذین کفروا فیما یتلی علیکم أعمالھم کرماد یہی فراء کے نزدیک بھی ہے۔ اس صورت میں مثل مدغی ہوگا اصل کلام یہ ہوگا : والذین کفروا بربھم أعمالھم کرماد انھیں سے مضاف کے حذف کی صورت بھی مروی ہے یعنی مثل أعمال الذین کفروا بربھم کرماد پہلی صورت کو ان سے مہدوی نے ذکر کیا ہے اور دوسری کو قشیری اور ثعلبی نے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مبتدا ہو جیسے صفۃ فلان أسمرتو مثل بمعنی صفت ہو۔ اور کلام میں اعمالھم کو الذین سے بدل اشتمال بناتے ہوئے مجرور پڑھنا بھی صحیح ہوگا اور یہ وخاب کل جبار عنید کے ارشاد کے ساتھ متصل ہوگا جب کہ معنی یہ ہوگا کہ ان کے اعمال ضائع ہیں مقوھل نہیں ہیں۔ اور رماد کسی چیز کے جلنے کے بعد جو باقی بچ جانے والا حصہ ہوتا ہے اسے کہتے ہیں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اعمال کے اڑجانے کو بطور تمثیل بیان فرمایا ہے کہ یہ اسی طرح ہے جس طرح سخت آندھی والے دن تیز ہواراکھ کو اڑا کرلے جاتی ہے۔ العصف ہوا کی تیزی کو کہتے ہیں۔ ان کی یہ صورتحال اس وجہ سے ہوگی کہ انہوں نے اپنے اعمال میں اللہ کے علاوہ کئی اور لوگوں کو شریک کیا۔ یوم کی عصف کے ساتھ صفت لانے کے بارے میں تین اقوال ہیں۔ پہلا قول یہ ہے کہ عصف اگرچہ ہوا کی صفت ہے مگر چونکہ ہوا دن میں ہوتی ہے اس لیے اسے دن کی صفت کے طور پر ذکر کرنا صحیح ہوگا اور یوم عاصف کہا جائے گا جس طرح مثلا دن میں سردی اور گرمی کے ہونے کی وجہ سے یوم بارد اور یوم حار کہنا صحیح ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ فی یوم عاصف سے مراد ہوا ہی ہوگی کیونکہ جملہ کے آغاز میں ہوا کا ذکر کردیا گیا ہے اسلیے یہاں اس کو حذف کردیا جیسے شاعر کا شعر ہے : إذا جاء یوم مظلم الشمس کا سف یہاں مراد کا سف الشمس ہے مگر شمس کا ذکر پہلے ہوجانے کی وجہ سے اسے حذف کردیا گیا ہے۔ یہ دونوں صورتیں ہر وی نے ذکر کی ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ یہ الریح کی صفت ہے۔ اس کا اعراب موصوف کے مطابق اس لیے نہیں ہوگا کیونکہ جب یوم کے بعد آئے گا تو اعراب بھی اس کے مطابق ہوگا جیسے حجر ضب خرب کہا جاتا ہے۔ یہاں خرب حجر کی صفت ہے مگر ضب کے بعد آنے کی وجہ سے اس کے تابع ہے، اس کو ثعلبی اور ماوردی نے ذکر کیا ہے اور ابن اسحاق اور ابراہیم بن ابی بکر نے فی یوم عاصف پڑھا ہے۔ لا یقدرون یعنی کفار مما کسبوا علی شیء اس سے مراد آخرت ہے، یعنی کفر کی وجہ سے ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اس لیے دنیا میں انہوں نے جو نیک عمل کیا ہوگا آخرت میں اس کا ثواب حاصل نہیں کرسکیں گے۔ ذلک ھو الضلل البعید یعنی بہت بڑا خسارہ موت کی وجہ سے۔ اس کے استدراک کے فوت ہوجانے کے سبب اللہ تعالیٰ نے اس کو کبیر اور بعید بنا دیا۔ الم تر ان اللہ خلق السموت والارض بالحق یہاں رؤیت سے مراد رؤیت قلبی ہے، کیونکہ معنی یہ ہے کہ کیا تیرے علم کی انتہا اس بات پر نہیں ہوئی۔ حمزہ اور کسائی نے خالق السموات والارض پڑھا ہے اور بالحق کا معنی یہ ہوگا کہ تاکہ آسمانوں اور زمین کے ذریعے اس کی قدرت پر استدلال کیا جاسکے۔ ان یشا یذھبکم یعنی اے لوگو ! وہ جس طرح اشیاء کو پیدا کرنے پر قادر ہے اسی طرح ان کو فنا کرنے پر بھی قادر ہے، لہٰذا تم اس کی نافرمانی نہ کرو، اگر تم اس کی نافرمانی کروگے تو وہ تمہیں ہلاک کر دے گا۔ ویات بخلق جدید جو تم سے زیادہ فضیلت والے اور تابعدار ہوں گے، کیونکہ اگر وہ بھی پہلے لوگوں کی طرح ہوں تو پھر تو تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز عزیز سے مراد مشکل اور متعذر ہے۔
Top