Al-Qurtubi - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا ؟
آیت نمبر 28 تا 30 قولہ تعالیٰ : الم تر الی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کے بدلے کفر کیا یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو ان میں مبعوث فرمایا تو انہوں نے آپ کی تکذیب کرتے ہوئے کفر اختیار کرلیا، اس سے مراد قریش ہیں اور آیت انہیں کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور حضرت علی ؓ سے یہی مروی ہے۔ ایک قول یہ ہے : یہ آیت ان مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ بدر کے مقام پر جنگ کی۔ ابو الطفیل نے کہا : میں نے حضرت علی ؓ کو فرماتے سنا ہے : یہ وہ قریش ہیں جنہیں بدر والے دن قتل کیا گیا۔ ایک قول یہ ہے : یہ قریش کے بنو مخزوم اور بنو امیہ کے فاجروں کے بارے میں نازل ہوئی۔ جہاں تک بنی امیہ کا تعلق ہے تو انہوں نے ایک وقت تک لطف اٹھایا جب کہ بنی مخزوم کو بدر میں ہلاک کردیا گیا۔ یہ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عمر بن خطاب ؓ کا قول ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ عرب کے نصرانی جبلہ بن ایھم اور اس کے دوست ہیں کہ جب اس نے تھپڑ مارا تو حضرت عمر ؓ نے اس کیلئے یہی قصاص لازم کیا، تو اس نے اس بات کو پسند نہ کیا اور عیسائی بنتے ہوئے مرتد ہوگیا اور اپنی قوم کی ایک جماعت کے ساتھ روم چلا گیا۔ یہ حضرت ابن عباس اور حضرت قتادہ ؓ سے مروی ہے۔ اور جب روم پہنچا تو پھر شرمندہ ہوا اور یہ اشعار کہے : تنصرت الأشراف من عار لطمۃ وما کان فیھا لو صبرت لھا ضرر تکنفنی منھا لجاج و نخوۃ وبعث لھا العین الصحیحۃ بالعور فیالیتنی ارعی المخاض ببلدۃ ولم أنکر القول الذی قالہ عمر حضرت حسن ؓ نے کہا : یہ تمام مشرکین کے متعلق عام حکم ہے۔ واحلوا قومھم یعنی انہیں اتارا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ بدر والے دن مشرکین کی قیادت کرنے والے لوگ ہیں انہوں نے اپنی قوم کو اتارا یعنی جنہوں نے ان کی اتباع کی۔ دار البوار ایک قول کے مطابق ابن زید کے نزدیک اس سے مراد جہنم ہے۔ ایک قول کے مطابق حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور مجاہد کے نزدیک اس سے مراد بدر کا دن ہے اور بوار ہلاکت کو کہتے ہیں اسی سے شاعر کا قول ہے : فلم أرمثلھم أبطال حرب غداۃ الحرب إذ خیف البوار میں نے جنگ کی صبح ان جیسا بہادر نہیں دیکھا جب ہلاکت کا خوف ہو۔ جھنم یصلونھا اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ دار البوار سے مراد جہنم ہے۔ اس صورت میں دار البوار پر وقف کرنا جائز نہیں، کیونکہ جہنم دار البوار کی وجہ سے منصوب ہے۔ اگر اسے مرفوع پڑھا جائے تو اس صورت میں ھی مضمر ہوگا یعنی ھی جھنم یا پھر یصلونھا میں پائی جانے والی ضمیر کی وجہ سے مرفوع ہوگا کیونکہ دار البوار پر وقف کرنا عمدہ بات ہے۔ وبئس القرار۔ ، قرار سے مراد ٹھکانا ہے۔ وجعلوا للہ اندادا اس سے مراد بت ہیں جن کی انہوں نے عبادت کی۔ سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے۔ لیضلوا عن سبیلہ، سبیل سے مراد دین ہے، یعنی تاکہ لوگوں کو اس کے دین سے بھٹکا دیں۔ ابن کثیر اور ابو عمرو نے یا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اسی طرح سورة الحج میں لیضل عن سبیل (الحج :9) اسی طرح سورة لقمان اور سورة الزمر میں ہے جب کہ باقیوں نے لیضلوا الناس عن سبیلہ یا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور جس نے فتح دیا ہے تو اس نے ھم یضلون عن سبیل اللہ لازم پڑھا ہے یعنی ان کا انجام گمراہ کرنا اور گمراہی ہے۔ یہ لام لام عاقبت ہے۔ قل تمتعوا ان کے لیے وعید ہے اور یہ دنیا میں پائی جانے والی لذت کے قلیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ ختم ہوجانے والی ہیں۔ فان مصیرکم الی النار یعنی ان کے لوٹنے کی جگہ اور ان کا ٹھکانہ جہنم کا عذاب ہے۔
Top