Al-Qurtubi - Ibrahim : 35
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : بنا دے هٰذَا الْبَلَدَ : یہ شہر اٰمِنًا : امن کی جگہ وَّاجْنُبْنِيْ : اور مجھے دور رکھ وَبَنِيَّ : اور میری اولاد اَنْ : کہ نَّعْبُدَ : ہم پرستش کریں الْاَصْنَامَ : بت (جمع)
اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار اس شہر کو (لوگوں کے لئے) امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھ۔
آیت نمبر 35 تا 36 قولہ تعالیٰ : واذ قال ابراہیم رب اجعل ھذا البلد امنا، ھذا البلد سے مراد مکہ ہے سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے۔ واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام یعنی مجھے ان (بتوں) کی عبادت سے ایک طرف کر دے۔ اور نبی کے قول سے آپ کی مراد آپ کے صلبی بیٹے تھے جن کی تعداد آٹھ تھی، اور ان میں سے کسی ایک نے بھی بتوں کی عبادت نہیں کی۔ اور ایک قول یہ ہے : یہ ہر اس آدمی کے لیے دعا ہے اللہ تعالیٰ جس کے لیے دعا چاہے۔ جحدری اور عیسیٰ نے واجنبنی الف قطعی کے ساتھ پڑھا ہے معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے، کہا جاتا ہے : جنبت ذالک الأمر، وأجنبتہ وجنبتہ ایاہ، فتجانبہ واجتنبہ ان کا معنی ہوگا : اس نے اس کو چھوڑ دیا۔ ابراہیم تیمی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصص کے بارے میں کہتے تھے : حضرت خلیل کے بعد کون مطمئن ہوتا ہے جب آپ کہتے ہیں : مجھے بچا لے اور میرے بچوں کو کہ ہم بتوں کی پوجا کریں جس طرح میرے باپ اور قوم نے ان کی پوجا کی۔ رب انھن اضللن کثیرا من الناس بت چونکہ گمراہی کا سبب تھے اس لیے مجاز افعل کی اضافت ان کی جانب کردی گئی ہے، ورنہ تو بت جمادات ہیں جو فعل کر ہی نہیں سکتے۔ فمن تبعنی یعنی توحید (خداوندی کو ماننے) میں جس نے میری پیروی کی۔ فانہ منی یعنی وہ میرے دین پر ہے۔ ومن عصانی یعنی جس نے شرک پر اصرار کیا۔ فانک غفور رحیم ایک قول یہ ہے : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات تب کی تھی جب ابھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات سے آگاہ نہیں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائے گا۔ اور ایک قول یہ ہے : تو اس کے لیے غفور اور رحیم ہے جس نے موت سے پہلے اپنی نافرمانی اور گناہ سے توبہ کرلی مقاتل بن حیان نے کہا : ومن عصانی سے مراد یہ ہے کہ جس نے شرک سے کم معاملات میں میری نافرمانی کی۔
Top