Al-Qurtubi - Ibrahim : 37
رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ١ۙ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنِّىْٓ : بیشک میں اَسْكَنْتُ : میں نے بسایا مِنْ : سے۔ کچھ ذُرِّيَّتِيْ : اپنی اولاد بِوَادٍ : میدان غَيْرِ : بغیر ذِيْ زَرْعٍ : کھیتی والی عِنْدَ : نزدیک بَيْتِكَ : تیرا گھر الْمُحَرَّمِ : احترام والا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لِيُقِيْمُوا : تاکہ قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز فَاجْعَلْ : پس کردے اَفْئِدَةً : دل (جمع) مِّنَ : سے النَّاسِ : لوگ تَهْوِيْٓ : وہ مائل ہوں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَارْزُقْهُمْ : اور انہیں رزق دے مِّنَ : سے الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَشْكُرُوْنَ : شکر کریں
اے پروردگار ! میں نے اپنی اولاد میدان (مکّہ) میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت (وادب) والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔ اے پروردگار تاکہ یہ نماز پڑھیں۔ تو لوگوں کے دلوں کے ایسا کردیں کہ ان کی طرف جھکے رہیں اور ان کو میووں سے روزی دے تاکہ (تیرا) شکر کریں۔
آیت نمبر 37 اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: امام بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے : عورتوں میں سب سے پہلے بیٹی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ماں کی طرف سے باندھی گئی آپ نے اس لیے پیٹی باندھی تاکہ حضرت سارہ کو آپ اپنے اثر سے بچا سکیں، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو لے کر آئے حضرت اسماعیل ابھی دودھ پیتے تھے حتی کہ ان دونوں کو آپ نے زمزم کے اوپر بیت اللہ میں چھوڑ دیا، اس وقت مکہ میں کوئی بھی آباد نہیں تھا، اور نہ ہی پانی تھا، ان دونوں کو وہاں چھوڑا، ایک تھیلا ان کے پاس رکھا جس میں کھجوریں تھیں اور ایک مشکیزہ رکھا جس میں پانی تھا، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واپس پلٹے ام اسماعیل نے آپ کا پیچھا کیا، عرض کی : اے ابراہیم ! آپ کہاں جا رہے ہیں اور ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ دیا ہے جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ ہی کوئی اور چیز ؟ آپ مسلسل یہی کہتی رہیں مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کوئی توجہ نہ دی، پھر حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔ آپ نے کہا : پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ اور واپس لوٹ آئیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چلتے رہے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں ایسی جگہ پر پہنچے جہاں سے آپ انہیں نہیں دیکھ سکتے تھے، تو وہاں قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور یہ دعائیں مانگی، اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور عرض کیا : ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع سے لے کر یشکرون تک۔ حضرت اسماعیل کی ماں حضرت اسماعیل کو دودھ پلاتی رہی اور اس پانی سے پیتی رہی، حتی کہ جب پانی ختم ہوگی اتو آپ کو بھی سخت پیاس لگی اور آپ کے بیٹے کو بھی اور آپ بیٹے کو مٹی پر لوٹتے ہوئے دیکھتی رہی، اس حالت میں جب نہ دیکھا گی اتو چل پڑیں، پاس ہی صفا پہاڑ کو آپ نے دیکھا، تو اس پر چڑھ گئیں، پھر وادی کی طرف منہ کیا کہ شاید کوئی آدمی نظر آجائے، مگر کوئی بھی نظر نہ آیا تو صفا سے اتریں، وادی میں پہنچیں، اپنی اوڑھنی کے کنارے کو اٹھا یا پھر مجبور انسان کی طرف دوڑنے لگیں، پھر وادی کو عبور کی اتو مروہ پہاڑ سامنے آیا اس پر چڑھ گئیں، دیکھا کہ شاید کوئی نظر آجائے مگر کوئی بھی نظر نہ آیا۔ سات مرتبہ آپ نے ایسے ہی کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” پس یہی لوگوں کی صفا ومروہ کے درمیان سعی ہے “۔ جب آپ مروہ پر سے جھانکیں تو آپ نے ایک آواز سنی آپ نے کہا : رک جا ! پھر توجہ سے آواز سنی تو پھر وہی آواز سنائی دی تو آپ نے کہا تو نے مجھے آواز سنائی کیا تیرے پاس کوئی مدد ہے ؟ تو تب ایک فرشتہ مقام زمزم کے پاس تھا اس نے اپنا پیر مارا حتیٰ کہ پانی ظاہر ہوگیا۔ آپ نے اسے بھرنا شروع کردیا اور ہاتھ سے اشارہ کرکے یہ (زمزم) کہہ رہی تھیں اور پانی سے چلو بھر بھر کر اپنے مشکیزے میں ڈالنا شروع کردیا مگر وہ ابلتا ہی رہا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ ام اسماعیل پر رحم کرے اگر وہ زمزم کو یونہی چھوڑ دیتی تو زمزم ایک چشمہ جاری ہوتا “۔ آپ نے فرمایا ” آپ نے خود پانی پیا اور اپنے بچے کو دودھ پلایا تو فرشتے نے آپ کو کہا : مت دوڑ یہاں بیت اللہ ہے اسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے، اور اللہ تعالیٰ اس کے اہل کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا “۔ اور لمبی حدیث کو ذکر کیا۔ مسئلہ : کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ عزیز و رحیم پروردگار پر بھروسہ کرتے ہوئے اس واقعہ کی وجہ سے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کی اقتدا کرتے ہوئے اپنے بیٹے اور گھر والوں کو کسی ایسی زمین میں چھوڑ دے جہاں ان کے ضیاع کا خطرہ ہو، جس طرح غالی قسم کے صوفیہ حقیقت توکل کے بارے میں کہتے ہیں، کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسا کیا تھا۔ حدیث طیبہ میں موجود یہ الفاظ کہ ” کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ اور آپ کا فرمانا : ہاں “۔ اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ روایت ہے کہ جب حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل کی ولادت ہوئی تو حضرت سارہ، حضرت ہاجرہ سے رشک کرنے لگیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) انہیں لے کر مکہ آگئے۔ اور روایت ہے کہ آپ، حضرت ہاجرہ اور بچہ تینوں براق پر سوار ہوئے اور ایک ہی دن میں شام سے مکہ پہنچ گئے، اپنے بیٹے اور اس کی ماں کو وہیں چھوڑا اور اسی دن سوار ہو کر خواہ واپس لوٹ گئے۔ اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی وجہ سے ہوا، جب واپس لوٹے تو یہ دعا کی جو اس آیت میں ہے۔ مسئلہ نمبر 2: جب اللہ تعالیٰ نے حال کی بنیاد، مقام کے آغاز، عزت والے گھر اور حرمت والے شہر کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو فرشتے کو بھیجا، اس نے پانی تلاش کیا اور اس پانی کو غذا کے قائم مقام بنا دیا۔ الصحیح میں ہے کہ حضرت ابوذر ؓ نے تیس دن اور رات اسی پر گزارا کیا۔ حضرت ابو ذر ؓ نے فرمایا : میرے پاس سوائے ماء زمزم کے کوئی کھانا نہ تھا تو میں موٹا ہوگیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ (بل) ٹوٹ گئے اور مجھے بھوک کی وجہ سے کمزوری کا احساس تک نہ ہوا لمبی حدیث کو انہوں نے ذکر کیا دار قطعی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” زمزم کا پانی اسی مقصد کے لیے ہے جس کے لیے پیا جائے اگر تو اسے اس لیے پئیے گا کہ شفا حاصل ہو تو اللہ تعالیٰ تجھے شفا دے گا اور اگر اس لیے پیئے گا کہ تو سیر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ تجھے اس کے ذریعے سیر کر دے گا اور اگر پیاس بجھانے کے لیے پیے گا تو وہ تیری پیاس بجھائے گا یہ جبریل کے پر مارنے کی وجہ سے پیدا ہوا اور حضرت اسماعیل کو اللہ نے سیراب کیا “۔ حضرت عکرمہ سے بھی مروی ہے کہ آپ نے کہا کہ حجرت ابن عباس ؓ جب زمزم سے پیتے تو عرض کرتے : اے اللہ ! میں تجھ سے علم نافع، وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں۔ ابن عربی نے کہا : اس میں یہ اثرات قیامت تک ہر اس آدمی کیے تج موجود ہیں جس کی نیت صحیح ہو اور اسکی خواہش سلامت ہو نہ تو وہ اس کی تکذیب کرنے والا ہو اور نہ ہی تجرباتی طور پر وہ اسے پی رہا ہو۔ بیشک اللہ بھروسہ کرنے والوں کے ساتھ ہے اور وہ تجربہ کرنے والوں کو ناکام و نامراد کرتا ہے۔ ابو عبد اللہ محمد بن علی ترمذی نے کہا کہ مجھے میرے باپ (رح) نے بتایا انہوں نے کہا : ایک تاریک رات میں میں نے طواف شروع کیا تو مجھے پیشاب کا مسئلہ لاحق ہوگیا جس نے مجھے مصروف کردیا، میں نے اسے روکنا شروع کیا حتیٰ کہ اس نے مجھے اذیت دی اور مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ اگر میں مسجد سے نکلا تو کوئی مجھے روند ڈالے گا اور وہ حج کے دن تھے، تو مجھے یہ حدیث یاد آگئی۔ میں زمزم میں داخل ہوا اور اتنا پیا کہ میری پسلیاں اکڑ گئیں، تو صبح تک میرا مسئلہ ختم ہوگیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے : زمزم رکن یمانی کی طرف جنت میں ایک چشمہ ہے۔ مسئلہ نمبر 3: من ذریتی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں من تبعیضہ ہے یعنی أسکنت بعض ذریتی یعنی اسماعیل اور اس کی ماں، کیونکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) تو شام میں تھے۔ ایک قول کے مطابق یہ صلہ ہے، یعنی اسکنت ذریتی۔ مسئلہ نمبر 4: عند بیتک المحرم یہ ارشاد بیت اللہ کے قدیم ہونے پر دلالت کرتا ہے جس طرح مروی ہے کہ یہ طوفان نوح (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے۔ سورة بقرہ میں یہ معنی گزر چکا ہے۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لیے کی کہ اللہ کے علاوہ کوئی اس کا مالک نہیں، اور اس کی صفت محرم کے ساتھ اس لیے بیان فرمائی کیونکہ کچھ چیزیں جماع اور دیگر امور میں سے ایسی ہیں جو اس میں حرام ہیں جب کہ دیگر بیوت میں مباح اور جائز ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت قتادہ وغیرہ کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ یہ جابروں پر حرام ہے اس سلسلہ میں سورة المائدہ میں گفتگو گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 5: قولہ تعالیٰ : ربنالیقیموا الصلوٰ ۃ دین کے جملہ معاملات میں سے نماز کو خاص کرنے کی وجہ ایک تو نماز کی فضیلت ہے اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اہمیت ہے، اور یہ بندوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک عہد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر لکھ دیں ہیں “۔ الحدیث۔ لیقیموا الصلوٰۃ میں لام ہے، یہ اس کے متعلق ظاہر بات ہے اور یہ اسکنت کے متعلق ہوگی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لام امر ہو، گویا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف اس سلسلہ میں راغب ہوئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں نماز قائم کرنے کی توفیق دے۔ مسئلہ نمبر 6: یہ آیت اپنے ضمن میں اس بات کو لیے ہوئے ہے کہ مکہ میں نماز پڑھنا دیگر مقامات میں نماز کی ادائیگی کی نسبت افضل ہے، کیونکہ ربنا لیقیموا الصلوٰۃ کا معنی یہ ہے کہ میں نے انہیں تیرے حرمت والے گھر کے پڑوس میں بسا دیا تاکہ یہ اس میں نماز ادا کریں۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ کیا مکہ میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں ؟ عام محدثین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز کی ادائیگی مسجد رسول اللہ ﷺ میں ایک سو نماز کی ادائیگی سے افضل ہے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میری اس مسجد میں نماز کی ادائیگی دیگر مساجد میں ایک ہزار نماز کی ادائیگی سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں نماز کی ادائیگی میری اس مسجد میں ایک سو نماز کی ادائیگی سے افضل ہے “۔ امام حافظ ابو عمر نے کہا : وہ ثقہ تھے۔ اور اس حدیث کو حبیب المعلم نے عطاء بن ابی رباع عن عبد اللہ بن زبیر بیان کیا ہے اور اسے عمدہ قرار دیا ہے، نہ اس کے الفاظ میں کوئی ملاوٹ کی اور نہ ہی معنی میں۔ ابن ابی خیثمہ نے کہا کہ میں نے یحییٰ بن معین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : حبیب المعلم ثقہ ہے۔ عبد اللہ بن احمد نے ذکر کیا ہے کہ میں نے اپنے باپ کو کہتے ہوئے سنا : حبیب المعلم ثقہ ہے اس کی بیان کردہ حدیث کتنی زیادہ صحیح ہے۔ ابو زرعہ رازی سے حبیب المعلم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : یہ بصری ہے، ثقہ ہے۔ میں (قرطبی) نے کہا : حبیب المعلم کی اس حدیث کو عطاء بن ابی رباح عن عبد اللہ بن زبیر عن النبی ﷺ حافظ ابو حاتم محمد بن حاتم التمیمی البستی نے اپنی المسند الصحیح میں بیان کیا ہے۔ پس حدیث صحیح ہے اور تنازع اور اختلاف کی صورت میں حجت ہے والحمدللہ۔ موسیٰ جہنی نے نافع عن ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے اور موسیٰ جہنی ثقہ ہیں ان پر قطان، احمد، یحییٰ اور ان کی جماعت نے اعتماد کیا ہے اور ان کی تعریف کی ہے اور شعبہ، ثوری اور یحییٰ بن سعید نے ان سے روایت کیا ہے اور حکیم بن سیف نے روایت بیان کی ہے حدثنا عبید اللہ بن عمر عن عبد الکریم عن عطاء بن ابی رباح عن جابر بن عبد اللہ ؓ آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میری اس مسجد میں ایک نماز دیگر مساجد کی ایک ہزار نماز سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام کی ایک نماز دیگر مساجد کی ایک ہزار نماز سے افضل ہے “۔ اور یہ حکیم بن سیف اہل رقہ کے شیخ ہیں ان سے ابوزرعہ رازی نے روایت کیا ہے اور ابن وضاح نے ان سے لیا ہے، اور یہ ان کے نزدیک شیخ صدوق ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ پس اگر تو اس نے یاد کیا تھا تو پھر تو یہ دونوں حدیثیں ہیں ورنہ حبیب المعلم کا قول ہے۔ اور محمد بن وضاح نے روایت بیان کی ہے حدثنا یوسف بن عدی بن عمر بن عبید عن عبد الملک عن عطا عن ابن عمر ؓ آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میری اس مسجد کی ایک نماز دیگر مساجد کی ایک ہزار نماز سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے کیونکہ مسجد حرام کی نماز افضل ہے “۔ ابو عمر نے کہا : یہ سارے کا سارا اختلاف کے مقام میں نص ہے اور ہدایت یافتہ آدمی کے لیے قطعی ہے، اور اس کی وجہ سے اس کی عصبیت پر کوئی ملال نہیں آتا۔ ابن حبیب نے مطرف اور اصبغ سے عن ابن وہب ذکر کیا ہے کہ ان دونوں کا نظریہ مسجد نبوی میں نماز کی ادائیگی پر مسجد حرام کی نماز کی ادائیگی کی فضیلت کا تھا۔ امام مالک اور تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عیدین کی نماز ہر شہر میں کھلے میدان میں پڑھی جائے گی سوائے مکہ مکرمہ کے وہاں مسجد حرام میں پڑھی جاتی ہے۔ اور حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابو لدرداء اور حضرت جابر ؓ مکہ اور اس کی مساجد کو فضیلت دیتے تھے اور ان کی تقلید بعد والوں کی نسبت زیادہ اولی ہے۔ یہی نقطہ نظر امام شافعی (رح) کا تھا اور یہی عطا، اہل مکہ اور اہل کوفہ کا قول ہے۔ اسی طرح حضرت امام مالک سے بھی مروی ہے۔ ابن وہب نے اپنی جامع میں امام مالک سے ذکر کیا ہے کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا گیا تو آپ نے عرض کیا : اے میرے پروردگار ! کیا یہ تیرے نزدیک پسندیدہ ہے کہ اس میں تیری عبادت کی جائے ؟ اللہ نے فرمایا : بلکہ مکہ میں، جب کہ آپ سے اور اہل مدینہ سے مشہور مدینہ کی فضیلت کا قول ہے۔ اہل بصرہ اور بغداد نے اس سلسلے میں اختلاف کیا ہے ایک گروہ نے مکہ کی افضیلت کی بات کی ہے اور ایک جماعت نے مدینہ کی۔ قولہ تعالیٰ : فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم، الافئدۃ، فواد کی جمع ہے اور اس سے مراد دل ہیں اور بعض اوقات قلب کو فواد سے تعبیر کردیا جاتا ہے، جس طرح شاعر نے کہا ہے : وإن فؤادا قادنی بصبابۃ إلیک علی طول المدی لصبور اس میں فواد سے مراد دل ہے۔ ایک قول یہ ہے : یہ وفد کی جمع ہے اس کی اصل اوفدہ ہے، فا کو مقدم کیا گیا اور واؤ کو یا سے بدل دیا گیا تو أفئدہ ہوگیا، گویا کہ آپ نے فرمایا : واجعل وفوداً من الناس تھوی إلیہم یعنی وہ ان کی طرف مائل ہوں۔ جب کوئی چیز مائل ہو اور جھکے تو ھوی نحوہ کہا جاتا ہے، اور جب کوئی اونٹنی بہت زیادہ تیز دوڑے تو کہا جاتا ہے۔ ھوت الناقۃ تھوی ھویا فھی ھاویۃ گویا کہ وہ کھلی ہوا میں ہے۔ اور تھوی إلیھم اسی سے ماخوذ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد نے کہا : اگر آپ نے افئدۃ الناس کہا ہوتا تو فارس، روم، ترک اور ہند کے لوگ اسی طرح یہودی، نصرانی اور مجوسی ان کے پاس پہنچ جاتے، لیکن آپ نے افئدۃ من الناس کہا تو وہ صرف مسلمان ہیں۔ تھوی الیھم یعنی وہ ان کے مشتاق ہوجائیں، اور بیت اللہ کی زیارت کے مشتاق ہوجائیں۔ مجاہد نے تھوی الیھم پڑھا ہے یعنی وہ ان کی طرف مائل ہے اور ان کی تعظیم کرتا ہے۔ وارزقہم من الثمدٰ ت لعلہم یشکرون۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کی اور طائف میں ان کے لیے سارے درخت اگا دیئے، اور سارے شہروں کے لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آئے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے ایک لمبی حدیث مروی ہے جس کا بعض حصہ ہم نے ذکر کیا ہے : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی شادی کرنے کے بعد تشر یف لائے تو آپ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو نہ پایا، آپ کی بیوی سے آپ کے متعلق پوچھا، اس نے کہا : ہمارے لیے کچھ لینے نکلے ہیں، پھر آپ نے ان سے ان کی زندگی ور کیفیت کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا : ہم برائی میں ہیں، ہم تنگی اور سختی میں ہیں، اس نے آپ کے سامنے شکایت کی۔ آپ نے فرمایا : جب تیرا شوہر آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور اسے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ تبدیل کر، جب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) آئے تو گویا آپ کسی چیز سے مانوس ہوئے آپ نے کہا : کیا کوئی تمہارے پاس آیا ہے ؟ بیوی نے کہا : ہاں ہمارے پاس اس طرح کا بوڑھا آپا تھا، اس نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا میں نے اسے بتایا، اس نے مجھ سے ہماری زندگی کے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں بتایا کہ ہم مشکل اور شدت میں ہیں۔ آپ نے کہا : کیا اس نے کسی چیز کے بارے میں وصیت بھی کی ؟ بیوی نے کہا : اس نے مجھے کہا تھا کہ میں آپ کو سلام دوں اور وہ کہتا تھا : اپنے دروازے کی چوکھٹ تبدیل کرو۔ آپ نے فرمایا : وہ میرا باپ تھا اور اس نے مجھے حکم دیا تجھے جداکردوں سو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا، آپ نے اسے طلاق دے دی اور ایک اور عورت سے شادی کرلی، پھر جتنی دیر اللہ نے چاہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تشریف نہ لائے پھر کچھ عرصہ کے بعد آپ ان کے پاس آئے تو آپ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو نہ پایا، آپ کی بیوی کے پاس گئے اور آپ کے بارے میں اس سے پوچھا، اس نے کہا : وہ ہمارے لیے کچھ لینے نکلے ہیں۔ آپ نے فرمایا : تم کیسے ہو ؟ اور آپ نے اس سے زندگی اور ان کی کیفیت کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا : ہم بھلائی اور خیر سے ہیں اور اس نے اللہ کی تعریف کی۔ آپ نے فرمایا : تمہارا کھانا کیا ہے ؟ اس نے کہا : گوشت۔ آپ نے فرمایا : تمہارا پینا کیا ہے ؟ اس نے کہا : پانی۔ آپ نے کہا : اے اللہ ! ان کے لیے گوشت اور پانی کو مبارک فرما۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اس دن ان کے پاس کوئی دانہ نہیں تھا اگر ہوتا تو آپ اس میں برکت کی دعا بھی کرتے “۔ نبی کریم ﷺ نے کہا : ” مکہ کے علاوہ جس نے بھی ان دونوں (پانی اور گوشت) پر اعتماد کیا یہ اسے موافق نہیں آئے “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم کہنا گویا اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرتا تھا کہ لوگ مکہ کو رہائش گاہ بنا لیں، اور یہ حرمت والا گھر ہوجائے، اور یہ سب کچھ قبول ہوا۔ والحمدللہ۔ سب سے پہلے جو آدمی رہائش پذیر ہوا اوہ قبیلہ جرہم کا تھا۔ بخاری میں ہے کہ بیت اللہ زمین سے بلند تھا اور اس طرح تھا جس طرح جھاگ اٹھی ہوئی ہوتی ہے سیلاب آتا تو دائیں بائیں سے اسے کاٹتا چلا جاتا، اسی طرح صورتحال رہی حتی کہ قبیلہ جرہم کا ایک قافلہ اس راستے سے گزرا، وہ مکہ کے زیریں علاقے میں اترے، انہوں نے ایک پرندے کو چکر لگاتے ہوئے دیکھا تو کہا : یہ پرندہ پانی پر چکر لگا رہا ہے، اس وادی میں پانی کی تلاش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ایک یا کئی قاصد بھیجے تو وہ پانی تک پہنچ گئے، انہوں نے انہیں پانی کے بارے میں بتایا تو وہ سارے پانی کے پاس آگئے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ماں پانی کے پاس تھیں انہوں نے کہا : کیا آپ ہمیں اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت دیں گی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں لیکن پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا : ہاں (ٹھیک ہے) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ماں نے اس قبیلے کو پالیا درآنحالیکہ آپ انس کو پسند کرتی تھیں۔ وہ اترے اور اپنے گھر والوں کی طرف پیغام بھیجا وہ بھی ان کے ساتھ رہائش پذیر گئے یہاں تک کہ ان کے کئی گھر بن گئے، بچہ جوان ہوگیا اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ماں کا انتقال ہوگیا، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی شادی کے بعد تشریف لائے “ ، الحدیث۔
Top