Al-Qurtubi - Ibrahim : 7
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
وَاِذْ تَاَذَّنَ : اور جب آگاہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَئِنْ : البتہ اگر شَكَرْتُمْ : تم شکر کرو گے لَاَزِيْدَنَّكُمْ : میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا وَلَئِنْ : اور البتہ اگر كَفَرْتُمْ : تم نے ناشکری کی اِنَّ : بیشک عَذَابِيْ : میرا عذاب لَشَدِيْدٌ : بڑا سخت
اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کے) میرا عذاب (بھی) سخت ہے۔
آیت نمبر 8 تا 9 قولہ تعالیٰ : وقال موسیٰ ان تکفروا انتم ومن فی الارض جمیعا، فان اللہ لغنی حمید یعنی تمہاری اس کاروائی کی وجہ سے اسے کوئی نقصان نہیں، بلکہ وہ غنی ہے، الحمید بمعنی المحمود ہے۔ الم یاتکم نبوا الذین من قبلکم قوم نوح و عاد وثمود، النبا کا معنی خبر ہے اس کی جمع الانباء ہے۔ شاعر نے کہا ہے : ألم یاتیک والأنباء تتمی ایک قول کے مطابق : یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے جب کہ ایک قول یہ ہے : یہ اللہ کے ارشادات میں سے ہے، یعنی اے محمد ! ﷺ یاد کرو جب آپ کے رب نے یوں فرمایا۔ ایک قول یہ ہے : یہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کی ابتدا اور حضرت نوح، حضرت عاد اور حضرت ثمود (علیہم السلام) کی قوم کی مشہور خبر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔ والذین من بعدھم، لا یعلمھم الا اللہ یعنی ان کی تعداد کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی ان کے نسب کو جانتا ہے اور نسبت بیان کرنے والے اگرچہ انہیں حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے ہیں تاہم وہ بھی تمام قوموں کے أحصاء کا دعویٰ نہیں کرسکتے، بعض کا نسب بیان کرتے ہیں اور بعض کا بیان نہیں کرتے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ جب نسب بیان کرنے والوں نے انہیں معد بن عدنان کی طرف منسوب کیا اور مزید اضافہ کی اتو آپ ﷺ نے فرمایا : ” نسب بیان کرنے والوں نے جھوٹ بولا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، سوائے اللہ کے انہیں کوئی نہیں جانتا “۔ حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے آپ نے فرمایا : عدنان و اسماعیل کے درمیانی نسب کو جاننے والا ہم نے نہیں پایا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : عدنان و اسماعیل کے درمیان تیس باپ ہیں جو معروف نہیں ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ جب لا یعلمھم الا اللہ پڑھتے تو فرماتے : نسب بیان کرنے والوں نے جھوٹ بولا ہے۔ جآءتھم رسلھم بالبینت یعنی حجتوں اور دلائل کے ساتھ فردوا ایدیھم فی افواھھم یعنی ان لوگوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں ڈال لیے تاکہ رسول کے لائے ہوئے پیغام کی وجہ سے وہ ان کو کاٹ لیں، کیونکہ اس پیغام میں ان کی بےوقوفیوں اور ان کے بتوں کی برائیوں کا بیان تھا۔ یہ حضرت ابن مسعود ؓ کا قول ہے اور عبد الرحمن بن زید نے بھی اس کی مثل بات کی ہے۔ اور عضوا علیکم الانامل من الغیظ (آل عمران : 119) کی تلاوت کی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جب انہوں نے کتاب اللہ کو سنا تو متعجب ہوئے اور اپنے ہاتھوں کو اپنے مونہوں میں ڈال دیا۔ حضرت ابو صالح نے کہا : جب انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں تو انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کیا کہ خاموش ہوجا، مقصود رسول کی تکذیب اور ان کی بات کو رد کرنا تھا، یہ تینوں قول قریب المعنی ہیں اور دونوں ضمیریں کفار کے لیے ہیں، اور سند کے اعتبار سے پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ حدثنا عبد الرحمن بن مھدی عن سفیان عن ابی اسحاق عن ابی الاحوص عن عبد اللہ۔ ابو عبید نے اس سند کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : فردوا ایدیھم فی افواھھم کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ غصے سے انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے، شاعر نے کہا ہے : لو أن سلی أبصرت تخددی ودقۃ فی عظم ساقی ویدی وبعد أھلی وجفاء عودی عضت من الوجد بأطراف الید یعنی اگر وہ ان سب چیزوں کو دیکھ لے تو غصے سے ہاتھ کے پوروں کو کاٹ لے (تو گویا غصے سے ایسا ہو سکتا ہے) ۔ سورة آل عمران میں یہ معنی گزر چکا ہے۔ حضرت مجاہد و قتادہ نے کہا : انہوں نے اپنی بات رسولوں پر لوٹائی اور اپنے مونہوں سے ان کی تکذیب کی، پہلی ضمیر رسولوں کے لیے ہے اور دوسری کفار کے لیے۔ حضرت حسن وغیرہ نے کہا ہے : انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر رکھے، مقصود ان کی بات کی تردید تھی، اس صورت میں پہلی ضمیر کفار کے لیے اور دوسری رسولوں کے لیے ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہے : انہوں نے رسولوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ مقاتل نے کہا : انہوں نے رسولوں کے ہاتھ پکڑے اور انہیں خاموش کرنے کے لیے اور گفتگو کو ختم کرنے کیلئے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ دئیے۔ ایک قول یہ بھی ہے : رسولوں نے قوم کے ہاتھ ان کے مونہوں پر لوٹا دئیے۔ ایک قول یہ ہے : یہاں ہاتھوں سے مراد نعمتیں ہیں، یعنی رسولوں کی نعمتوں کو انہوں نے اپنے مونہوں کے ذریعے رد کردیا۔ مونہوں کے ساتھ رد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گفتگو اور تکذہب کرکے تردید کی۔ اور رسولوں کا شریعتیں لے کر آنا نعمتیں ہیں۔ معنی یہ ہوگا کہ رسول جو لے کر آئے انہوں نے اپنے مونہوں کے ذریعے ان کی تکذیب کی۔ اور فی بمعنی با ہوگا، جیسے کہا جاتا ہے : جلست فی البیت وبالبیت اور حروف صفات ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ ابو عبید نے کہا : یہ ضرب المثل ہے، مراد یہ ہے کہ وہ ایمان نہ لائے اور انہوں نے قبول نہ کیا۔ اور جب کوئی آدمی جواب نہ دے اور خاموشی اختیار کرلے تو عرب کہتے ہیں : قدردیدہ فی فیہ۔ یہ اخفش کا بھی قول ہے۔ قتیبی نے کہا : مامور بہ کو ترک کرنے کی وجہ سے عربوں میں سے کسی سے بھی ہم نے یہ نہیں سنا کہ وہ یہ کہتے ہوں : ردیدہ فی فیہ لہٰذا معنی یہ ہوگا : انہوں نے غصے و ناراضگی سے ہاتھوں کو کاٹا۔ شاعر کا قول بھی ہے : تردون فی فیہ غش الحسود حتی یعض علی الأکفا ” یعنی وہ حسد کرنے والوں کے ساتھ دشمنی اور غصے کا اظہار کرتے ہیں حتی کہ وہ اپنی انگلیوں اور ہتھیلی کو کاٹتا ہے “۔ اور اور شاعر نے کہا : قد أفنی أناملہ أزمۃ فأضحی یعض علی الوظیفا انہوں نے کہا : امتوں سے مراد رسولوں کی امتیں ہیں۔ انا کفرنا بما ارسلتم بہ۔ اس میں انہوں نے ان کے رسول ہونے کا اقرار نہیں کیا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ تمہارے گمان کے مطابق جس دین کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اس کا ہم نے انکار کیا۔ وانا لفی شک یعنی شکوک و شبہات اور تردد میں مما تدعوننا الیہ یعنی توحید مریب یعنی جو شک کا باعث ہے۔ جب تو کوئی ایسا کام کرے جو تردد اور شک کا باعث بنے تو اربتہ کہا جاتا ہے، یعنی ہمارا خیال ہے کہ تم بادشاہی اور دنیا کے طالب گار ہو۔
Top