Al-Qurtubi - Al-Hijr : 94
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ
فَاصْدَعْ : پس صاف صاف کہہ دیں آپ بِمَا : جس کا تُؤْمَرُ : تمہیں حکم دیا گیا وَاَعْرِضْ : اور اعراض کریں عَنِ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
پس جو حکم تم کو (خدا کی طرف سے) ملا ہے وہ (لوگوں کو) سنا دو اور مشرکوں کا (ذرا) خیال نہ کرو۔
آیت نمبر 94 تا 95 قولہ تعالیٰ : فاصدع بما تؤمر یعنی آپ اس کے بارے اعلان کر دیجئے جس کے بارے آپ کا حکم دیا گیا ہے، یعنی آپ اللہ تعالیٰ کا پیغام تمام مخلوق تک پہچائیے تاکہ ان پر حجت قائم ہوجائے، تحقیق اسی کے بارے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم ارشاد فرمایا ہے۔ اور الصدع کا معنی الشق (پھاڑنا) ہے۔ اور تصدع القوم یعنی قوم متفرق ہوگئی اور اسی سے ہے یومئذ یصدعون۔ (الروم) یعنی اس دن وہ متفرق ہوجائیں گے (بکھر جائیں گے) اور صدعتہ فانصدع ای انشق۔ (میں نے اسے پھاڑا پس وہ پھٹ گیا) ۔ اور الصدع کا اصل معنی جدا کرنا اور پھاڑنا ہے۔ ابو ذؤیب اپنے گدھوں کا وصف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : وکأنھن ربابۃ و کأنہ یسر یفیض علی القداح ویصدع اس میں یصدع بمعنی یفرق اور یشق (یعنی جدا جدا کرنا اور پھاڑنا) کے ہے۔ پس قول باری تعالیٰ : فاصدع بما تؤمر فراء نے کہا ہے : اس سے فاصدع بالأمر کا ارادہ کیا ہے، یعنی اپنے دین کا اظہار کیجئے، پس اس میں ما فعل کے ساتھ مل کر قائم مقام مصدر کے ہے۔ اور ابن الاعرابی نے کہا ہے : فاصدع بما تؤمر کا معنی ہے اس کا قصد کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : فاصدع بما تؤمر کا معنی ہے آپ ان کی جمعیت اور ان کے کلمہ کو جدا جدا کر دیجئے اس کے ساتھ کہ آپ انہیں توحید کی طرف دعوت دیں کیونکہ یہ متفرق ہوجائیں گے اور جدا جدا ہوجائیں گے اس طرح کہ بعض اسے قبول کرلیں گے، پس اس تفسیر کے مطابق الصدع جماعت کفار کو متفرق کرنے کی طرف راجع ہوگا۔ قولہ تعالیٰ : واعرض عن المشرکین۔ اور آپ مشرکوں کے استہزاء کو اہمیت دینے سے اور ان کے قول کی کوئی پرواہ کرنے سے اعراض کرلیجئے، منہ پھیر لیجئے تحقیق اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بری قرار دیا ہے جو وہ کہتے ہیں۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : یہ اس قول باری تعالیٰ فاقتلوا المشرکین (التوبہ :5) کے ساتھ منسوخ ہے۔ اور عبد اللہ بن عبید نے کہا ہے : حضور نبی مکرم ﷺ مسلسل (دعوت) چھپاتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ قول نازل فرمایا : فاصدع بما تؤمر پھر آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب باہر نکلے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : اس میں اللہ تعالیٰ نے نماز میں قرآن بالجھر پڑھنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ اوعرض عن المشرکین اور آپ ان کی پرواہ نہ کریں۔ اور ابن اسحاق نے کہا ہے : جب وہ شر میں انتہائی سرکش ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کثرت سے استہزاء کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں فاصدع بما تؤمرواعرض عن مشرکین۔ انا کفینک المستھزء ین۔ الذین یجعلون مع اللہ الھا اخر فسوف یعلمون۔ اور اس کا معنی ہے آپ اس کا اعلان کر دیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرئیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے لئے کافی ہے جس نے آپ کو اذیت پہنچائی جیسا کہ وہ آپ کو مذاق اڑانے والوں کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہے، اور وہ اہل مکہ کے پانچ سردار تھے ان میں ولید بن مغیرہ تھا وہ ان کا سرخیل تھا، اور عاص بن وائل، اسود بن مطلب بن اسد ابو زمعہ، اور اسود بن عبد یغوث، اور حارث بن طلاطلہ، اللہ تعالیٰ نے ان تمام کو ہلاک کردیا، کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں غزوہ بدر میں ایک ہی دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ استہزاء کرنے کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ اور ان کے ہلاک ہونے کے سبب سے متعلق ابن اسحاق نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور وہ لوگ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے، پس وہ اور رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تھے تو آپ کے پاس سے اسود بن مطلب گزرا اور آپ نے اس کے چہرے پر سبز پتہ پھنکا تو وہ اندھا ہوگیا اور اس کی آنکھ درد کرنے لگی، تو وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ مارنے لگا۔ اور آپ کے پاس اس اسود بن عبد یغوث گزرا تو آپ نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا پس اس کا پیٹ پانی سے بھر گیا اور اس سوج کی وجہ سے مرگیا۔ کہا جاتا ہے : حبن (کسرہ کے ساتھ) حبنا اور حبن فعل مجہول کے لئے ہے یعنی اس کا پیٹ زرد پانی کے ساتھ بھر گیا، بڑھ گیا، فھو أحبن (وہ بڑے پیٹ والا ہے) والمرأۃ حبناء (سوجے ہوئے پیٹ والی عورت) ، اسی طرح الصحاح میں ہے۔ اور ولید بن مغیرہ آپ کے پاس سے گزرا پس آپ نے اس کے پاؤں کے ٹخنے کے نیچے زخم کے نشان کی طرف اشارہ کیا، اور وہ اس کو کئی سال پہلے لگا تھا، اور وہ اپنی چادر تکبر کی وجہ سے زمین پر گھسیٹ کر چلا کرتا تھا اور اس کی وجہ یہ ہوئی وہ خزاعہ کے ایک آدمی کے پاس سے گزرا وہ اپنے تیر کو پر لگا رہا تھا پس اس کا تیر اس کی چادر کے ساتھ اٹک گیا اور اس کے پاؤں میں خراش لگ گئی وہ فقط خراش تھی اور کچھ نہ تھا، تو وہ اس کے ساتھ جھگڑ پڑا اور اس نے اسے قتل کردیا۔ اور عاص بن وائل آپ کے پاس سے گزرا اور آپ نے اس کے پاؤں کے تلوے کی طرف اشارہ کیا، پھر وہ طائف کے ارادہ سے گدھے پر نکلا، تو گدھا اس کے ساتھ ایک کانٹے دار بوٹی پر بیٹھ گیا اور ایک کانٹا اس کے پاؤں کے تلوے میں لگ گیا اور اسی نے اسے قتل کر ڈالا۔ اور حارث بن طلاطلہ آپ کے پاس سے گزرا، اور آپ نے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا پس اس سے پیپ بہنے لگی اور اسی نے اسے مار ڈالا۔ اور ان کی موت کے سبب میں جو اختلاف ذکر کیا گیا ہے وہ اس کے قریب قریب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک وہ لوگ ہیں جو اس قول باری تعالیٰ سے مراد ہیں : فخر علیھم السقف من فوقھم (النحل : 26) (پس گر پڑی ان پر چھت ان کے اوپر سے) ۔ اسے تشبیہ دی گئی ہے ان کے ساتھ جنہیں موت ان پر چھت گرنے کی وجہ سے واقع ہو، جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔
Top