Al-Qurtubi - An-Nahl : 106
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
مَنْ : جو كَفَرَ : منکر ہوا بِاللّٰهِ : اللہ کا مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِيْمَانِهٖٓ : اس کے ایمان اِلَّا : سوائے مَنْ : جو اُكْرِهَ : مجبور کیا گیا وَقَلْبُهٗ : جبکہ اس کا دل مُطْمَئِنٌّۢ : مطمئن بِالْاِيْمَانِ : ایمان پر وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّنْ : جو شَرَحَ : کشادہ کرے بِالْكُفْرِ : کفر کے لیے صَدْرًا : سینہ فَعَلَيْهِمْ : تو ان پر غَضَبٌ : غضب مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ عَظِيْمٌ : بڑا عذاب
جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کیساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے تو ایسوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا۔
آیت نمبر 106 اس میں اکیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : من کفر باللہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے ساتھ متصل ہے : ولا تنقضوا الایمان بعد توکید ھا پس یہ وصف بالکذب میں مبالغے کا بیان ہے، کیونکہ اس کا معنی یہ ہے تم رسول اللہ ﷺ کی بیعت سے مرتدنہ ہو، یعنی جس نے اپنے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا اور وہ مرتد ہوگیا تو اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے۔ کلبی (رح) نے کہا ہے : یہ آیت عبد اللہ بن سعد بن أبی سرح اور مقبس بن صبابۃ، عبد اللہ بن خطل، اور قیس بن ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا۔ پھر فرمایا : الا من اکبرہ، اور زجاج نے کہا ہے : من کفر باللہ من بعد ایمانہ، من یفتری الکذب سے بدل ہے ؛ یعنی بلاشبہ وہ جھوٹ گھڑتا ہے جس نے اپنے ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ سے کفر کیا، کیونکہ اس نے کلام میں استثنائے غیر تام کے آخر کی طرف دیکھا ہے پس اس نے اسے ماقبل کے ساتھ معلق کردیا ہے۔ اور اخفش نے کہا ہے : من مبتدا ہے اور اس کی خبر محذوف ہے، اور دوسرے من کی خبر پر ہی اکتفا کرلیا گیا ہے، جیسا کہ تیرا یہ قول ہے : من بأتنا من یحسن نکرمہ۔ مسئلہ نمبر 2: قولہ تعالیٰ : الا من اکرہ یہ آیت حضرت عمار بن یاسر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہی اہل تفسیر کا قول ہے کہ یہ اس بعض کے زیادہ قریب ہے جس کی طرف انہوں نے آپ کو بلایا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : مشرکوں نے آپ کو پکڑ لیا اور انہوں نے آپ کے والد اور والدہ سمیہ ؓ اور حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت خباب اور حضرت سالم ؓ کو بھی پکڑ لیا اور انہیں بہت ستایا، اذیتیں پہنچائیں، اور حضرت سمیہ ؓ کو دو اونٹوں کے درمیان باندھ دیا گیا اور ان کی شرمگاہ میں نیزہ مارا گیا۔ اور انہیں کہا گیا : بیشک تو نے ان مردوں کی وجہ سے اسلام قبول کیا ہے، پھر انہیں شہید کردیا گیا اور ان کے خاوند حضرت یاسر ؓ کو بھی شہید کردیا گیا، اور یہ دونوں اسلام میں پہلے مقتول ہیں۔ اور رہے حضرت عمار ؓ ! تو آپ نے مجبوراً اپنی زبان سے ان کے سامنے وہ کہہ دیا جو انہوں نے ارادہ کیا، پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں اس کی شکایت کی، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا : ” اپنے دل کو کیسا پاتے ہو ؟ “ انہوں نے عرض کی : وہ ایمان کے ساتھ مطمئن ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” پس اگر وہ اعادہ کریں تو تم بھی دوبارہ کہہ دو “۔ اور منصور بن معتمر نے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : اسلام میں پہلی شہیدہ حضرت عمار ؓ کی ماں ہے، انہیں ابوجہل نے قتل کیا تھا، اور مردوں میں سے پہلے شہید مجع مولی حضرت عمر ہیں۔ اور منصور نے بھی حضرت مجاہد (رح) سے یہ روایت بیان کی ہے کہ سب سے پہلے جنہوں نے اسلام ظاہر کیا وہ سات ہیں، رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت صہیب، حضرت عمار اور حضرت عمار کی والدہ حضرت سمیہ ؓ پس رہے رسول اللہ ﷺ تو ان کی حفاظت حضرت ابو طالب نے کی، اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی حفاظت ان کی قوم نے کی، اور دوسروں کو انہوں نے پکڑ لیا۔ اور انہیں لوہے کی زرہیں پہنا دیتے، پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیتے یہاں تک کہ انہیں لوہے اور سورج کی گرمی سے حد درجہ مشقت اور تکلیف پہنچتی، اور جب شام ہوتی تو ابو جہل اپنے ساتھ نیزہ لے کر ان کے پاس آتا اور انہیں گالیاں دینے لگتا اور انہیں خوب جھڑکتا، اور پھر وہ حضرت سمیہ ؓ کے پاس آیا اور انہیں گالیاں دینے لگا اور بےحیائی کرنے لگا، پھر ان کی شرمگاہ پر نیزہ مارا یہاں تک کہ وہ ان کے منہ سے باہر نکل گیا اور انہیں قتل کردیا ؛ ؓ انہوں نے بیان کیا : اور دوسروں نے وہ کچھ کہہ دیا جو ان سے پوچھا گیا، سوائے حضرت بلال ؓ کے کیونکہ ان پر ان کے نفس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر معاملہ آسان کردیا، پس وہ انہیں عذاب اور اذیتیں دینے لگے اور ان کو کہنے لگے : اپنے دین سے رجوع کرلو۔ (واپس لوٹ آؤ) اور وہ فرماتے : أحد أحد (اللہ تعالیٰ ایک ہے، اللہ تعالیٰ ایک ہے) ، یہاں تک کہ وہ آپ سے اکتاگئے، پھر انہوں نے آپ کو باندھ دیا اور آپ کے گلے میں کھجور کی چھال کی رسی ڈال دی اور اپنے بچوں کے حوالے کردیا کہ وہ اس کے ساتھ مکہ کے ان دو پہاڑوں کے درمیان کھیلتے رہیں حتیٰ کہ وہ بھی آپ سے اکتا گئے اور پھر چھوڑ دیا۔ راوی نے بیان کیا پس حضرت عمار ؓ نے کہا : ہم تمام نے سوائے حضرت بلال ؓ کے اس بارے کلام کی جو انہوں نے کہا۔۔ کاش اللہ تعالیٰ ہمارا تدارک فرما دے۔۔۔ کیونکہ ان پر ان کے نفس نے اللہ کی راہ آسان کردی، پس وہ اپنی قوم پر غالب آگئے یہاں تک کہ وہ آپ سے اکتا گئے اور انہوں نے آپ کو چھوڑ دیا۔ اور صحیح یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت بلال ؓ کو خرید لیا اور انہیں آزاد کردیا۔ اور ابن ابی نجیح نے حضرت مجاہد ؓ سے روایت کیا ہے کہ اہل مکہ میں سے کچھ لوگ ایمان لائے، اور حضور نبی مکرم ﷺ کے بعض اصحاب نے مدینہ طیبہ سے ان کی طرف لکھا کہ تم ہماری ہجرت کر آؤ، کیونکہ ہم اپنی طرف سے تمہاری کوئی امداد نہیں کرسکتے یہاں تک کہ تم ہماری طرف ہجرت کر آؤ، پس وہ مدینہ طیبہ کے ارادہ سے نکلے یہاں تک کہ قریش نے انہیں راستے میں پکڑ لیا، پس انہوں نے انہیں طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالا تو انہوں نے مجبور ہو کر کفر اختیار کرلیا، پس ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ دونوں روایتیں حضرت مجاہد (رح) سے اسماعیل بن اسحاق نے ذکر کی ہیں۔ اور ترمذی نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” حضرت عمار ؓ کو دوا مروں کے درمیان اختیار نہیں دیا گیا مگر انہوں نے دونوں میں سے زیادہ درست اور صحیح کو اختیار کیا “۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک جنت تین افراد کی مشتاق ہے (یعنی) حضرت علی، حضرت عمار اور حضرت سلمان بن ربیعہ ؓ “۔ ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث غریب ہے ہم حسن بن صالح کی حدیث کے سوا اسے نہیں جانتے۔ مسئلہ نمبر 3: جب اللہ تعالیٰ نے اکراہ کے وقت اپنے ساتھ کفر کرنے کو بخش دیا ہے حالانکہ وہی اصل شریعت ہے اور اس کے سبب کوئی مذاخذہ نہیں کیا، تو علماء نے اس پر بہت سے شرعی فروعات کو محمول کیا ہے، پس جب ان پر اکراہ واقع ہو تو ان کے سبب مواخذہ نہیں ہوگا اور نہ ان پر کوئی حکم مرتب ہوگا اور اسی کے بارے حضور نبی کریم ﷺ سے مشہور اثر مروی ہے : ” میری امت سے خطا اور نسیان اور وہ عمل جس پر انہیں مجبور کیا گیا اٹھالئے گئے ہیں “۔ الحدیث۔ یہ خبر اگرچہ اس کی سند صحیح نہیں ہے لیکن اس کا معنی باتفاق علماء صحیح ہے، یہ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا ہے۔ اور ابو محمد عبد الحق نے بیان کیا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے، فرمایا : اسے ابوبکر الاصیلی نے ” الفوائد “ میں اور ابن منذر نے کتاب ” الاقناع “ میں ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 4: اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ جسے کفر پر مجبور کیا گیا یہاں تک کہ اسے اپنے اوپر قتل کا خوف (غالب) ہو، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اگر اس نے کفر کیا بشرطیکہ اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو اور نہ اس سے اس کی بیوی جدا ہوگی اور نہ اس پر کفر کے حکم کے ساتھ حکم لگایا جائے گا، یہ قول امام مالک، امام شافعی اور کو فیوں کا ہے، مگر امام محمد (رح) بن حسن نے کہا ہے : جب اس نے شرک کا اظہار کیا تو وہ ظاہر میں مرتد ہوگیا، اور جو معاملہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے اس میں وہ اسلام پر ہی رہے گا، اور اس کی بیوی اس سے جدا ہوجائے گی، اور اگر وہ مرگیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، اور وہ اپنے باپ کا وارث نہیں بنے گا بشرطیکہ وہ اسلام پر فوت ہوا ہو۔ اور یہ وہ قول ہے جسے کتاب و سنت رد کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : الا من اکرہ الآیہ۔ اور فرمایا : الا ان تتقوا منھم تقۃ (آل عمران :28) (مگر اس حالت میں کہ تم کرنا چاہو ان سے اپنا بچاؤ) ۔ اور فرمایا : ان الذین توفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم، قالوا کنا مستضعفین فی الارض الآیہ (النساء : 97) (بےشک وہ لوگ کہ قبض کیا ان (کی روحوں) کو فرشتوں نے اس حال میں کہ وہ ظلم توڑ رہے تھے اپنی جانوں پر فرشتوں نے انہیں کہا کہ تم کس شغل میں تھے ؟ (معذرت کرتے ہوئے) انہوں نے کہا : ہم تو بےبس تھے زمین میں) ۔ مزید فرمایا : الا المستضعفین من الرجال والنسآء والولدین الآیہ (النساء : 98) (مگر واقعی کمزور و بےبس مرد اور عورتیں اور بچے۔۔۔ الخ) پس اللہ تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کو معذور قرار دیا ہے جو اس کام کو ترک کرنے سے باز رہتے ہیں جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے حکم ارشاد فرمایا ہے، اور مکرہ نہیں ہوتا مگر وہی کمزور جو اس عمل کو کرنے سے رکنے والا نہیں جس کے بارے اسے حکم دیا گیا ہے، یہ امام بخاری (رح) نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 5: علماء کے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ رخصت فقط قول میں ہے اور جہاں تک فعل کا تعلق ہے تو اس میں کوئی رخصت نہیں، مثلاً یہ کہ انہیں غیر اللہ کو سجدہ کرنے پر یا غیر قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے پر مجبور کیا جائے یا کسی مسلمان کو قتل کرنے پر یا اسے مارنے پر یا اس کا مال کھانے پر مجبور کیا جائے یا زنا کرنے، اور شراب پینے اور سود کھانے پر مجبور کیا جائے ؛ یہ حضرت حسن بصری ؓ سے روایت کیا جاتا ہے۔ اور ہمارے علماء میں سے امام اوزاری (رح) اور سحنون کا قول بھی یہی ہے۔ اور محمد ﷺ بن حسن نے کہا ہے : جب کسی قیدی کو کہا جائے : اس بت کو سجدہ کر ورنہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ تو انہوں نے فرمایا : اگر وہ بت قبلہ سمت ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سجدہ کو لے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کے لئے ہو، اور اگر وہ قبلہ سمت نہ ہو تو پھر وہ سجدہ نہ کرے اگرچہ وہ اسے قتل کردیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ وہ سجدہ کرلے اگرچہ وہ غیر قبلہ کی طرف ہی ہو، اور اس وقت سجدہ کرنا ہی اس کے لائق اور مناسب ہے۔ اور صحیح میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ آرہے تھے تو آپ اپنی سواری پر ہی جدھر اس کا منہ ہوتا نماز پڑھتے تھے۔ انہوں نے فرمایا : اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے : فاینما تولو افثم وجہ اللہ (البقرہ : 115) (سو جدھر بھی تم رخ کرو وہیں ذات خداوندی ہے) ۔ پس جب یہ دوران سفر حالت امن میں محض سواری سے اترنے کی مشقت کے پیش نظر نفل نماز کے لئے مباح ہے تو پھر حالت اکراہ میں یہ کیسے نہیں ہوسکتا ؟ اور انہوں نے رخصت کو قول میں محصور کرنے کے بارے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے قول سے استدلال کیا ہے : کوئی کلام نہیں ہے جو مجھ سے طاقتور کے دو کوڑے دور کرسکتا ہو مگر یہ کہ میں اس کے ساتھ کلام کروں۔ تو انہوں نے رخصت کو قول میں محصور کیا ہے اور فعل کا ذکر نہیں کیا، اور یہ وہ ہے جس کے بارے کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ قول یہ احتمال رکھتا ہے کہ انہوں نے کلام کو بطور مثال ذکر کیا ہو حالانکہ وہ یہ ارادہ رکھتے ہوں کہ فعل اسی کے حکم میں ہے۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے کہ قول اور فعل میں اکراہ برابر ہے بشرطیکہ اندر ایمان موجود ہو۔ اور یہ حضرت عمر بن خطاب ؓ اور مکحول (رح) سے مروی ہے، اور امام مالک (رح) اور اہل عراق کے ایک گروہ کا قول ہے۔ اور ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے یہ روایت کیا ہے کہ جسے شراب پینے پر، نماز چھوڑنے پر یا رمضان میں روزہ افطار کرنے (نہ رکھنے پر) مجبور کیا گیا، تو اس سے گناہ اٹھالیا گیا۔ مسئلہ نمبر 6: علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جسے دوسرے کو قتل کرنے پر مجبور کیا جائے تو اس پر اقدام قتل جائز نہیں اور اس کی حرمت کو ختم کرنا کوڑوں یا کسی اور شے کے بدلے جائز ہے، بلکہ وہ اس مصیبت اور اذیت پر صبر کرے جو اس پر آئی ہے، اور اس کیلئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کا فدیہ کسی اور کے ساتھ دے، اور اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کی التجا کرتا رہے۔ اور زنا کے بارے میں اختلاف ہے، پس مطرف، اصبغ، ابن عبد الحکم اور ابن ماجثون نے کہا ہے : کوئی بھی ایسا نہیں کرے گا اگرچہ وہ قتل کردیا جائے وہ ایسا نہ کرے، پس اگر اس نے ایسا کیا تو وہ گنہگار ہوگا اور اس پر حد لازم ہوگی ؛ ابو ثور اور حسن نے یہی کہا ہے۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : صحیح یہ ہے کہ اس کے لئے اقدام زنا جائز ہوگا اور اس پر حد نہ ہوگی، بخلاف اس کے جس نے اسے لازم کیا ہے، کیونکہ ان کی رائے ہے کہ یہ فطری شہوت ہے اس میں اکراہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اور وہ شہوت کا باعث بننے والے سبب سے غافل ہے اور وہی اسے اس پر مجبور کرنے والا ہے، اور یہی وہ ہے جس نے اسکا حکم ساقط کردیا ہے، اور بلاشبہ حد اس شہوت پر واجب ہوتی ہے جس پر سبب اختیاری نے برانگیختہ کیا ہو، پس انہوں نے شے کو اپنی ضد پر قیاس کیا ہے، پس یہ اس کی طرف سے درست اور صحیح نہیں۔ اور ابن خویز منداد نے احکام میں کہا ہے : ہمارے اصحاب نے اس بارے اختلاف کیا ہے جب آدمی کو زنا پر مجبور کیا جائے، پس بعض نے کہا ہے : اس پر حد ہوگی، کیونکہ وہ یہ عمل اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : اس پر حد نہ ہوگی۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : اور یہی صحیح ہے۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : اگر اسے غیر سلطان نے مجبور کیا تو اسے حد لگائی جائے گی، اور اگر اسے سلطان نے مجبور کیا تو پھر قیاس یہ ہے کہ اسے حد لگائی جائے گی، لیکن مستحسن یہ ہے کہ اسے حد نہ لگائی جائے۔ اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ ) نے ان سے اختلاف کیا ہے پس انہوں نے کہا ہے : دونوں صورتوں میں اس پر حد نہ ہوگی، اور انہوں نے انتشار کا لحاظ نہیں رکھا ہے اور انہوں نے کہا ہے : جب یہ علم ہو کہ وہ فعل زنا کے ساتھ قتل سے نجات پا جائے گا تو انتشار جائز ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : اس پر کوئی حد نہیں، اور اس میں سلطان اور غیر سلطان کے درمیان کوئی فرق ہیں مسئلہ نمبر 7: مکرہ کی طلاق اور اس کی عتاق کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ پس امام شافعی (رح) اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے : اس کی کوئی شے لازم نہ ہوگی۔ ابن وہب نے حضرت عمر، حضرت علی، اور حضرت ابن عباس ؓ سے یہ ذکر کیا ہے کہ وہ اس کی طلاق کو کوئی شے نہیں جانتے۔ اسے ابن منذر نے حضرت ابن زبیر، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، عطا، طاؤس، حسن، شریح، قاسم، سالم، امام مالک، امام اوزاعی، امام احمد، اسحاق اور ابو ثور ؓ ورحمہم اللہ تعالیٰ سے ذکر کیا ہے۔ اور ایک گروہ نے اس کی طلاق کو جائز قرار دیا ہے ؛ اور یہ حضرت شعبی، نخعی، ابو قلابہ، زہری اور قتادہ رحمہم اللہ تعالیٰ سے مروی ہے، اور یہی کو فیوں کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے : مکرہ کی طلاق لازم ہوجاتی ہے، کیونکہ اس میں رضا سے زیادہ کوئی شے معدوم نہیں، اور اس کا وجود طلاق میں شرط نہیں جیسا کہ ھازل (ٹھٹھا مذاق کرنے والا) ۔ اور یہ قیاس باطل ہے، کیونکہ ھازل طلاق واقع کرنے کا قصد کرتا ہے اور اس کے ساتھ راضی ہوتا ہے، اور مکرہ راضی نہیں ہوتا اور نہ طلاق میں اس کی نیت ہوتی ہے، حالانکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : ” بیشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے “۔ اور بخاری میں ہے : اور حضرت ابن عباس ؓ نے اس آدمی کے بارے میں کہا ہے جسے چور مجبور کرتے ہیں پس وہ طلاق دے دیتا ہے : تو وہ کوئی شے نہیں ہے (یعنی طلاق واقع نہیں ہوتی) اور یہی حضرت ابن زبیر، حضرت ابن عمر، شعبی اور حسن ؓ نے کہا ہے۔ اور شعبی (رح) نے بیان کیا ہے : اگر چوروں نے اسے مجبور کیا تو وہ طلاق نہ ہوگی، اور اگر اسے سلطان نے مجبور کیا تو وہ طلاق ہوجائے گی۔ اور ابن عینیہ نے اسکی تفسیر بیان کی ہے اور کہا ہے : بیشک چور اس کے قتل کا اقدام کرے گا اور سلطان اسے قتل نہیں کرے گا۔ مسئلہ نمبر 8: اور رہا وہ آدمی جسے بیع پر مجبور اور تنگ کیا جائے تو اس کی دو حالتیں ہیں : (1) کہ وہ اپنا مال اس حق کے بدلے بیچے جو اس پر واجب ہے ؛ تو یہ بیع ہوجائے گی، جائز ہوگی اور فقہاء کے نزدیک اس میں رجوع نہ ہوگا، کیونکہ غیر بیع سے حق اس کے مالک کو ادا کرنا اس پر لازم ہے، پس جب اس نے وہ نہیں کیا تو اس کی بیع اس کے اختیار سے ہوئی پس وہ لازم ہوجائے گی، اور رہی مکرہ کی بیع ظلما یا جبرا، تو وہ بیع ہے جو اس پر جائز نہ ہوگی، اور اسمیں اولیٰ یہ ہے کہ وہ اپنا سامان بغیر ثمن کے لے لے، اور مشترمی (خریدار) ثمن کے لئے اس ظالم کا پیچھا کرے، پس اگر سامان ضائع ہوگیا تو وہ اس کے ثمن یا اس میں سے اکثر کی قیمت کے ساتھ اس ظالم پر رجوع کرے جبکہ مشتری اس کے ظلم کو نہ جانتا ہو۔ مطرف نے کہا ہے : خریدنے والوں میں سے جو مکرہ کی حالت کو جانتا ہو تو وہ اس کا ضامن ہوگا جو اس نے اس کے غلاموں اور سامان میں سے خریدار جیسا کہ غاصب کا حکم ہے، پس خریدنے والے نے اس میں آزاد کرنے یا مدبر بنانے یا وقف کرنے وغیرہ کا جو تصرف اور عمل کیا وہ مکرہ پر لازم نہیں ہوگا، اور اس کے لئے اپنا سامان لینا جائز ہوگا۔ سحنون نے کہا ہے : ہمارے اصحاب اور اہل عراق نے اس پر اجماع کیا ہے کہ ظلم اور جو روستم پر مکرہ کا بیع کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اور ابہرمی نے کہا ہے : بیشک اس پر اجماع ہے۔ مسئلہ نمبر 9: اور رہا مکرہ کا نکاح، تو سحنون نے کہا ہے : ہمارے اصحاب نے مکرہہ اور مکرلہ (مرد و عورت) کے نکاح کے باطل ہونے پر اجماع کیا ہے، اور انہوں نے کہا ہے : اس پر قائم رہنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ منعقد ہی نہیں ہوا۔ محمد بن سحنون نے کہا ہے : اہل عراق نے مکرہ کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے اور انہوں نے کہا ہے : اگر اسے اس پر مجبور کیا گیا کہ وہ (فلاں) عورت سے دس ہزار درہم کے عوض، اور ایک ہزار درہم مہر مثل کے عوض نکاح کرے، تو وہ نکاح جائز ہوگا اور ایک ہزار درہم اس پر لازم ہوں گے اور فضل (فالتو رقم) باطل ہوگا۔ امام محمد نے کہا ہے : پس جس طرح انہوں نے ہزار سے زائد کو باطل قرار دیا ہے پس اسی طرح اکراہ کے ساتھ نکاح کو باطل قرار دینا ان پر لازم ہے۔ اور ان کا قول خلاف سنت ہے جو کہ حدیث خنساء بنت حذام انصاریہ میں ثابت ہے اور آپ ﷺ کے ان کے مہروں کے بارے میں مشورہ کرنے کے حکم کے سبب ثابت ہے، اور یہ پہلے گزر چکا ہے، پس ان کے قول کا کوئی معنی نہیں۔ مسئلہ نمبر 10: پھر اگر وہ آدمی جسے نکاح پر مجبور کیا گیا اس نے عورت سے وطی کی درآنحالیکہ اسے وطی پر مجبور نہ کیا گیا اور نکاح کے ساتھ رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے، تو ہمارے نزدیک نکاح لازم ہوجائے گا اور اس پر مہر مسمی لازم ہوگا اور اس سے حد ختم ہوجائے گی۔ اور اگر اس نے کہا : میں نے اس کے ساتھ اپنی طرف سے نکاح پر رضا مندی کے بغیر وطی کی ہے تو اس پر حد ہوگی اور مہر مسمی ہوگا، کیونکہ وہ مہر مسمی کو باطل کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے، اور عورت کو حد لگائی جائے گی اگر اس نے یہ اقدام کیا اور وہ یہ جانتی تھی کہ اسے نکاح پر مجبور کیا گیا ہے۔ اور رہی وہ عورت جسے نکاح پر اور وطی پر مجبور کیا گیا تو اس پر حد نہیں ہوگی اور اس کے لئے مہر ہوگا۔ اور وطی کرنے والے کو حد لگائی جائے گی، پس تو اسے جان لے، یہ سحنون نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 11: جب عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو اس پر کوئی حد نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الا من اکرہ (مگر وہ جسے مجبور کیا جائے) اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطا، نسیان اور وہ عمل جس پر انہیں مجبور کیا گیا کو اٹھا لیا ہے “۔ (اور ان سے درگزر فرما لی ہے) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم۔ (النور) (تو بیشک اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کئے جانے کے بعد (ان کی لغزشوں کو) بخشنے والا (اور ان پر) رحم فرمانے والا ہے) مراد دوشیزائیں ہیں۔ اور اسی معنی کے مطابق حضرت عمر ؓ نے اس لونڈی کے بارے میں فیصلہ کیا جسے غلام نے مجبور کیا تھا اور اسے حد نہ لگائی اور علماء اس پر متفق ہیں کہ وہ عورت جسے مجبور کیا گیا، اس پر کوئی حد نہیں۔ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : جب کوئی عورت حاملہ پائی گئی اور اس کا خاوند ہو اور اس نے کہا : مجھے مجبور کیا گیا تو اس سے وہ قول قبول نہیں کیا جائے گا اور اس پر حد ہوگی، مگر جب اس کے پاس بینہ (گواہ) ہو یا اس نے وہ زخم ظاہر کردیا جو اسے لگایا گیا یا کوئی شی جو اس کے مشابہ ہو۔ اور انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : کتاب اللہ میں رجم اس پر لازم ہے جس نے مردوں اور عورتوں میں سے زنا کیا بشرطیکہ وہ محصن ہو جبکہ اس پر بینہ قائم ہوجائے یا حمل ظاہر ہوجائے یا وہ اعتراف کرلے۔ ابن منذر نے کہا ہے : پہلے قول کے بارے میں میں کہتا ہوں۔ مسئلہ نمبر 12: وہ عورت جسے مجبور کیا گیا اس کے لئے مہر کے واجب ہونے میں اختلاف ہے۔ پس حضرت عطا اور زہری نے کہا ہے : اس کیلئے مہر مثل ہوگا، اور یہی امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور ابو ثور رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ اور ثوری (رح) نے کہا ہے : جب اس پر حد قائم کردی گئی جس نے اس کے ساتھ زنا کیا تو مہر باطل ہوگیا۔ اور یہی حضرت شعبی (رح) سے مروی ہے، اور یہی اصحاب رائے نے کہا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : پہلا قول صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر 13: جب کسی انسان کو اس کے گھر والوں کے اسلام پر ایسی شے کیلئے مجبور کیا گیا جو حلال نہیں تو وہ اسے تسلیم کرلے، اور اپنے آپ کو اسے چھوڑ کر قتل نہ کرے اور اس سے خلاصی اور نجات پانے میں اذیت برداشت نہ کرے۔ اس کی اصل اس روایت میں ہے جسے امام بخاری (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ ؓ کے ساتھ ہجرت کی اور وہ اس کے ساتھ ایک شہر میں داخل ہوئے اس میں بادشاہوں میں سے کوئی بادشاہ یا جابروں میں سے کوئی جابر تھا اس نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ تم اس کو میرے پاس بھیج دو ، پس آپ نے اسے بھیج دیا اور خود اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے پس وہ کھڑی ہوئی، وضو کیا اور نماز پڑھنے لگی۔ اور دعا مانگی : اے اللہ ! اگر میں تیرے ساتھ اور تیرے رسول کے ساتھ ایمان لائی ہوں تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کرنا۔ پس (اس پر نیند طاری کردی گئی) اور وہ خراٹے لینے لگا یہاں تک کہ اپنے پاؤں کے ساتھ اس نے دور ہٹا دیا “۔ اور یہ حدیث بھی اس پر دلیل ہے کہ حضرت سارہ ؓ پر جب کوئی ملامت نہیں ہے، تو اسی طرح مستکرہہ پر بھی کوئی ملامت نہ ہوگی، اور نہ اس میں حد ہوگی جو خلوت میں سے اس سے زیادہ ہو۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 14: جہاں تک مکرہ کی قسم کا تعلق ہے تو وہ لازم نہیں ہوتی یہ امام مالک (رح)، امام شافعی (رح)، ابوثور، اور اکثر علماء کے نزدیک ہے۔ ابن ماجثون نے کہا ہے : برابر ہے اس نے ایسی شے کے بارے قسم کھائی جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری ہو یا ایسی چیز کے بارے میں جو معصیت اور گناہ ہو جب اسے قسم پر مجبور کیا جائے اور یہ اصبغ نے بھی کہا ہے۔ اور مطرف نے کہا ہے : اگر کسی کو ایسی شت کے بارے قسم پر مجبور کیا گیا جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو یا اس کے کرنے میں طاعت ہو نہ معصیت تو اس میں قسم ساقط ہوجائے گی، اور اگر اسے ایسی شے میں قسم کھانے پر مجبور کیا گیا جو طاعت ہو مثلاً یہ کہ والی کسی فاسق آدمی کو پکڑلے اور اسے مجبور کرے کہ وہ طلاق کے ساتھ قسم اٹھائے کہ وہ شراب نہیں پیئے گا یا وہ فسق نہیں کرے گا یا وہ اپنے کام میں بددیانتی نہیں کرے گا یا والد اپنے بیٹے کو ادب سکھانے کے لئے یہ قسم دیتا ہے تو یہ قسم لازم ہوجائے گی، اگرچہ مکرہ ان چیزوں کے بارے میں خطا کار ہو جن کا وہ مکلف اور پابند بنایا جا رہا ہے۔ اور یہی ابن حبیب نے کہا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ اور کو فیوں میں سے آپ کے متبعین نے کہا ہے : بیشک اگر اس نے قسم کھائی کہ وہ یہ کام نہیں کرے گا پھر اس نے وہ کیا تو وہ حانث ہوجائے گا، انہوں نے کہا : کیونکہ جس کو مجبور کیا گیا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنی تمام قسموں میں حقیقت کو چھپائے (یعنی توریہ استعمال کرے) اور جب اس نے نہ چھپایا اور نہ اس کے خلاف نیت کی جس پر اسے مجبور کیا گیا تو تحقیق اس نے قسم کا ارادہ کرلیا۔ اور پہلے فریق کے ائمہ نے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے : جب اسے قسم پر مجبور کیا گیا ہے پس تو اس کی نیت اس کے قول کے مخالف ہوگئی کیونکہ وہ مجبور اس شے کے لئے ہے جس پر اس نے قسم کھائی۔ مسئلہ نمبر 15: علامہ ابن عربی نے کہا ہے : عجیب معاملہ یہ ہے کہ ہمارے علماء نے اکراہ کی صورت میں حانث ہونے پر اختلاف کیا ہے کہ کیا اس کے ساتھ حنث واقع ہوگا یا نہیں ؟ اور یہ مسئلہ عراقیہ ہے جو ہمارے لئے ان سے چلا ہے، نہ یہ مسئلہ ہو اور نہ وہ ہوں ! اے ہمارے اصحاب کی جماعت ! کون سا فرق ہے قسم پر مجبور کرنے کے درمیان اس بارے میں کہ وہ لازم نہیں ہوتی اور حنث کے درمیان اس بارے میں کہ وہ واقع نہیں ہوتا ؟ پس اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی نصیرتوں کی طرف رجوع کرو اور اس روایت سے دھوکہ نہ کھاؤ کیونکہ یہ درایت میں عیب ہے۔ مسئلہ نمبر 16: جب کسی آدمی کو اس پر مجبور کیا گیا کہ وہ قسم اٹھائے ورنہ اس کا مال لے لیا جائے گا جیسا کہ ٹیکس وصول کرنے والے اور محصول لینے والوں کا ظلم اور ظلم و زیادتی کرنے والے، تو امام مالک (رح) نے کہا ہے : اس میں اس کیلئے کوئی بچاؤ نہیں ہے۔ بیشک آدمی اپنی قسم کے ساتھ اپنے بدن سے تکلیف دور کرسکتا ہے اپنے مال سے نہیں۔ اور ابن ماجثون نے کہا ہے : وہ حانث نہیں ہوگا اگرچہ اس نے اپنے مال سے (نقصان کے خطرہ کو) دور کردیا اور اسے اپنے بدن پر کوئی خوف نہ ہو۔ اور ابن القاسم نے مطرف کے قول سے کہا ہے، اور انہوں نے اسے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے، اور یہ ابن عبد الحکم اور اصبغ نے کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ابن ماجثون کا قول صحیح ہے، کیونکہ مال سے نقصان کو دور کرنا جان کی مدافعت کی مثل ہی ہے اور یہی حسن اور قتادہ ؓ کا قول ہے اور عنقریب آرہا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک تمہارے خون اور تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں “۔ اور مزید فرمایا : ” ہر مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے “۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی آدمی آئے جو میرا مال اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو تو اسے اپنا مال نہ دے “۔ اس نے عرض کی : آپ کی کیا رائے ہے اگر وہ مجھے قتل کرنا چاہئے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو اسے قتل کر دے “۔ اس نے عرض کی : ” آپ کی کیا رائے ہے اگر وہ مجھے قتل کر دے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” پس تو شہید ہوگا “۔ اس نے عرض کی : آپ کیا دیکھتے ہیں اگر میں اسے قتل کر دوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ جہنم میں ہوگا “۔ اسے امام مسلم نے ذکر کیا ہے۔ اور اس بارے میں بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اور مطرف اور ابن ماجثون نے کہا ہے : اگر کسی قسم کھانے والے نے ظالم والی کے سامنے قسم کے بارے سوال سے پہلے ہی قسم کھانے میں جلدی کردی تاکہ وہ اس کے ساتھ اپنے مال اور اپنے بدن میں سے جس پر جو خوف ہے اسے دور کرسکے پس اس نے اس کیلئے قسم اٹھا دی تو وہ اس پر لازم ہوجائے گی۔ اور یہ ابن عبد الحکم اور اصبغ نے کہا ہے۔ اور ابن ماجشون نے بھی اس آدمی کے بارے میں کہا ہے جسے کسی ظالم نے پکڑ لیا اور اس نے اس کیلئے طلاق البۃ کے ساتھ قسم کھائی اور اس کے بغیر کہ وہ اسے قسم دے اور اس نے اسے چھوڑ دیا حالانکہ وہ جھوٹا ہے، بلاشبہ اس نے یہ قسم اس کے مارنے، قتل کرنے یا اس کا مال لینے کے خوف سے کھائی ہے، پس اگر وہ خوف کے غلبہ اور نجات کی امید کے ساتھ قسم کھانے کے سبب اس کے ظلم سے چھٹکارا پا گیا تو وہ اکراہ میں داخل ہوگا اور اس پر کوئی شے نہ ہوگی، اور اگر اس نے نجات کی امید پر قسم نہ کھائی تو وہ حانث ہوگا۔ مسئلہ نمبر 17: محققین علماء نے کہا ہے : جب مکرہ کفر کا تلفظ کرے تو اس کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ بغیر توریہ کے اسے اپنی زبان پر لے آئے) ، کیونکہ توریہ میں جھوٹ کی وسعت اور کشادگی ہوتی ہے اور جب اس طرح نہ ہوا تو وہ کافر ہوجائے گا، کیونکہ توریہ پر اکراہ کی کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اس کو کہا جائے : اکفر باللہ (اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کر) تو وہ کہے گا ھو کافر بالنبی، یعنی اسے مشدد کہے گا اور اس کا معنی زمین کی بلند جگہ ہے۔ اور اس پر بھی اس کا اطلاق کیا جاتا ہے جو کھجور کے پتوں سے دسترخوان کی طرح کی چیزیں بنانے کا کام کرتا ہے، پس وہ ان دونوں معنوں میں سے کسی ایک کا اپنے دل سے قصد اور ارادہ کرے گا اور کفر کے گناہ سے بری ہوجائے گی۔ اور اگر اس کو کہا گیا : اکفر بالنبی (ہمزہ کے ساتھ) تو وہ کہے گا : ھو کافر بالنبی اور اس سے ارادہ مخبر کا کرے گا، یعنی کوئی بھی خبر دینے والا ہو جیسا طلیحہ اور مسلیمہ کذاب تھے یا اس سے مراد وہ نبی لے گا جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے : فأصبح ربما دقاق الحصی مکان النبئ من الکاثب مسئلہ نمبر 18: علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جس آدمی کو کفر پر مجبور کیا گیا لیکن اس نے قتل کو اختیارکیاتو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا اجر اس سے زیادہ اور عظیم ہے جس نے رخصت کو اختیار کیا اور اس کے بارے علماء نے اختلاف کیا ہے جسے قتل کے سوا کسی ایسے فعل پر مجبور کیا گیا جو اس کے لئے حلال نہ ہوتواصحاب مالک (رح) نے کہا ہے : اس میں شدت اور سختی کو لینا، اور قتل وضرب کا اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک رخصت کو اختیار کرنے سے افضل ہے، اسے ابن حبیب اور سحنون نے ذکر کیا ہے۔ اور ابن سحنون نے اہل عراق سے ذکر کیا ہے کہ جب کسی کو قتل یا قطع اعضاء یا مارنے کے ساتھ ڈرایا دھمکایا گیا اور اس سے جان ضائع ہونے کا خوف ہو تو اس کیلئے مباح ہے کہ وہ وہ عمل کرے جس پر اسے مجبور کیا گیا ہے، مثلاً شراب پینا یا خنزیر کھانا وغیرہ اور اس نے ایسا نہ کیا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا گیا تو ہمیں اس کے گنہگار ہونے کا خوف ہے کیونکہ وہ مضطر کی طرف ہے۔ اور حضرت خباب بن ارت ؓ نے بیان کیا ہے : ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں شکایت پیش کی درآنحالیکہ آپ کعبہ معظمہ کے سائے میں چادر کا تکیہ بنائے لیٹے ہوئے تھے میں نے عرض کی : کیا آپ ہمارے لئے مدد طلب نہیں کریں گے، کیا آپ ہمارے لئے دعا نہیں مانگیں گے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : کبھی تم میں سے پہلے لوگوں میں سے کوئی آدمی پکڑ لیا جاتا تھا اور اس کے لئے زمین میں گڑھا کھود دیا جاتا، پھر اس میں اسے رکھا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اسے اس کے سر پر رکھ دیا جاتا اور اسے دو حصوں میں نصف نصف کردیا جاتا اور لوہے کی کنگھیوں کے ساتھ اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں کو نوچ لیا جاتا تو یہ چیزیں اسے اپنے دین سے نہ روکتی تھیں، قسم بخداً یہ امر (دین اسلام) ضرور مکمل ہوگا یہاں تک کہ صنعاء سے حضرموت کی طرف ایک سوار چلے گا اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا اور اپنے ریوڑ پر بھیڑئیے کے سوا کوئی خوف نہ ہوگا لیکن تم بہت جلد بازی کرتے ہو “۔ پس رسول اللہ ﷺ کا امم ماضیہ کا یہ وصف بیان کرنا ان کی مدح کے طریقہ پر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مکروہ اور تکلیف دہ چیز پر صبر کرنے کے بیان کے لئے ہے، اور یہ کہ انہوں نے ظاہر میں کفر نہیں کیا اور نہ ایمان کو چھپایا تاکہ وہ اپنے آپ سے عذاب اور اذیتیں دور کرلیں۔ اور یہ ان کی دلیل اور حجت ہے جنہوں نے ضرب، قتل اور ذلت و رسوائی کو رخصت پر اور دار الجنان میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔ اس کا مزید بیان سورة الاخدود میں آئے گا۔ ان شاء اللہ۔ اور ابوبکر محمد بن محمد بن الفرج بغدادی نے ذکر کیا ہے : انہوں نے بیان کیا، ہمیں شریح بن یونس نے اسماعیل بن ابراہیم سے انہوں نے یونس بن عبید سے اور انہوں نے حسن سے بیان کیا ہے کہ مسیلمہ کے جاسوسوں نے حضرت نبی مکرم ﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو پکڑا اور وہ انہیں مسیملہ کے پاس لے گئے، تو اس نے ان میں سے ایک کو کہا : کیا تو شہادت دیتا ہے کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں۔ پھر اس نے کہا : کیا تو شہادت دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا : ہان۔ پس اس نے اسے چھوڑ دیا، آزاد کردیا۔ پھر دوسرے آدمی کو کہا : کیا تو شہادت دیتا ہے کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ نے رسول ہیں ؟ اس نے جواب دیا : ہاں۔ پھر اس نے پوچھا : کیا تو شہادت دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ؟ اس نے جواب دیا : میں بہرہ ہوں کچھ نہیں سنتا، اس نے اسے آگے بلا بھیجا اور اس کی گردن ماردی۔ پس وہ پہلا آدمی حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی : میں ہلاک ہوگیا ! آپ نے فرمایا : ” کسی چیز نے تجھے ہلاک کیا ہے ؟ “ پھر اس نے پوری بات ذکر کی، آپ نے فرمایا : ” جہاں تک تیرے ساتھی کا تعلق ہے تو اس نے یقین اور اعتماد کو اختیار کیا ہے اور تو نے رخصت کو لیا ہے اب اس وقت تو کون سی حالت پر ہے ؟ اس نے عرض کی : میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں “۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو اسی حال پر رہ جس پر تو ہے “۔ اس آدمی کے بارے میں رخصت جسے ظالم حکمران نے قسم دی اپنی ذات پر یا اس پر کہ وہ فلاں آدمی پر یا فلاں آدمی کے مال پر اس کی راہنمائی کرے گا۔ تو حسن نے کہا : جب اس پر اور اس کے مال پر خوف ہو تو اسے چاہئے کہ وہ قسم اٹھادے اور اپنی قسم کا کفارہ نہیں دے گا۔ یہی حضرت قتادہ کا قول ہے جبکہ اس نے اپنی ذات پر یا اپنے ذاتی مال پر قسم کھائی۔ اور اس بارے میں علماء کا نظریہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور موسیٰ بن معاویہ نے ذکر کیا ہے کہ ابو سعید بن اشرس صاحب مالک سے سلطان تیونس نے آیک آدمی کے خلاف قسم لی سلطان نے اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا اس نے اسے پناہ نہیں دی ہے، اور نہ یہ اس کی جگہ کو جانتا ہے، تو ابن اشرس نے اس کیلئے قسم دے دی، اور پھر اپنی بیوی کو کہا : تو مجھ سے علیحدہ ہوجا پس وہ اس سے علیحدہ ہوگئی، پھر ابن اشرس سوار ہوا یہاں تک کہ بہلول بن راشد قیروان کے پاس آیا، اور اسے اپنے واقعہ کی خبر دی، تو بہلول نے اسے کہا : امام مالک (رح) نے کہا ہے بیشک تو حانث ہے، تو ابن اشرس نے کہا : میں نے امام مالک (رح) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے، اور بلاشبہ میں نے رخصت کا ارادہ کیا ہے، یا اس معنی کی کلام کی، تو بہلول بن راشد نے اس کو کہا : حسن بصری ؓ نے کہا ہے بیشک تجھ پر کوئی حنث نہیں ہے۔ راوی کا بیان ہے : پس ابن اشرس نے اپنی بیوی کی طرف رجوع کرلیا اور حضرت حسن بصری ؓ کے قول کے مطابق عمل کیا۔ اور عبد الملک بن حبیب نے ذکر کیا ہے کہ مجھے معبد نے مسیب بن شریک سے اور انہوں نے ابو شیبہ سے بیان کیا ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے حضرت انس بن مالک (رح) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جسے کسی آدمی کے بدلے پکڑ لیا جاتا ہے، آپ کیا رائے رکھتے ہیں کہ وہ قسم اٹھا دے تاکہ وہ اسے اپنی قسم کے ساتھ بچا لے ؟ تو انہوں نے فرمایا : ہاں، کیونکہ میں ستر قسمیں اٹھاؤں اور انہیں توڑ دوں میرے نزدیک یہ زیادہ پسندیدہ ہے اس سے کہ میں کسی مسلمان پر راہنمائی کروں۔ اور ادریس بن یحییٰ نے کہا ہے کہ ولید بن عبد الملک جاسوسوں کو حکم دیتا تھا وہ رعایا کی جاسوسی کرتے تھے اور خبریں اس کے پاس لاتے تھے، اس نے بیان کیا : پس ان میں سے ایک آدمی رجاء بن حیوہ کے حلقہ میں بیٹھا تو اس نے بعض کو سنا وہ ولید کے بارے میں کچھ اعتراض کر رہے ہیں، پس اس نے وہ خبر ولید تک پہنچائی تو اس نے کہا : اے رجاء ! تیری مجلس میں برائی کے ساتھ میرا ذکر کیا گیا اور تو نے اسے تبدیل نہیں کیا ؟ تو انہوں نے فرمایا : اے امیر المومنین ! ایس انہیں ہوا۔ تو ولید نے اس کو کہا : کہو : آللہ الذی لا الہ الا ھو (قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں) تو آپ نے کہا : اللہ الذی لا الہ الا ھو (اللہ وہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں) ؛ پس ولید نے جاسوس کے بارے حکم دیا اور اسے ستر کوڑے مارے، پس وہ رجا کو ملتا تھا اور کہتا تھا : اے رجا ! تیرے وسیلہ سے بارش برستی ہے، اور ستر کوڑے میری پشت پر لگتے ہیں ! تو حضرت رجا فرماتے : تیری پشت پر ستر کوڑے لگنا اس سے بہتر ہے کہ ایک مسلمان آدمی کو قتل کردیا جائے۔ مسئلہ نمبر 19: علماء نے اکراہ کی حد میں اختلاف کیا ہے، پس حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : آدمی اپنے بارے میں پر امن نہیں ہوتا جب تو اسے خوفزدہ کرے یا اسے مضبوط باندھ دے یا اسے مارے۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے بیان کیا ہے کوئی کلام نہیں جو مجھ سے دو کوڑے دور کرسکتی ہو مگر میں وہ کلام کروں گا۔ اور حسن نے کہا : مومن کے لئے احتیاط و بچاؤ یوم قیامت تک جائز ہے، مگر یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قتل میں کوئی احتیاط و بچاؤ نہیں بنایا ہے۔ اور نخعی نے کہا ہے : قید اکراہ ہے اور سجن بھی اکراہ ہے۔ اور یہ امام مالک (رح) کا قول ہے، مگر یہ کہ انہوں نے کہا ہے : خوفزدہ کرنے والی وعید بھی اکراہ ہے اگرچہ وہ واقع نہ بھی ہو، جب کہ اس تعدی کرنے والے کا ظلم اور اس کا نفاذ متحقق اور ثابت ہو جس کے ساتھ وہ ڈرا رہا ہے، امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب کے نزدیک ضرب اور قید میں کوئی مقرر حد نہیں ہے، بلاشبہ ضرب (مار) وہ ہے جو ضرر رساں اور دردناک ہو، اور قید اور جیل وہ ہے جس کی وجہ سے مکرہ پر تنگی واقع ہو۔ اور امام مالک (رح) کے نزدیک سلطان اور کسی دوسرے کا اکراہ ہی ہے۔ اور کو فیوں نے اختلاف کیا ہے پس انہوں نے شراب پینے اور مردار کھانے پر جیل اور قید کو اکراہ نہیں قرار دیا، کیونکہ ان دونوں سے ضائع اور ہلاک ہونے کا کوئی خوف نہیں ہوتا، اور انہوں نے ان دونوں کو کسی کے اس اقرار میں کہ ” فلاں کے میرے پاس ہزار درہم ہیں “ اکراہ (مجبور کرنا) قرار دیا ہے۔ ابن سحنون نے کہا ہے : اس پر علماء کا اجماع ہے کہ درد اور شدید تکلیف اکراہ ہے یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اکراہ بغیر جان کے ضیاع کے بھی ہو سکتا ہے۔ اور امام مالک (رح) نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جسے قسم پر مجبور کیا گیا کسی وعید (دھمکی) یا جیل بھیجنے یا مارنے کی دھمکی کے ساتھ، تو اس کیلئے ہے کہ وہ قسم اٹھاوے اور اس پر حانث ہونا نہیں ہے، یہی امام شافعی، امام احمد، ابو ثور اور اکثر علماء رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 20: اس باب سے یہ ثابت ہوا ہے کہ توریہ میں جھوٹ کی وسعت اور کشادگی ہے۔ اور اعمش نے حضرت ابراہیم نخعی سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : کوئی حرج نہیں ہے جب تیری طرف سے کسی آدمی کو کوئی شے پہنچے کہ تو کہے : قسم بخدا ! بیشک اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے جو کچھ اس میں سے میں نے تیرے بارے میں کہا ہے۔ عبد المالک بن حبیب نے کہا ہے : اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ کچھ میں نے کہا ہے، اور یہ اپنے ظاہر میں قول کی نفی ہے، اور اس پر حنث نہیں ہے جس نے اپنی قسم میں سے کہا ہے اور نہ اس پر اس کے کلام میں جھوٹ ہے۔ اور حضرت نخعی (رح) نے کہا ہے : ان کا کلام قسم کو لغو کرنے والا ہے اور اس کے ساتھ وہ اپنے آپ سے اسے دور ہٹا رہے ہیں، نہ وہ اس میں کوئی کذب اور جھوٹ دیکھتے ہیں اور نہ انہیں اس میں حانث ہونے کا کوئی خوف اور ڈر ہے۔ عبد المالک نے کہا ہے : وہ کلام میں سے اسے تو ریہ کا نام دیتے ہیں جب اس میں کوئی مکرو فریب نہ ہو اور نہ کسی حق میں دھوکا ہو۔ اور اعمش نے کہا ہے : وہ کلام میں سے اسے توریہ کا نام دیتے ہیں جب اس میں کوئی مکرو فریب نہ ہو اور نہ کسی حق میں دھوکا ہو۔ اور اعمش نے کہا ہے : حضرت ابراہیم نخعی (رح) کے پاس جب کوئی آتا تو آپ اس کی طرف نکلنا (اس سے ملاقات کرنا) ناپسند کرتے تھے چناچہ آپ اپنے گھر کی مسجد میں بیٹھ جاتے اور اپنی کنیز کو کہہ دیتے : اسے کہہ دو قسم بخدا ! وہ مسجد میں ہیں۔ اور مغیرہ نے ابراہیم سے روایت بیان کی ہے کہ وہ لشکر میں سے کسی آدمی کو یہ اجازت دیتے تھے کہ جب وہ اپنے امیر کے پاس پیش ہو تو وہ یہ کہے : قسم بخدا ! میں راہ نہیں پاسکتا مگر یہ کہ کوئی دوسرا مجھے سیدھی راہ پر لگائے، اور میں سوار نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ کوئی دوسرا مجھے سوار کرے اور اسی طرح کا اور کلام۔ عبد الملک نے کہا ہے : اس کے قول : غیری سے مراد اللہ تعالیٰ ہے، وہی اسے سیدھی راہ دکھانے والا ہے اور وہی اسے اٹھاتا ہے (سوار کرتا ہے) ؛ پس وہ اس آدمی پر اس کی اس قسم میں حنث نہیں دیکھتے، اور نہ اس کے کلام میں کوئی کذب ہے، اور وہ یہ ناپسند کرتے تھے کہ یہ کلام دھوکہ دہی، ظلم اور حق کے انکار میں کہی جائے پس جس نے یہ جرأت کی اور ایسا کیا تو وہ اپنی دھوکہ دہی میں گنہگار ہوگا اور اس کی قسم میں اس پر کفارہ نہیں ہوگا۔ مسئلہ نمبر 21: قولہ تعالیٰ : ولکن من شرح بالکفر صدرا یعنی اس کے سینے کو کفر قبول کرنے کے سبب وسیع کردیا، کھول دیا، اور اس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کئی قدرت نہیں رکھتا اور یہ قدریہ کا رد کر دہا ہے۔ اور صدرا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ فعلیھم غضب من اللہ، ولھم عذاب عظیم اور وہ عذاب جہنم ہے۔
Top