Al-Qurtubi - An-Nahl : 114
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ اللّٰهُ : تمہیں دیا اللہ نے حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاشْكُرُوْا : اور شکر کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اِيَّاهُ : صرف اس کی تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت کرتے ہو
پس خدا نے جو تم کو حلال طیب رزق دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر کرو اگر اسی کی عبادت کرتے ہو۔
آیت نمبر 114 قولہ تعالیٰ : فکلوا مما رزقکم اللہ یعنی اے مسلمانوں کے گروہ تم غنائم سے کھاؤ۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ خطاب مشرکین کو ہے، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف ان پر شفقت اور نرمی کرتے ہوئے کھانا بھیجا، اور یہ اس وقت ہوا کہ جب وہ سات سال تک قحط میں مبتلا رہے اور اہل عرب نے حضور نبی مکرم ﷺ کے حکم سے ان سے ذخیرہ کی ہوائی خوراک روک لی، تو انہوں نے جلی ہوئی ہڈیاں، مردار، مردہ کتے، چمڑے اور خون میں لتھڑے ہوئے اونٹ کے بال تک کھائے، پھر سردار ان مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی جس وقت خوب مشقت اور تکلیف میں مبتلا ہوئے اور کہنے لگے : یہ تو مردوں کا عذاب ہے اور عورتوں اور بچوں کا حال کیا ہوگا ؟ (وقال لہ ابو سفیان : یا محمد، ان جئت تأمر بصلۃ الرحم والعفو، وإن قومک قدھلکوا ؛ فادع اللہ لھم۔ فدعالھم رسول اللہ ﷺ ، وأذن للناس بحمل الطعام الیھم وھم بعد مشرکون) ۔ اور ابو سفیان نے آپ ﷺ کو عرض کی : اے محمد ! ﷺ بیشک آپ تشریف لائے اور آپ صلہ رحمی اور عفو و درگزر کا حکم دیتے ہیں، اور بیشک آپ کی قوم ہلاک ہوگئی ہے، سو آپ ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے ان کیلئے دعا فرمائی اور لوگوں کو طعام ان کی طرف لانے کی اجازت عطا فرمائی اور وہ اس کے بعد بھی شرک کرتے رہے۔
Top