Al-Qurtubi - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی تکلیف دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔
آیت نمبر 126 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: جمہور علمائے تفسیر نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے، اور یہ حضرت حمزہ ؓ کا غزوہ احد کے دن مثلہ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور یہ صحیح بخاری اور کتاب السیر میں موجود ہے۔ اور نحاس اس طرف گئے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے، اور اس کا معنی اس کے ماقبل مکی آیت کے ساتھ انتہائی خوبصورت اتصال کے ساتھ متصل ہے، کیونکہ رفتہ رفتہ رتنے ان لوگوں سے جنہیں دعوت دی جاتی ہے اور نصیحت کی جاتی ہے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں جن کے ساتھ مناظرہ اور مباحثہ کیا جاتا ہے، اور پھر ان کی طرف جنہیں ان کے فعل پر جزا دی جائے گی، لیکن جو جمہور نے روایت کیا ہے وہ زیادہ پختہ اور ثابت ہے۔ دار قطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : جب مشرکین مقتولین احد سے واپس پھرے تو رسول اللہ ﷺ ان کی طرف گئے اور انتہائی بھیانک اور دردناک منظر دیکھا، آپ ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کو دیکھا کہ ان کا پیٹ چاک کردیا گیا ہے، ان کی ناک کاٹ لی گئی ہے، اور ان کے کان بھی کاٹ لئے گئے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اگر عورتیں غمزدہ نہ رہتیں یا میرے بعد یہ سنت نہ بن جاتی تو میں انہیں چھوڑ دیتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں درندوں اور پرندوں کے شکموں سے دوبارہ زندہ کرتا میں ضرور ان کی جگہ ستر افراد کا مثلہ کروں گا “۔ پھر آپ ﷺ نے ایک چادر منگائی اور اس کے ساتھ ان کے چہرے کو ڈھانپ دیا، اور آپ کے پاؤں اس سے باہر نکل گئے پس رسول اللہ ﷺ نے ان کا چہرہ ڈھانپ دیا اور ان کے پاؤں پر اذخر (گھاس) رکھ دی، پھر انہیں سامنے رکھا اور ان پر دس تکبیریں کہیں۔ بعد ازاں ایک ایک شہید کو لایا جاتا اور اسے وہاں رکھا جاتا اور حضرت حمزہ ؓ کو اپنے جگہ پر رہنے دیا گیا، یہاں تک کہ آپ پر ستر مرتبہ نماز جنازہ ادا کی گئی، اور شہدائے احد بھی ستر تھے، پس جب وہ دفن کر دئیے گئے اور آپ ان سے فارغ ہوگئے تو یہ آیت نازل ہوئی : ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظہ۔۔۔۔۔۔ وما صبرک الا باللہ پس رسول اللہ ﷺ نے صبر کیا اور کسی کا مثلہ نہ کیا۔ اسے اسماعیل بن اسحاق نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے، اور حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث زیادہ مکمل ہے۔ اور علامہ طبری (رح) نے ایک گروہ سے یہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کے ساتھ مظالم کئے گئے کہ جب انہیں اپنے ساتھ ظلم کرنے والے پر قدرت حاصل ہوجائے تو وہ اس کے ساتھ اس کے ظلم کی مثل ہی سلوک کریں اس سے زیادہ کی طرف تجاوز نہ کریں۔ اسے ماوردی نے ابن سیرین اور مجاہد رحمہما اللہ تعالیٰ سے بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اہل علم نے اسکے بارے اختلاف کیا ہے کہ جس آدمی پر کسی نے مال چھین کر ظلم کیا پھر ظالم نے اسی مظلوم کو مال پر امین بنا دیا، کیا اس کیلئے اس میں اتنی مقدار خیانت جائز ہے جتنا اس نے اس کے ساتھ ظلم اور زیادتی کی ہے ؟ تو ایک گروہ نے کہا : اس کیلئے ایسا کرنا جائز ہے ؛ ان میں حضرت ابن سیرین، حضرت ابراہیم نخعی، سفیان اور حضرت مجاہد ہیں اور انہوں نے اس آیت اور اس کے عموم لفظ سے استدلال کیا ہے۔ اور امام مالک (رح) اور ان کے ساتھ ایک جماعت نے کہا ہے : اس کے لئے خیانت کرنا جائز نہیں ہے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : ” اس تک امانت پہنچا دے جس نے تجھے امین بنایا ہے اور اس کے ساتھ خیانت نہ کر جس نے تیرے ساتھ خیانت کی ہے “۔ اسے دار قطنی نے روایت کیا ہے اور سورة البقرہ میں یہ مکمل بحث گزر چکی ہے۔ اور مسند ابن اسحاق میں ہے کہ یہ حدیث اس آدمی کے بارے میں وارد ہوئی ہے جس نے کسی دوسرے آدمی کی بیوی کے ساتھ زنا کیا، پھر اس دوسرے نے اس کی بیوی پر قدرت پالی اس طرح کہ اس نے بیوی کو اس کے پاس چھوڑا اور خود سفر پر چلا کیا۔ پس اس آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مشورہ طلب کیا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا : أدالامانۃ الی من ائتمنک ولا تخن من خانک۔ اور اسی بنا پر امام مالک (رح) کا قول مال کے بارے میں قوی ہوجاتا ہے، کیونکہ خیانت اس میں لاحق ہوچکی ہے، اور یہ ایسی رذالت اور کمینگی ہے جس سے وہ جدا اور الگ نہیں ہوسکتا، پس چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے بچائے۔ اور اگر وہ مال سے حق لینے پر قادر ہو تو وہ اس پر امین نہ بنے تو یہ اس کے جائز ہونے کے مشابہ ہوگا، گویا اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم فرمایا ہے، جیسا کہ اگر کوئی حاکم سے حکم اور فیصلہ لینے پر قدرت رکھتا ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ واصبر وما صبرک الا باللہ ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اس آیت میں اس پر دلیل موجود ہے کہ قصاص میں تماثل اور برابری جائز ہے، پس جس نے لوہے کے ساتھ قتل کیا اسی کے ساتھ قتل کیا جائے، اور جس نے پتھر کیساتھ قتل کیا اسے پتھر کے ساتھ قتل کیا جائے، اور واجب مقدار سے تجاوز نہیں کیا جائے گا، اور یہ بحث مکمل طور پر سورة البقرہ میں گزر چکی ہے، والحمدللہ۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اذیتوں کو عقوبت کا نام دیا ہے، حالانکہ حقیقۃً عقوبت وہ ہے جو دوسری ہے (یعنی اذیت کے مقابلے میں جو سزا دی جائے وہ عقوبت کہلاتے ہے) ، تو بیشک ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ دونوں لفظ برابر ہوجائیں اور تاکہ قول کا آغاز اس کے مناسب ہوجائے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس اقوال کے برعکس ہے : ومکروا ومکر اللہ (آل عمران :54) اور اللہ یستھزی بھم (البقرہ : 15) کیونکہ ان میں دوسرا لفظ مجاز ہے اور پہلا حقیقت ہے ؛ یہ ابن عطیہ نے کہا ہے۔
Top