Al-Qurtubi - An-Nahl : 13
وَ مَا ذَرَاَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَمَا : اور جو ذَرَاَ : پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُخْتَلِفًا : مختلف اَلْوَانُهٗ : اس کے رنگ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : وہ سوچتے ہیں
اور جو طرح طرح کے رنگوں کی چیزیں اس نے زمین میں پیدا کیں (سب تمہارے زیر فرمان کردیں) نصیحت پکڑنے والوں کے لئے اس میں نشانی ہے۔
آیت نمبر 13 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : وماذرا یعنی اللہ تعالیٰ نے وہ سب مسخر کردیا جو زمین میں تمہارے لئے پیدا فرمایا اس میں ذرا بمعنی خلق ہے (یعنی پیدا فرمایا) ذرأ اللہ الخلق یذرؤھم ذرءا یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا، پس وہ ذاری (پیدا کرنے والا) ہوا۔ اور اسی سے الذریۃ ہے یعنی جن و انس کی نسل (اولاد) مگر عربوں نے اس کا ہمزہ چھوڑ دیا ہے اور اس کی جمع الذراری ہے۔ کہا جاتا ہے : أنی اللہ ذراک وذرأک وذروک یعنی اللہ تعالیٰ تیری ذریت کو بڑھائے (اس میں برکت دے) اور الذروا اور الذرء کا اصل معنی جمع (اجتماع) سے متفرق اور علیحدہ ہونا ہے۔ اور حدیث میں ہے ذرء النار یعنی بیشک وہ جہنم کے لئے پیدا کئے گئے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو کچھ پیدا فرمایا ہے وہ مسخر اور مطیع ہے مثلاً چوپائے، اونٹ اور دیگر حیوانات اور درخت وغیرہ، اور جو چیزیں ان کے سوا ہیں۔ اور اس پر دلیل وہ روایت ہے جسے امام مالک (رح) نے مؤطا میں کعب الاحبار سے روایت کیا ہے، انہوں نے بیان کیا : اگر وہ کلمات نہ ہوتے جو میں پڑھتا ہوں تو یقیناً یہودی مجھے گدھا بنا دیتے۔ تو ان سے پوچھا گیا : وہ کلمات کیا ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : أعوذ بوجہ اللہ العظیم الذی لیس شئ اعظم منہ، وبکلمات اللہ التآمات التی لایجاوزھن برولافاجر، وبأسماء اللہ الحسنی کلھا ما علمت منھا وما لم اعلم، من شر ما خلق وبرأوذرأ۔ اور اس میں یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ کو رات کے وقت سفر پر لے جایا گیا تو آپ ﷺ نے جنوں میں سے ایک عفریت کو دیکھا کہ وہ آپ کو آگ کے شعلے کے ساتھ تلاش کر رہا ہے، الحدیث۔ اور اس حدیث میں ہے وشر ما ذرأ فی الارض (اور اس کے شر سے جو اللہ تعالیٰ نے زمین میں پیدا کیا ہے) ہم نے اس کا اور اس کی ہم معنی روایات کو ذکر کئی مقامات پر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: قولہ تعالیٰ : مختلفا الوانہ اس میں مختلفا حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ اور الوانہ سے مراد اس کی ہیئتیں اور اس کے مناظر ہیں، مراد چوپائے اور درخت وغیرہ ہیں۔ ان فی ذلک یعنی بیشک ان کے رنگ و روپ کے اختلاف میں لایۃ عبرت اور سبق ہے لقوم یذکرون ان لوگوں کے لئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان بنائی ہوئی چیزوں کی تسخیر میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نشانیاں ہیں اور یہ کہ اس کے سوا کوئی اور اس پر قادر نہیں ہوسکتا۔
Top