Al-Qurtubi - An-Nahl : 2
یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ
يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے بِالرُّوْحِ : وحی کے ساتھ مِنْ : سے اَمْرِهٖ : اپنے حکم عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖٓ : اپنے بندے اَنْ : کہ اَنْذِرُوْٓا : تم ڈراؤ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ : سوائے اَنَا : میرے فَاتَّقُوْنِ : پس مجھ سے ڈرو
وہی فرشتوں کو پیغام دیکر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے۔ کہ (لوگوں کو) بتادو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی سے ڈرو۔
آیت نمبر 2 مفضل نے عاصم سے تنزل الملائکۃ پڑھا ہے اور یہ اصل میں تتنزل تھا، پس فعل کو ملائکہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور کسائی نے ابوبکر سے اور انہوں نے عاصم سے اس سے مختلف قرأت کی ہے، اور اعمش نے تنزل الملائکۃ فاعل کا ذکر کئے بغیر (فعل مجہول) پڑھا ہے۔ اور جعفی نے ابوبکر سے اور انہوں نے عاصم سے تنزل الملائکۃ نون کے ساتھ اور فعل معروف کے ساتھ قرأت کی ہے، اور باقیوں سے ینزل یا اور فعل معروف کے ساتھ پڑھا ہے، اور اس میں ضمیر اللہ تعالیٰ کے اسم کے لئے ہے۔ اور حضرت قتادہ سے تنزل الملائکۃ نون اور تخفیف کے ساتھ مروی ہے۔ اور اعمش نے تنزل تا کے فتحہ اور زا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، اور یہ نزول سے ماخوذ ہے۔ اور الملائکۃ مرفوع ہے جیسا کہ تنزل الملائکۃ میں ہے۔ بالروح یعنی وحی کے ساتھ اور وہ نبوت ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ اس کی نظیر یلقی الروح من امرہ علی من یشآء من عبادہ (غافر :15) ہے۔ ربیع بن انس نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کے کلام کے ساتھ اور وہ قرآن کریم ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : یہ اس حق کا بیان ہے جس کی اتباع اور پیروی واجب ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مراد مخلوق کی ارواح ہیں ؛ یہ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے کہ کوئی فرشتہ نہیں اترتا مگر اس کے ساتھ ایک روح ہوتی ہے۔ اور اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے کہ روح اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے جیسا کہ ابن آدم کی صورتیں اور شکلیں ہیں، اور آسمان سے کوئی فرشتہ نازل نہیں ہوتا مگر اس کے ساتھ ان میں سے ایک ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : رحمت کے ساتھ (یعنی ملائکہ کو رحمت کے ساتھ اتارتا ہے) یہ حسن اور قتادہ نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہدایت کے ساتھ، کیونکہ دل اس کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں جیسا کہ بدن ارواح کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں، اور یہی معنی زجاج کے قول کا ہے۔ زجاج (رح) نے کہا ہے : روح وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے امر کی طرف ارشاد اور ہدایت سے حیات ہے۔ اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : یہاں روح سے مراد حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) ہیں۔ اور قول باری تعالیٰ بالروح میں با بمعنی مع ہے، جیسا کہ تیرا یہ قول ہے : خرج بثیابہ، ای مع ثیابہ (وہ اپنے کپڑوں کے ساتھ نکلا) ۔ من امرہ، ای بأمرہ (اپنے حکم کے ساتھ) ۔ علیٰ من یشاء من عبادہ یعنی ان پر جنہیں اللہ تعالیٰ نبوت کے لئے منتخب فرما لے۔ یہ ان کے اس قول کا رد ہے : لولا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم۔ (الزخرف) (کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن کسی ایسے آدمی پر جو دو شہروں میں بڑا ہے) ۔ ان انذروا انہ لا الہ الا انا فاتقون یہ بتوں کی عبادت سے تحذیر اور ڈرانا ہے، اور اسی لئے انذار کا لفظ آیا ہے، کیونکہ اس کا اصل معنی اس سے ڈرانا اور آگاہ کرنا ہے جس سے ڈرا جاتا ہے۔ اور اس پر قول باری تعالیٰ : فاتقون دلالت کر رہا ہے۔ اور أن (یعنی اس کے ساتھ کہ تم کافروں کو اس بارے خبردار کرو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں) ۔ پس أن حرف جر کے ساقط ہونے کے ساتھ محل نصب میں ہے یا اس پر انذار کے وقوع کے سبب (یہ محل نصب میں ہے) ۔
Top