Al-Qurtubi - An-Nahl : 41
وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی فِي اللّٰهِ : اللہ کے لیے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا ظُلِمُوْا : کہ ان پر ظلم کیا گیا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ : ضرور ہم انہیں جگہ دیں گے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : اچھی وَلَاَجْرُ : اور بیشک اجر الْاٰخِرَةِ : آخرت اَكْبَرُ : بہت بڑا لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لئے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ (اسے) جانتے۔
آیت نمبر 41 قولہ تعالیٰ : والذین ھاجروا فی اللہ من بعد ما ظلموا ہجرت کا معنی سورة النساء میں گزر چکا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یا اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اپنے وطن، اہل خانہ اور قرابتداروں کو چھوڑنا ہے، اور برائیوں اور گناہوں کو ترک کرنا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فی بمعنی لام ہے یعنی ھاجروا للہ۔ من بعد ما ظلموا یعنی اس کے بعد کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں طرح طرح کا عذاب دیا گیا یہ آیت حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت خباب اور حضرت عمار ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اہل مکہ نے انہیں اذیتیں دیں حتیٰ کہ انہوں نے ان کو وہ کہا جس کا انہوں نے ارادہ کیا، پس جب انہوں نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرما ہوگئے، یہ کلبی (رح) نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابو جندل بن سہیل ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : مراد حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب ہیں، مشرکوں نے مکہ مکرمہ میں ان پر ظلم کیا اور انہیں وہاں سے نکال دیا یہاں تک کہ ان میں سے ایک گروہ حبشہ چلا گیا، پھر اللہ کریم نے ان کے لئے دار الھجرۃ (مدینہ طیبہ) کو ٹھکانا اور قیام گاہ بنا دیا اور ان کے لئے اور مومنین کو انصار اور معاون و مددگار بنا دیا۔ اور یہ آیت ان تمام کو شامل ہے لنبوئنھم فی الدنیا حسنۃ حسنہ کے بارے میں چھ اقوال ہیں : (1) مدینہ طیبہ میں اترنا، یعنی ہم انہیں دنیا میں بہتر ٹھکانا دیں گے یعنی مدینہ طیبہ میں اتار دیں گے۔ یہ قول حضرت ابن عباس، حسن شعبی اور قتادہ ؓ نے کہا ہے۔ (2) مراد رزق حسن ہے، یہ مجاہد (رح) نے کہا ہے۔ (3) ان کے دشمنوں کے خلاف مدد و نصرت کرنا، یہ ضحاک نے کہا ہے۔ (4) بیشک یہ سچ کی زبان ہے، اسے ابن جریج نے بیان کیا ہے۔ (5) جو انہوں نے علاقے فتح کرکے ان پر غلبہ حاصل کیا۔ اور ان میں ان کی حکومتیں قائم ہوگئیں (6) جو ان کے لئے دنیا میں ثناء و تعریف باقی رہی، اور ان کی اولاد کو اعزازو شرف حاصل ہوا۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے لئے جمع ہوا ہے۔ والحمدللہ۔ ولا جر الاخرۃ اکبر یعنی دار آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے، یعنی وہ اس سے عظیم اور بڑا ہے کہ کوئی اس کا مشاہدہ کرنے سے پہلے اسے جان سکے ؛ واذا رایت ثم رایت نعیما وملکا کبیرا۔ (الانسان) (اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی) لو کانو یعلمون یعنی کاش یہ ظلم کرنے والے اسے جان لیتے۔ کہا گیا ہے : یہ ضمیر مومنین کی طرف راجع ہے، یعنی اگر وہ آخرت کا ثواب دیکھ لیتے اور اس کا معائنہ کرلیتے تو یقیناً وہ جان لیتے کہ وہ دنیا کے اجر سے بہت بڑا ہے۔ اور روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ جب مہاجرین کو عطیات دیتے تھے تو فرماتے : یہ وہ ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تمہارے ساتھ وعدہ کیا ہے اور جو تمہارے لئے آخرت میں ذخیرہ کیا ہے وہ اس سے زیادہ ہے، پھر آپ ان پر یہ آیت تلاوت کرتے۔
Top