Al-Qurtubi - An-Nahl : 53
وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْهِ تَجْئَرُوْنَۚ
وَمَا : اور جو بِكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ نِّعْمَةٍ : کوئی نعمت فَمِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے ثُمَّ : پھر اِذَا : جب مَسَّكُمُ : تمہیں پہنچتی ہے الضُّرُّ : تکلیف فَاِلَيْهِ : تو اس کی طرف تَجْئَرُوْنَ : تم روتے (چلاتے) ہو
اور جو نعمتیں تم کو میسر ہیں سب خدا کی طرف سے ہیں۔ پھر جب تم کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کے آگے چلاتے ہو۔
آیت نمبر 53 تا 55 قولہ تعالیٰ : وما بکم من نعمۃ فمن اللہ فراء نے کہا ہے : ما بمعنی الجزاء ہے۔ اور بکم میں بافعل مضمر کے متعلق ہے، تقدیر عبارت ہے : وما یکن بکم۔ من نعمۃ یعنی جسمانی صحت، وسعت رزق اور اولاد وغیرہ فمن اللہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں۔ اور کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے وما بکم من نعمۃ فمن اللہ ہی۔ ثم اذا مسکم الضر یعنی پھر جب تمہیں بیماری، مصیبت اور قحط سالی (غربت وغیرہ) آپہنچتی ہے۔ فالیہ تجئرون تو اسی کی جانب دعا کے ساتھ گڑ گڑاتے ہو۔ کہا جاتا ہے : جأ ریجأ رجؤا رأ اور الجؤار الخوار کی طرح ہے ؛ کہا جاتا ہے : جأر الثور یجأر یعنی بیل نے شور مچایا۔ اور بعض نے عجلا جسدا لہ جؤار۔۔۔ قرأت کی ہے۔ اسے اخفش نے بیان کیا ہے۔ اور جأر الرجل إلی اللہ یعنی آدمی نے دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عجزو انکساری اور تضرع کا اظہار کیا۔ اور اعشی نے گائے کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے : فطافت ثلاثا بین یوم ولیلۃ وکان النکیر أن تضیف وتجأرا ثم اذا کشف الضر عنکم پھر جب اللہ تعالیٰ تم سے بلا، مصیبت اور بیماری دور فرما دیتا ہے۔ اذا فریق منکم بربھم یشرکون تو اس مصیبت کے ازالہ کے بعد اور گڑگڑاہٹ کے بعد تم میں سے فوراً ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ پس کلام کا معنی ہلاک ہونے سے نجات پانے کے بعد شرک کرنے پر اظہار تعجب کرنا ہے، اور یہ معنی قرآن کریم میں کئی بار ذکر کیا گیا ہے، سورة الانعام اور یونس میں گزر چکا ہے، اور سبحان وغیرہ میں آرہا ہے۔ اور زجاج نے کہا ہے : یہ اس کے ساتھ خاص ہے جس نے کفر کیا۔ لیکفروا بما اتینھم یعنی اس طرح وہ انکار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا جو اس نے ان سے ضرونقصان اور مصیبت کو، دور فرما کر ان پر انعام فرمایا، یعنی انہوں نے شرک کیا تاکہ وہ انکار کریں، پس لام ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لام عاقبت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : لیکفروا بما اتینھم یعنی اس طرح انہوں نے نعمت کو سبب کفر بنا دیا، اور یہ سب فعل خبیث ہے، جیسا کہ کسی نے کہا : والکفر مضبثۃ لنفس المنعم انعام کرنے والے کی ذات کے لئے انکار خبث ہے فتمتعوا یہ امر برائے تہدید و جھڑک ہے۔ اور عبد اللہ نے قل تمتعوا پڑھا ہے۔ فسوف تعلمون (اے ناشکرو ! چند روز لطف اٹھا لو تم عنقریب اپنے عمل کا انجام جان لوگے) ۔
Top