Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 5
وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَا١ۚ لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ۪
وَالْاَنْعَامَ : اور چوپائے خَلَقَهَا : اس نے ان کو پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : ان میں دِفْءٌ : گرم سامان وَّمَنَافِعُ : اور فائدے (جمع) وَمِنْهَا : ان میں سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اور چارپایوں کو بھی اسی نے پیدا کیا۔ ان میں تمہارے لئے جڑاول اور بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو کھاتے بھی ہو۔
مویشیوں کے فوائد قول باری ہے (والانعام خلقھا لکم فیھا دف و منافع و منھا تاکلون۔ اس نے جانور پیدا کئے جن میں تمہارے لئے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی اور طرح طرح کے دوسرے فائدے ہیں) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ” دف “ سے لباس اور پوشاک مراد ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اس لفظ سے جانوروں کے بال اور اون مراد ہیں جن کے ذریعے حرارت حاصل کی جاتی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ جانوروں کے بالوں اور اون سے تمام احوال یعنی زندہ اور مردہ حالتوں میں فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ قول باری ہے : والخیل والبغال و الحمیر لتر کبوھا و زینۃ اس نے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق نہیں) ہشام الدستوانی نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے علقمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا گوشت مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ قول باری (والانعام خلقھا لکم) میں جن جانوروں کا ذکر ہے وہ کھانے کے لئے ہیں اور زیر بحث آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے وہ سواری کے لئے ہیں۔ امام ابوحنیفہ نے ہیثم سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ گھوڑوں کا گوشت مکروہ سمجھتے تھے اور قول باری (والخیل والبغال والحمیر الترکوھا وزینۃ) کے یہی معنی لیتے تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ گھوڑوں کے گوشت کی ممانعت کی یہ ایک واضح دلیل ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کا ذکر کیا اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بیان کیا کہ ان کا گوشت تم کھاتے ہو۔ چناچہ ارشاد ہوا (والانعام خلقھا لکم فیھا رف و منافع و منھا تاکلون) اس کے بعد گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا ذکر کیا اور ان کے فوائد یہ بیان کئے کہ یہ سواری کے کام آتے ہیں اور یہ تمہاری زندگی کی رونق ہیں۔ اگر ان کا گوشت بھی ان سے حاصل ہونے والے فوائد میں داخل ہوتا تو اللہ تعالیٰ مویشیوں کے فوائد میں گوشت کے ذکر کی طرح یہاں بھی اس کا ضرور ذکر کرتا خاص طور پر گوشت کا استعمال جانور سے حاصل ہونے والے فوائد میں سب سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ ان تینوں جانوروں کے گوشت کی اباحت اور ممانعت کے بارے میں حضور ﷺ سے متضاد روایتیں منقول ہیں۔ عکرمہ بن عمار نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ غزوۂ خیبر کے موقعہ پر لوگوں کو فاقہ اور بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے گھوڑے، خچر اور گدھے ذبح کر لئے۔ حضور ﷺ نے پالتو گدھے، خچر، گھوڑے، کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے حرام قرار دیئے۔ اسی طرح آپ نے سکی کی کوئی چیز اچک لینے نیز لوٹ مار کو بھی حرام قرار دیا۔ سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ بن عبد اللہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں۔ ہم نے حضور ﷺ کو گھوڑوں کا گوشت کھلایا تھا۔ آپ ﷺ نے ہمیں گدھوں کے گوشت کی ممانعت کردی تھی۔ عمر بن دینار نے حضرت جابر ؓ سے اس حدیث کا سماع نہیں کیا تھا اس لئے کہ ابن جریح نے اس حدیث کی عمرو بن دینار سے، انہوں نے ایک شخص سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے۔ حضرت جابر ؓ غزوۂ خیبر کے موقع پر موجود نہیں تھے اس لئے محمد بن اسحاق نے سلام بن کر کرہ سے، انہوں نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے جبکہ حضرت جابر ؓ خیبر کے موقعہ پر موجود نہیں تھے۔ نیز یہ کہ حضور ﷺ نے گدھوں کے گوشت کی ممانعت کردی تھی اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دے دی تھی۔ اس طرح حضرت جابر ؓ سے اس سلسلے میں مروی روایات کا آپس میں تعارض ہے۔ اس صورت میں ان روایات کے متعلق دو باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ایک چیز کے متعلق دو روایتیں منقول ہوں، ایک میں اس کی ممانعت کا حکم ہو اور دوسری میں اباحت کا تو اس صورت میں ممانعت کی روایت اولیٰ ہوگی اس لئے کہ ممکن ہے شارع (علیہ السلام) نے کسی وقت اس چیز کی اباحت کردی ہو اور پھر اس کی ممانعت کا حکم صادر کردیا ہو۔ یہ اس لئے ہے کہ ہر چیز کے اندر اصل کے اعتبار سے اباحت ہوتی ہے اور ممانعت اس پر بعد میں لامحالہ طاری ہوتی ہے جبکہ ہمیں کسی ایسی اباحت کا علم نہیں ہے جو ممانعت کے بعد آئی ہو۔ اس لئے لامحالہ ممانعت کا حکم ثابت ہوگا کیونکہ ممانعت کے بعد اباحت کا کوئی ثبوت نہیں ہے سلف کی ایک جماعت سے یہی مفہوم مروی ہے۔ ابن وہب نے لیث بن سعد سے روایت کی ہے ایک دفعہ عصر کے بعد سورج گرہن شروع ہوگیا۔ ہم اس وقت مکہ مکرمہ میں تھے۔ یہ 13 ھ کا واقعہ ہے۔ اس وقت مکہ مکرمہ میں بہت سے اہل علم موجود تھے جن میں ابن شہاب زہری، ابوبکر بن حزم، قتادہ اور عمرو بن شعیب شامل تھے۔ لیث کہتے ہیں کہ ہم عصر کے بعد کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے۔ میں نے ایوب بن موسیٰ القرشی سے پوچھا کہ لوگ اس موقعہ پر صلوٰۃ الخوف کیوں نہیں پڑھتے جبکہ حضور ﷺ نے ایسے موقعہ پر یہ نماز ادا کی ہے۔ یہ سن کر ایوب نے فرمایا : عصر کی نماز کے بعد نماز کی ممانعت آئی ہے اسی لئے لوگ نماز نہیں پڑھ رہے ہیں۔ ممانعت ایک چیز کے لئے قاطع ہوتی ہے۔ حضرت جابر ؓ سے مروی روایت کی یک توجیہ تو یہ ہوئی۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ حضرت جابر ؓ سے مروی دونوں روایتیں متعارض ہیں اس لئے دونوں ساقط ہوگئیں گویا کہ ان کی روایت ہی نہیں ہوئی۔ اسرائیل بن یونس نے عبد الکریم الجزری سے، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم گھوڑوں کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ “ عطاء کہتے ہیں کہ میں نے جابر ؓ سے خچروں کے گوشت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ گھوڑے کا گوشت حلال ہے یا حرام ؟ ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت المنذر سے، انہوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہم نے حضور ﷺ کے زمانے میں ایک گھوڑا ذبح کر کے اس کا گوشت کھالیا تھا “۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں فریق مخالف کیلئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس لئے کہ روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ حضور ﷺ کو بھی اس کا علم ہوگیا تھا اور آپ نے اس کی توثیق فرما دی تھی۔ اگر حضور ﷺ سے اس کے متعلق علم اور توثیق مل بھی جائے تو اسے اس زمانے پر محمول کیا جائے گا جب ابھی اس کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔ بقیۃ بن الولید نے ثور بن یزید سے، انہوں نے صالح بن یحییٰ بن المقدام سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے صالح کے دادا سے اور انہوں نے حضرت خالد ؓ بن الولید سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے گھوڑوں کے گوشت کی ممانعت فرما دی تھی۔ زہری کا قول ہے کہ ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ محاصرے کی صورت کے علاوہ گھوڑوں کا گوشت کبھی کھایا گیا تھا۔ امام ابو یوسف، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ گھوڑوں کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی قسم کی اسود بن یزید، حسن بصری اور شریح سے بھی روایت ہے۔ امام ابوحنیفہ گھوڑوں کے گوشت میں علی الاطلاق تحریم کے قائل نہیں ہیں۔ اور ان کے نزدیک اس گوشت کا حکم پالتو گدھوں کے گوشت کے حکم جیسا نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اس گوشت کو اباحت اور ممانعت کی متعارض روایات کی بنا پر مکروہ قرار دیا ہے نظر اور قیاس کی جہت سے امام ابوحنیفہ کے مسلک کے حق میں یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ گھوڑا کھروں والا ایک پالتو جانور ہے اس لئے وہ گدھوں اور خچروں کے مشابہ ہوگیا، ایک اور جہت سے دیکھئے۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ خچر کا گوشت نہیں کھایا جائے گا جبکہ خچر کی پیدائش گھوڑے کے نطفے سے ہوتی ہے۔ اگر خچر کی ماں یعنی گدھی حلال ہوتی تو خچر کا حکم بھی اس کی ماں کے حکم جیسا ہوتا اس لئے کہ بچے کا حکم ماں کے حکم کی طرح ہوتا ہے کیونکہ بچہ ماں کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی پالتو گدھی کسی جنگلی گدھے سے جفتی کی بنا پر بچہ پیدا کر دے تو اس بچے کا گوشت نہیں کھایا جائے گا لیکن اگر کوئی جنگلی گدھی کسی پالتو گدھے سے جفتی کے نتیجے میں بچہ پیدا کر دے تو اس بچے کا گوشت کھایا جائے گا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے باپ کے تابع نہیں ہوتا۔ جب خچر کا گوشت کھایا نہیں جاتا خواہ اس کی ماں گھوڑی کیوں نہ ہو تو یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ گھوڑوں کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔
Top