Al-Qurtubi - An-Nahl : 8
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةً١ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَّالْخَيْلَ : اور گھوڑے وَالْبِغَالَ : اور خچر وَالْحَمِيْرَ : اور گدھے لِتَرْكَبُوْهَا : تاکہ تم ان پر سوار ہو وَزِيْنَةً : اور زینت وَيَخْلُقُ : اور وہ پیدا کرتا ہے مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لئے) رونق وزینت (بھی ہیں) اور وہ (اور چیزیں بھی) پیدا کرتا ہے جنکی تم کو خبر نہیں۔
آیت نمبر 8 اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : والخیل یہ نصب کے ساتھ ہے اور معطوف ہے، یعنی وخلق الخیل (اور اس نے گھوڑے پیدا کئے) اور ابن ابی عبلہ نے والخیل والبغال والحمیر ان تمام کو رنع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور گھوڑے کو خیل کا نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ اس کی چال میں اکڑ اور تکبر ہوتا ہے۔ اور خیل کا واحد خائل ہے، جیسا کہ ضائن، ضأنکا واحد ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا کوئی واحد نہیں۔ اور یہ پہلے سورة آل عمران میں گزر چکا ہے، اور ہم نے وہاں احادیث ذکر کی ہیں۔ اور جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا الگ ذکر کیا ہے تو اس پر دلیل ہے کہ یہ لفظ الانعام کے تحت داخل نہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس کے تحت داخل ہیں لیکن انہیں الگ اور منفرد اس لئے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ رکوب (سوار ہونا) ان کے ساتھ متعلق ہوتا ہے، کیونکہ یہ عمل گھوڑوں، خچروں اور گدھوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: علماء نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے ہمیں جانروں اور چوپاؤں کا مالک بنایا ہے اور انہیں ہمارے لئے مطیع کردیا ہے، اور ہمارے لئے انہیں مسخر کرنا اور ان سے نفع اٹھانا مباح قرار دیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے رحمت ہے، اور حیوانوں میں سے جس کا انسان مالک ہے اسے مسخر کرنا (مطیع بنانا) اس کے لئے جائز ہے اور اس کو کرائے پر دینا بھی اس کے لئے جائز ہے اس پر اہل علم کا اجماع ہے، ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اونٹوں اور چوپاؤں کے کرائے کا حکم کتب فقہ میں مذکور ہے۔ مسئلہ نمبر 3: جانروں اور اونٹوں پر بوجھ لادنے اور ان کے ساتھ سفر کرنے کے لئے ان کا کرایہ لینے میں علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و تحمل اثقالکم الآیہ۔ اور علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے کہ ایک آدمی اپنا جانور اور سواری (اونٹ) ایک معین شہر تک کرائے پر دے اگرچہ وہ یہ ذکر نہ کرے کہ وہ کہاں اس سے اترے گا، اور کتنے گھاٹ ہیں جن پر وہ (اسے پانی پلانے کے لئے) اترے گا، اور اس کے چلنے کی رفتار کیسے ہوگی، اور کتنی باروہ اپنے راستے میں اترے گا، اور انہوں نے اس بارے میں اس کی اجازت دی ہے جو لوگوں کے درمیان متعارف ہے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : اور کرائے پر دنیا قائم مقام بیوع (خریدو فروخت) کے ہوتا ہے ان چیزوں میں جو حلال ہوتی ہیں اور حرام ہوتی ہیں (یعنی حلال و حرام ہونے میں حکم بیوع کا ہے جن کی بیع حلال ہے انہیں اجرت پر دینا بھی حلال ہے اور جن کی بیع حرام ہے انہیں اجرت پر دینا بھی حرام ہے) ۔ ابن القاسم نے کہا ہے : جس کسی نے جانور ایک معین جگہ تک ہر وی کپڑے کے عوض کرائے پر لیا اور کپڑے کی اصل حقیقت (کوالٹی) اور اس کی پیمائش بیان نہ کی، تو یہ جائز نہیں، کیونکہ امام مالک (رح) بیع میں اسے جائز قرار نہیں دیتے، اور وہ کرائے کے ثمن میں جائز قرار نہیں دیتے ہیں مگر وہی چیز جو بیع کے ثمن میں جائز ہوتی ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا گیا ہے، ان شاء اللہ، کیونکہ یہ اجارہ ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : اور اہل علم میں سے وہ جن پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ان تمام نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جس نے کوئی جانور کرائے پر لیا تاکہ وہ اسے اس پر دس قفیز گندم لادے گا پس اس نے اس پر اتنا بوجھ ہی لادا جس کی شرط لگائی پھر وہ جانور ضائع ہوگیا، ہلاک ہوگیا تو اس پر کوئی شے نہ ہوگی۔ اور اسی طرح حکم ہے اگر اس پر اتنا بوجھ ہی لادا جس کی شرط لگائی پھر وہ جانور ضائع ہوگیا، ہلاک ہوگیا تو اس پر کوئی شے نہ ہوگی۔ اور اسی طرح حکم ہے اگر اس نے دس قفیز جو لاد دئیے۔ اور انہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے جس نے جانور کرائے پر لیا کہ وہ اس پر دس فقیز لادے گا پھر اس نے اس پر گیارہ قفیز لاد دئیے، تو امام شافعی (رح) اور ابو ثور رحمہما اللہ تعالیٰ دونوں کہتے ہیں : وہ جانور کی قیمت کا ضامن ہوگا اور اس پر کرایہ بھی ہوگا۔ اور ابن ابی لیلیٰ نے کہا ہے : اس پر اس کی قیمت ہوگی اور اس پر اجرت نہ ہوگی۔ اور اس میں تیسرا قول یہ ہے کہ اس پر کرایہ ہوگا اور اس پر اجرت میں سے ایک جز ہوگا اور جانور کی قیمت میں سے اس مقدار کے عوض ایک جز ہوگا جتنی مقدار معینہ بوجھ سے زائد لادی اور یہ حضرت نعمان (رح)، یعقوب (رح) اور امام محمد (رح) کا قول ہے۔ اور ابن القاسم صاحب مالک (رح) نے کہا ہے : امام مالک (رح) کے قول کے مطابق اس پر کوئی ضمان نہ ہوگی جبکہ زائد قفیز جانور کے لئے باعث مشقت نہ ہو، اور یہ معلوم ہو کہ اس کی مثل سے جانور ہلاک نہیں ہوسکتا، اور جانور کے مالک کے لئے پہلے کرائے کے ساتھ ساتھ زائد قفیز کی اجرت بھی ہوگی، کیونکہ اس کا ہلاک ہونا اس زیادتی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اور یہ مسافت میں مقررہ حدود سے تجاوز کر جانے کے خلاف ہے، کیونکہ مسافت میں تجاوز کرنا مکمل طور پر تعدی اور زیادتی ہے لہٰذا وہ ضامن ہوگا جب جانور ہلاک ہوجائے چاہئے وہ تجاوز قلیل مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں۔ اور مشروط بوجھ پر زیادتی میں اجازت اور تعدی دونوں چیزیں جمع ہیں، پس جب زیادتی ایسی ہے جس کی مثل سے جانور کی ہلاکت نہیں ہوسکتی تو اس سے معلوم ہوگیا کہ اس کی ہلاکت اس سے ہوئی جس کی اجازت دی گئی ہے۔ مسئلہ نمبر 4: اور اہل علم نے ایسے آدمی کے بارے میں اختلاف کیا ہے جو معلوم اجرت کے عوض مقررہ جگہ تک ایک جانور کرائے پر لیتا ہے، پھر وہ تعدی کرتا ہے اور اس مقررہ جگہ سے تجاوز کرجاتا ہے پھر لوٹ کر اس جگہ کی طرف آتا ہے جس کی اجازت دی گئی ہے (تو) اس کی طرف لوٹنے میں اختلاف ہے۔ پس ایک گروہ نے کہا ہے : جب اس نے اس معین جگہ سے تجاوز کرلیا تو وہ اس کا ضامن ہوگیا اور اس تعدی میں اس پر کرایہ نہیں ہوگا ؛ اسی طرح ثوری نے کہا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ نے کہا ہے : اس کے لئے مقررہ مسافت کی اجرت ہوگی، اور جو مقرر نہیں اس کی اجرت نہ ہوگی، لیکن چونکہ اس نے (وعدہ کا) خلاف کیا ہے لہٰذا وہ ضامن ہوگا، اور یہی یعقوب (رح) نے بھی کہا ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اس پر اس کا کرایہ ہوگا جو مسافت مقرر تھی، اور اس کا کرایہ مثلی ہوگا جتنا اس نے تجاوز کیا، اور اگر جانور ہلاک ہوگیا تو اس کی قیمت لازم ہوگی، اسی طرح فقہائے سبعہ نے کہا ہے، اہل مدینہ کے مشائخ نے کہا ہے : جب وہ مقررہ مسافت تک پہنچ جائے پھر اس سے آگے نکل جائے تو اس پر اس زائد مسافت کا کرایہ ہوگا اگر وہ جانور محفوظ رہا اور اگر وہ ہلاک ہوگیا تو وہ اس کا ضامن ہوگا۔ اور امام احمد، اسحاق اور ابو ثور نے کہا ہے : اس پر کرایہ اور ضمان دونوں ہوں گے۔ ابن منذر نے کہا ہے : اور یہی ہم بھی کہتے ہیں۔ اور ابن القاسم نے کہا ہے : جب وہ اس جگہ کی حد تک پہنچ جائے جہاں تک اس نے جانور کرائے پر لیا تھا پھر وہ ایک میل یا کئی میل یا بہت زیادہ آگے گزر گیا اور جانور ہلاک ہوگیا، تو اس کے مالک کے لئے پہلا کرایہ ہوگا اور جہاں تک وہ زائد آگے چلا گیا ہے اس کا کرایہ لینے میں اسے اختیار ہوگا یا پھر جانور کی وہ قیمت لے لے جو تعدی اور زیادتی بنتی ہے۔ ابن المواز نے کہا ہے : تحقیق یہ بھی روایت ہے کہ وہ اس کا ضامن ہوگا اگرچہ وہ ایک قدم بھی آگے بڑھے۔ ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے میل اور اس طرح کے پیمانے کی زیادتی کی صورت میں کہا ہے : اور رہی وہ مسافت (زیادتی) جس کو لوگ ایک مرحلہ کے برابر قرار دیتے ہیں تو وہ ضامن نہ ہوگا۔ اور ابن حبیب نے ابن ماجشون اور أصبغ سے بیان کیا ہے : جب زیادتی تھوڑی ہو یا وہ اس مقررہ حد سے تھوڑا سا تجاوز کر جائے جو اس نے کرایہ پر لی تھی اور وہ مر جائے یا اس جگہ تک پہنچنے والے راستے میں مر جائے جہاں تک اس نے اسے کرائے پر لے رکھا تھا، تو اس کے لئے زیادتی کے کرائے کے سوا کچھ نہیں ہوگا، جیسا کہ اس کا اس مال کو لوٹانا جو اس نے ودیعت سے قرض لے رکھا تھا۔ اور اگر اس نے بہت زیادہ زیادتی کی جس میں اتنے زیادہ دن ٹھہراؤ رہا جس کی مثل میں اس کی چال بدل سکتی ہے تو وہ ضامن ہوگا، اسی طرح حکم ہے اگر جانور مقررہ حد سے تجاوز کرنے یا سفر کرنے کے درمیان مرگیا، کیونکہ جب زیادتی اتنی تھوڑی ہو جس کے بارے یہ جانا جاسکتا ہو کہ یہ اس کے قتل پر معاون و مددگار نہیں ہے اور اس کی ہلاکت معینہ جگہ تک واپس لوٹنے کے بعد ہوئی تو یہ بالقین اس مال کی ہلاکت کی طرح ہے جو اس نے مال و دیعت سے قرض لیا تھا اور اس کے لوٹانے کے بعد وہ ہلاک ہوگیا۔ اور اگر زیادتی زیادہ ہو تو پھر وہ زیادتی اس کے قتل اور ہلاک ہونے میں معاون ہوگی۔ (لہٰذا اس ہر ضمان ہوگی) ۔ مسئلہ نمبر 5: ابن القاسم اور ابن وہب نے بیان کیا ہے کہ امام مالک (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : والخیل والبغال والحمیر لترکبوھا وزینۃ پس اس نے انہیں سواری اور زیب وزینت کے لئے بنایا ہے اور انہیں کھانے کے لئے نہیں بنایا ہے ؛ اور اسی طرح أشہب سے بھی منقول ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے اصحاب نے کہا ہے : گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے سواری اور زیب وزینت پر نص بیان کردی ہے تو یہ اس پر دلیل ہے کہ جو اس کے سوا ہے وہ اس کے خلاف ہے۔ اور الأنعام کے ذکر میں فرمایا : ومنھا تاکلون۔ (النحل) اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس سے گرم لباس اور دیگر منافع کے ذکر کے ساتھ بھی احسان فرمایا۔ پس ان میں ذبح کو مشروع قرار دے کر ان کا کھانا ہمارے لئے مباح قرار دیا۔ اور اسی آیت سے حضرت ابن عباس ؓ اور حکم بن عتیبہ نے استدلال کیا ہے، حکم نے کہا ہے : گھوڑوں کا گوشت کتاب اللہ میں حرام ہے، اور انہوں نے یہ اور اس سے پہلے والی آیت پڑھی اور کہا : یہ کھانے کے لئے ہے اور یہ سواری کے لئے ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے گھوڑے کے گوشت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے اسے مکروہ قرار دیا، اور آپ نے یہی آیت تلاوت کی اور فرمایا : یہ سواری کے لئے ہے، اور آپ نے وہ آیت پڑھی جو اس سے پہلے ہے والانعام خلقھا، لکم فیھا دفء ومنافع پھر فرمایا : یہ کھانے کے لئے ہے۔ اور اسی طرح امام مالک، امام ابو حنیفہ، ان کے اصحاب، اوزاعی، مجاہد اور ابو عبید رحمہم اللہ تعالیٰ وغیر ہم نے کہا ہے، اور انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے ابو داؤد، نسائی اور دار قطنی وغیرہم نے صالح بن یحییٰ بن مقدام بن معد یکرب سے انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے اور انہوں نے حضرت خالد بن ولید ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھوڑوں، خچروں، گدھوں، تمام چیر پھاڑ کرنے والے درندوں اور پنجوں کے ساتھ شکار کرنے والے پرندوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ یہ الفاظ دار قطنی کے ہیں۔ اور نسائی نے بھی حضرت خالد بن ولید ؓ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا گوشت کھانا حلال نہیں ہے “۔ اورع جمہور فقاء و محدثین نے کہا ہے : یہ مباح ہے۔ اور یہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ سے روایت کیا گیا ہے۔ اور ایک گروہ علیحدہ ہوگیا ہے اور اس نے تحریم کا قول کیا ہے، ان میں سے ایک حکم ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا ہے، اور امام ابوحنیفہ (رح) سے مروی ہے۔ ان سے تین روایات رویانی نے ” بحر المذہب علی مذہب الشافعی “ میں بیان کی ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : وہ صحیح مذہب جس پر نظر و فکر اور خبر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ گھوڑوں کا گوشت کھانا جائز ہے، اور رہی آیت اور حدیث تو ان دونوں میں حجت لازمہ نہیں ہے، جہاں تک آیت کا تعلق ہے تو اس میں گھوڑوں کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ اگر آیت اس پر دلالت کرے تو پھر یقیناً گدھوں کے گوشت کے حرام ہونے پر بھی دلالت کرے، اور یہ سورة مکی ہے، اور پھر کون سی حاجت اور ضرورت تھی کہ غزوہ خیبر کے سال گدھوں کے گوشت کو حرام قرار دینے کی تجدید ہوئی حالانکہ اخبار میں گھوڑوں کا حلال ہونا ثابت ہے جیسا کہ اس کا بیان آرہا ہے، اور یہ بھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے الأنعام کا ذکر کیا، تو ان کے اغلب اور اہم ترین منافع کا بھی ذکر کیا، اور وہ بوجھوں کو اٹھانا اور (ان کا گوشت) کھانا ہے، اور ان کے ساتھ سوار ہونے اور ہل جوتنے کا ذکر نہ کیا اور نہ علاوہ ازیں کسی کی تصریح کی، حالانکہ ان پر سوار بھی ہوا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ہل بھی چلا یا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : الذی جعل لکم الانعام لترکبوا منھا ومنھا تاکلون۔ (غافر) اور گھوڑوں کے بارے میں فرمایا : لترکبوھا وزینۃ اور ان کے بھی أغلب منافع ذکر کئے اور جو ان سے مقصود ہے وہ ذکر کیا، اور ان پر بوجھ لادنے کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ وہ ان پر لادا جاتا ہے جیسا کہ عام مشاہدہ ہے اور اسی طرح ان کے کھانے کا ذکر نہیں کیا۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ نے اس کی وضاحت کی جسے اس کا بیان بنایا گیا جو آپ ﷺ پر نازل کیا گیا جیسا کہ اس کا بیان آگے آرہا ہے۔ اور اس سے کہ انہیں سواری اور زیب وزینت کے لئے پیدا کیا گیا ہے یہ لازم نہیں آتا کہ انہیں نہ کھایا جائے، پس اس گائے کو اس کے اس خالق نے قوت گویائی عطا فرمائی جس نے ہر شے کو بولنے کی طاقت دی پس اس نے کہا : بیشک اسے ہل جوتنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تو اس سے اس پر یہ لازم آتا ہے جس نے یہ علت بیان کی ہے کہ گھوڑوں کا گوشت نہیں کھایا جائے گا کیونکہ انہیں سواری کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ گائے کا گوشت بھی نہ کھایا جائے کیونکہ اسے ہل جوتنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں نے اس کے کھانے کے جواز پر اجماع کیا ہے، پس اسی طرح گھوڑے بھی ہیں اور ان کے بارے سنت ثابت موجود ہے۔ ایام مسلم (رح) نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں اجازت عطا فرمائی۔ اور نسائی نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خیبر کے دن گھوڑوں کا گوشت کھلایا اور آپ نے گدھوں کے گوشت سے ہمیں منع فرمایا۔ اور حضرت جابر ؓ سے ایک روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے اسے خیبر کے دن کھایا یہ حال کی حکایت ہے اور آنکھوں دیکھا فیصلہ ہے، پس اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ضرورت کے تحت ذبح کئے ہوں، اور مخصوص احوال کے تحت جو فیصلے کئے جائیں ان سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ تو ہم کہیں گے : حضرت جابر ؓ سے ایک روایت ہے اور آپ کی جانب سے یہ خبر دی جا رہی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں گھوڑوں کا گوشت کھاتے تھے اور یہ اس احتمال کو زائل کردیتا ہے، اور اگر اسے تسلیم کر بھی لیں تو ہمارے پاس حضرت اسماء ؓ کی حدیث ہے انہوں نے بیان کیا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں گھوڑا ذبح کیا اس حال میں کہ ہم مدینہ طیبہ میں تھے اور ہم نے اسے کھایا ؛ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور نص کے مقابلہ میں بغیر ترجیح کے ہر تاویل بلاشبہ وہ دعویٰ ہوتا ہے، پس نہ اس کی طرف توجہ کی جائے گی اور نہ اس کی طرف مائل ہوا جائے گا۔ اور دار قطنی نے حدیث اسماء ؓ میں حسین زیادتی روایت کی ہے جس پر ہر تاویل رفع ہوجاتی ہے کہ حضرت اسماء ؓ نے بیان کیا : ہمارے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں زیک گھوڑا تھا وہ مرنے کے قریب ہوگیا تو ہم نے اسے ذبح کردیا اور پھر ہم نے اسے کھایا۔ پس اسے ذبح کرنا اس پر طاری ہونے والی موت کے خوف سے ہوا نہ کہ احوال میں سے کسی اور حاجت اور حالات کے سبب۔ وباللہ التوفیق۔ اور اگر کہا جائے : یہ حیوان ہے جو کھروں والا ہے پس اسے نہیں کھایا جائے گا جیسا کہ گدھے ؟ تو ہم کہیں گے : یہ قیاس الشبہ ہے اور ارباب اصول نے اس کے بارے گفتگو میں اختلاف کیا ہے اور اگر تہم اسے تسلیم کرلیں تو پھر یہ خنزیر کے ساتھ باطل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ سینگوں والا ہے حالانکہ سینگوں والے جدا جدا ہیں۔ اور اس بنا پر بھی کہ قیاس جب نص کے مقابلہ میں ہو تو وہ وضعا ہی فاسد ہے لہٰذا وہ قابل التفات نہیں ہوگا۔ علامہ طبری (رح) نے بیان کیا : ہے اس پر اجماع ہے کہ جن کے کھانے کا ذکر کیا گیا ہے ان پر سوار ہونا جائز ہے تو یہ اس پر دلیل ہے کہ جن کے لئے سواری کا ذکر کیا گیا ہے انہیں کھانا بھی جائز ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اور رہے خچر تو انہیں گدھوں کے ساتھ ملایا جاتا ہے، اگر ہم کہیں کہ بیشک گھوڑا کھایا جاتا ہے، تو یہ (خچر) دو عینوں سے پیدا ہوتا ہے جو دونوں نہیں کھائے جاتے (یعنی گھوڑا اور گدھا) اور اگر ہم کہیں کہ گھوڑا کھایا جاتا ہے، تو بیشک یہ (خچر) ایسے دوعینوں سے پیدا ہوتا ہے جن میں سے ایک (گھوڑا) کھایا جاتا ہے اور دوسرا (گدھا) نہیں کھایا جاتا۔ پس اصول قاعدہ کے مطابق اس پر تحریم غالب ہوگی۔ اور اسی طرح جب وہ کافروں کے درمیان سے پیدا ہونے والا بچہ کسی جانور کو ذبح کرے ان (کافروں) میں سے ایک کا ذبیحہ حلال ہو اور دوسرا اس اہل نہ ہو، تو اس کا ذبح کرنا دوست نہیں ہوگا اور اس کے سبب اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہوگا۔ اور گدھوں کی تحریم کے بارے میں کلام سورة الانعام میں گزر چکی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اور گدھا کھانے کے حرام ہونے کی علت یہ بیان کی ہے کہ اس نے اپنا جرہر خبیث ظاہر کردیا ہے جس وقت وہ مذکر (یعنی اپنے جیسے گدھے) پر کود پڑا اور اس نے لواطت کی، پس اسے رجس (پلید) کا نام دے دیا گیا۔ مسئلہ نمبر 7: آیت میں اس پر دلیل ہے کہ گھوڑوں میں زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہم پر ان چیزوں کے ساتھ احسان فرمایا جو اس نے ہمارے لئے مباح فرمائیں اور ہمیں ان کے منافع سے عزت و تکریم عطا فرمائی، تو پھر یہ جائز نہیں کہ ان میں کوئی تکلیف اور مشقت بغیر دلیل کے لازم ہو۔ تحقیق امام مالک (رح) نے عبد اللہ بن دینار سے انہوں نے سلیمان بن یسار سے انہوں نے عراک بن مالک سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مسلمان پر اس کے غلام میں اور اس کے گھوڑے میں کوئی صدقہ نہیں ہے “۔ اور ابوداؤدنے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : ” گھوڑوں اور غلاموں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے مگر غلام میں صدقۃ الفطر ہے “۔ اور یہی امام مالک، امام شافعی، اوزاعی، لیث، ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ نے کہا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ نے بیان کیا ہے : اگر یہ سارے مونث (گھوڑیاں) ہوں یا مذکر اور مونث ملے جلے ہوں، تو پھر ہر گھوڑے میں ایک دینار ہے جبکہ وہ چرنے والے ہوں، اور اگر چاہے تو وہ اس کی قیمت لگا لے اور پھر ہر دو سو درہم سے پانچ درہم ادا کرے۔ اور انہوں نے ایک اثر جو حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے سے استدلال کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” چرنے والے گھوڑوں میں سے ہر گھوڑے میں ایک دینار ہے “۔ اور آپ ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : ” گھوڑے تین قسم کے ہیں “ الحدیث۔ اور اس میں ہے : ” اور وہ ان کی گردنوں اور ان کی پشتوں میں اللہ تعالیٰ کا حق نہ بھولے “۔ پہلی روایت کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کو غورک سعدی کے سوا کسی نے جعفر بن محمد عن أبیہ عن جابر ؓ سے روایت نہیں کیا۔ اور دار قطنی نے کہا ہے : جعفر سے روایت کرنے میں غورک منفرد ہے اور وہ بہت ضعیف ہے، اور اس کے نیچے بھی ضعفاء ہیں۔ اور رہی وہ حدیث جس میں حق کا ذکر کیا گیا تو وہ ان پر نکلنا ہے جب عام اعلان جنگ ہوجائے اور دشمن کے ساتھ قتال کے لئے وہ متعین ہوجائیں جب وہ تعین اس پر ہوگیا اور وہ (لشکر سے) کٹ جانے والوں کو اس پر اٹھانے لگے جبکہ انہیں اس کی ضرورت ہو، تو اب اس پر یہ واجب ہوگیا جب یہ تعین ہوچکا، جیسا کہ اس پر متعین ہوجاتا ہے کہ وہ انہیں ضرورت کے وقت چارہ وغیرہ کھلائے، تو یہی ان کے گردنوں (ذاتوں) میں اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں۔ اور اگر کہا جائے : یہ تو وہ حق ہے جو ان کی پشتوں میں ہے اور وہ حق باقی رہا جو ان کی گردنوں میں ہے۔ تو کہا جائے گا : تحقیق روایت یہ ہے لاینسو حق اللہ فیھا، تو آپ نے ارشاد حق اللہ فیھا اور فی رقابھا وظھورھا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ معنی ایک ہی شے کی طرف لوٹ رہا ہے، کیونکہ حق ان کے سارے بدن کے ساتھ متعلق ہوتا ہے۔ اور تحقیق علماء کی جماعت نے کہا ہے : بیشک یہاں حق سے مراد ان کی ملکیت کا حسن اور ان کے سیر ہونے (پیٹ بھرنے) کی دیکھ بھال کرنا، اور ان کے ساتھ اچھا اور خوبصورت سلوک کرنا، اور بغیر کسی مشقت کے ان پر سواری کرنا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے : ” تم ان کی پشتوں کو کرسیاں نہ بناؤ “۔ ان کی گردنوں کو ذکر کے ساتھ خاص کیا گیا ہے کیونکہ حقوق لازمہ اور فرائض واجبہ کے مقامات میں کثرت سے رقاب اور اعناق مستعار لی جاتی ہیں اور اسی سے یہ قول باری تعالیٰ ہے : فتحریر رقبۃ مؤمنۃ (النساء :92) (پس مومن غلام کو آزاد کرنا ہے) ۔ اور عربوں کے نزدیک ان کا استعمال اور ان کا استعارہ کثیر ہے حتیٰ کہ انہوں نے اسے خوشحالی اور اموال میں بھی ذکر کیا ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کثیر لوگوں کا یہ قول ہے : غمر الرداء اذا تبسم ضاحکا غلقت لضحکتہ رقاب المال اور یہ بھی کیونکہ وہ حیوان جس میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اس کا نصاب اس کی جنس سے ہوتا ہے، تو جب گھوڑے اس سے خارج ہیں تو ہم نے جان لیا کہ ان میں زکوٰۃ ساقط ہوچکی ہے۔ اور یہ بھی کہ صرف ان کی مونثات (گھوڑیوں) میں زکوٰۃ واجب کرنا بغیر مذکروں پر قیاس کرتے ہیں، اس وجہ سے کہ یہ حیوان اپنی نسل کی حفاظت کے لئے رہیں نہ کہ دودھ کے لئے، اور اس کے مذکروں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی لہٰذا اس کے مؤنثوں میں بھی واجب نہ ہوگی جیسا کہ خچر اور گدھے ہیں۔ اور ان سے یہ بھی روایت ہے کہ اس کی مؤنثوں میں زکوٰۃ نہیں ہوتی اگرچہ وہ منفرد ہوں جیسا کہ اس کے مذکفروں میں واجب نہیں ہوتی درآنحالیکہ وہ منفرد ہوں۔ یہی وہ مذہب ہے جس پر جمہور ہیں۔ ابن عبد البر نے کہا ہے : گھوڑوں کی زکوٰۃ کے بارے میں جو خبر حضرت عمر ؓ سے مروی ہے وہ حدیث زہری وغیرہ سے صحیح ہے۔ اور حدیث مالک سے مروی ہے، اسے ان سے جویریہ نے اور انہوں نے زہری سے روایت کیا ہے کہ حضرت سائب بن یزید نے کہا : تحقیق میں نے اپنے باپ کو دیکھا وہ گھوڑوں کی قیمت لگاتے پھر ان کی زکوٰۃ حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دیتے۔ اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے شیخ حماد بن ابی سلیمان رحمہم اللہ تعالیٰ کی حجت ہے، میں فقہائے امصار میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے ان دو کے سوا گھوڑوں میں زکوٰۃ واجب کی ہو۔ اس کو روایت کرنے میں جو یریہ امام مالک (رح) سے منفرد ہے اور وہ ثقہ ہے۔ مسئلہ نمبر 8: قولہ تعالیٰ : وزینۃ یہ اضمار فعل کے ساتھ منصوب ہے، اس کا معنی ہے : وجعلھا زینۃ (اور اس نے انہیں زینت (اور خوبصورتی) بنایا) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مفعول من أجلہ ہے۔ اور الزینۃ سے مراد وہ شے ہے جس کے ساتھ تزئین اور خوبصورتی حاصل کی جاتی ہے، اور یہ حسن و جمال اور زیب وزینت ہیں اگرچہ سامان دنیا میں سے ہیں تحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس میں اجازت عطا فرمائی ہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اونٹ اپنے مالکوں کے لئے عزت ہے اور بکری برکت ہے اور گھوڑے کی پیشانی میں خیر اور بھلائی ہے “۔ اسے برقانی اور ابن ماجہ نے سنن میں نقل کیا ہے۔ اور سورة الانعام میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ بلاشبہ حضور نبی کریم ﷺ نے عزت کو اونٹ میں جمع کیا ہے، کیونکہ اس میں لباس، کھانا، دودھ، بوجھ اٹھانا، اور جنگ میں شریک ہونا سبھی امور ہیں اور اگرچہ حملہ اور فرار ہونا اسے نقصان پہنچائے اور آپ نے برکت بکریوں میں رکھی ہے اس لئے کہ ان میں لباس، کھانا، پینا اور کثرت اولاد ہے، کیونکہ یہ ایک سال میں تین بار بچے جنتی ہیں یہاں تک کہ سکون اور راحت ان کے پیچھے پیچھے ہوتی ہے اور یہ اپنے مالک کو اس پر جھکانے اور پہلو نرم کرنے کے بارے ابھارتی ہیں، بخلاف خیموں میں رہنے والے ان لوگوں کے جن کے پاس اونٹ کثیر مقدار میں ہوتے ہیں۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ نے خیر اور بھلائی کو گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ ملا دیا ہے جب تک زمانہ باقی ہے کیونکہ ان میں ایسے فوائد اور منافع ہیں جو کسب اور معاش کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں، اور جو دشمنوں کے قہر اور کافروں کے غلبہ اور اعلاء کلمۃ اللہ تعالیٰ میں سے اس تک پہنچاتے ہیں۔ قولہ تعالیٰ : ویخلق ما لا تعلمون جمہور نے کہا ہے : وہ پیدا فرمائے گا مخلوق سے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ زمین خشکی اور تری کی نچلی تہوں میں کیڑے مکوڑوں اور دیگر موذی جانوروں کی اتنی اقسام پید افرمائے گا جن کو کسی انسان نے نہ دیکھا ہے اور نہ اس کے بارے میں سنا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ویخلق مالا تعلمون یعنی ان میں سے وہ نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت میں اس کے اہل کے لئے اور جہنم میں اس کے اہل کے لئے تیار کی ہیں، ان میں سے جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نہیں اور کسی کان نے اس کے بارے سنا نہیں اور کسی انسان کے دل میں اس کا تصور تک نہیں آیا۔ حضرت قتادہ اور سدی نے کہا ہے : اس سے مراد کپڑوں میں سوس (گھن) اور پھلوں میں کیڑوں کو پیدا کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : مراد عرش کے نیچے چشمہ پیدا کرنا ہے، اسے ماروردی نے بیان کیا ہے۔ ثعلبی نے بیان کیا ہے : اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : عرش کی دائیں جانب نور کی ایک نہر ہے جو سات آسمانوں، سات زمینوں، اور سات سمندروں کے ستر بار ہونے کی مثل ہے، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر سحری کے وقت اس میں داخل ہو کر غسل کرتے ہیں اور اس کے نور سے اپنے نور میں، اس کے حسن و جمال سے اپنے حسن و جمال میں اور اس کی عظمت و بڑائی سے اپنی بڑائی میں اضافہ کرتے ہیں، پھر پروں کو جھاڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہر پر سے ستر ہزار قطرے نکالتا ہے، اور ہر قطرے سے ستر ہزار فرشتے پیدا فرماتا ہے، ان میں سے ہر روز ستر ہزار فرشتے بیت المعمور میں، اور کعبہ معظمہ میں ستر ہزار داخل ہوتے ہیں اور پھر یوم قیامت تک اس کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ اور پانچواں قول یہ ہے اور یہ حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ ” وہ سفید زمین ہے، سورج کی مسافت تیس دونوں کی ہے وہاں ایک مخلوق پیدا فرمائے گا وہ انہیں جانتے ہوں گے کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جاتی ہے “۔ صحابہ کرام نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ ، کیا وہ آدم کی اولاد سے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : ” وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا ہے “۔ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ ، تو ان میں سے ابلیس کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو پیدا کیا ہے “۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ویخلق مالا تعلمون اسے ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں، اسی معنی کی طرح وہ ہے جسے علامہ بیہقی (رح) نے حضرت شعبی (رح) سے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا : بیشک اندلس سے اتنا پرے اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ہیں جتنا ہمارے اور اندلس کے درمیان فاصلہ ہے، وہ نہیں جانتے کہ مخلوق نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے، ان کے سنگر یزے موتی اور یاقوت کے ہیں اور ان کے پہاڑ سونے اور چاندی کے ہیں، نہ وہ ہل چلاتے ہیں، نہ وہ کاشتکاری کرتے ہیں اور نہ کوئی اور کام وہ کرتے ہیں، ان کے درخت ان کے دروازوں پر ہیں ان کے ساتھ پھل ہیں اور یہی ان کا طعام اور کھانا ہے ان کے کچھ درخت ہیں ان کے پتے چوڑے چوڑے ہیں اور وہی ان کا لباس ہیں ؛ انہوں نے اسے ” کتاب الاسماء والصفات “ کے باب بدء الخلق میں ذکر کیا ہے۔ اور حضرت موسیٰ بن عقبہ کی حدیث ذکر کی ہے جو انہوں نے محمد بن منکدر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے حاملین عرش ملائکہ میں سے کسی فرشتے سے گفتگو کروں جس کے کان کی لو سے لے کر اس کے کندھے تک سات سو سال کی مسافت ہے “۔
Top