Al-Qurtubi - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی اور نامعقول کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
آیت نمبر 90 اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : ان اللہ یامر بالعدل والاحسان حضرت عثمان بن مظعون ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے اسے حضرت علی بن ابی طالب ؓ پر پڑھا تو وہ بہت متعجب ہوئے اور کہا : اے آل غالب ! آپ کی اتباع اور پیروی کرو کامیاب ہوجاؤ گے، فلاح پا جاؤ گے۔ قسم بخدا ! بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ آپ تمہیں مکارم اخلاق کے بارے حکم دیں۔ اور حدیث میں ہے۔ بیشک حضرت ابو طالب کو جب یہ کہا گیا : بیشک آپ کے بھتیجے نے یہ گمان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ نازل کی ہے : ان اللہ یامر بالعدل والاحسان الآیہ، تو انہوں نے کہا : حضور نبی کریم ﷺ نے ولید بن مغیرہ پر یہ آیت آخر تک پڑھی ان اللہ یامر بالعدل والاحسان تو اس نے عرض کی : اے میرے بھتجے ! اے دوبارہ پڑھو ! پس آپ ﷺ نے یہی آیت دوبارہ پڑھی تو اس نے کہا : قسم بخدا ! بلاشبہ اس میں بڑی شیرینی اور حلاوت ہے، اور اس پر بڑا حسن و جمال اور رونق ہے۔ اور بیشک اس کی اصل (جڑ) پتے لانے والی ہے، اور اس کی بلندی (شاخیں) پھلوں سے لدی ہوئی ہیں، اور یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔ واللہ أن لہ لحلاوۃ، وإن علیہ لطلاوۃ، وإن إصلہ لمورو، وأعلاہ لمثمر، وما ھو بقول بشر ! اور غزنوی نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون ؓ بھی قاری تھے۔ حضرت عثمان ؓ نے بیان کیا : میں ابتدا میں اسلام نہیں لایا مگر رسول اللہ ﷺ سے حیاء کرتے ہوئے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی اور میں آپ ﷺ کے پاس تھا تو میرے دل میں ایمان راسخ اور پختہ ہوگیا۔ پھر میں سے اسے ولید بن مغیرہ پر پڑھا تو اس نے کہا : اے میرے بھتیجے ! اسے دوبارہ پڑھ ! تو میں نے اسے دوبارہ پڑھا تو اس نے کہا : قسم بخدا ! اس میں بڑی حلاوت اور شیرینی ہے۔ اور آگے پوری خبر بیان کی۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے بیان کیا : قرآن کریم میں یہ آیت اس خبر اور بھلائی کو جس کی پیروی کی جاتی ہے، اور اس شر اور برائی کو جس سے اجتناب کیا جاتا ہے زیادہ جامع ہے۔ اور نقاش نے بیان کیا ہے : کہا جاتا ہے عدل کی زکوٰۃ احسان ہے، اور قدرت کی زکوٰۃ عفو و درگزر ہے، اور غنی (دولتمندی) کی زکوٰۃ نیکی ہے اور جاہ و حشمت کی زکوٰۃ آدمی کا اپنے بھائیوں کی طرف لکھ لکھنا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: علماء نے عدل و احسان کی تاویل میں اختلاف کیا ہے، پس حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : عدل سے مراد لا الہ الا اللہ کہنا، اور احسان سے مراد فرائض کو ادا کرنا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدل سے مراد فرض، اور احسان سے مراد نفل ادا کرنا ہے۔ اور سفیان بن عینیہ نے کہا ہے : یہاں عدل سے مراد ظاہر اور باطن کو برابر رکھنا ہے، اور احسان یہ ہے کہ خلوت کی حالت اعلانیہ حالت سے افضل ہو۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا ہے : عدل سے مراد انصاف کرنا، اور احسان سے مراد تفضل اور مہربانی کرنا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : عدل سے مراد ہر وہ شے جو عقائد میں سے فرض ہے اور امانتیں ادا کرنے میں وہ دین اور شریعت ہے، اور ظلم کو ترک کرنا اور انصاف کرنا، اور حق ادا کرنا ہے۔ اور احسان سے مراد ہر وہ کام کرنا ہے جو اس کے لئے مندوب اور مستحب ہو، اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو فرض ہیں، مگر اس سے بدلہ دینے کی حد عدل میں داخل ہے، اور بدلے سے زائد کے ساتھ اس کی تکمیل کرنا احسان میں داخل ہے۔ اور رہا حضرت ابن عباس ؓ کا قول تو وہ محل نظر ہے، کیونکہ فرائض کو ادا کرنا ہی اسلام ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیث جبرائیل (علیہ السلام) میں اس کی تفسیر بیان فرمائی ہے، اور وہی عدل ہے، اور بلاشبہ احسان سے مراد مکمل کرنے والے اور کامل بنانے والے امور ہیں اور وہ مندوب اور مستحب ہیں جیسا کہ حدیث جبرائیل (علیہ السلام) میں حضور نبی مکرم ﷺ کی تفسیر اسی کا تقاضا کرتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا (احسان یہ ہے): أن تعبد اللہ کأنت تراہ فإن لم تکن تراہ فانہ یراک (تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو بلاشبہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے) پس اگر حضرت ابن عباس ؓ سے یہ قول صحیح ہے تو پھر آپ نے فرائض سے مراد مکمل کرنے والے امور لئے ہیں۔ اور علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : بندے اور اس کے رب کے درمیان عدل یہ ہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ کے حق کو اپنے نفس کے حصے پر ترجیح دینا ہے، اور اس کی رضا کو اپنی خواہش پر مقدم کرنا ہے، اور نواہی سے اجتناب کرنا اور اوامر کی پیروی اور اتباع کرنا ہے۔ اور رہا عدل بندے اور اس کے نفس کے درمیان ! تو یہ اسے ہر اس شی سے روکنا ہے جس میں اس کی ہلاکت ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ونھی النفس عن الھوی۔ (النازعات) ۔ اور اتباع سے خواہش و لالچ کو دور رکھنا ہے، اور ہر حال اور معنی میں قناعت کو لازم پکڑنا ہے۔ اور وہ عدل جو اس کے اور مخلوق کے درمیان ہے تو وہ انہیں نصیحت کرنا ہے، خیانت کو ترک کرنا ہے چیز کم ہو یا زیادہ، اور اپنی طرف سے ان کے ساتھ ہر اعتبار سے انصاف کرنا ہے اور تیری طرف سے کسی کے ساتھ برائی نہ ہو نہ قولاً نہ فعلاً اور نہ سراً نہ اعلانیہ طور پر، اور ان کی طرف سے جو مصیبت اور تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کرنا، اور اس میں کم سے کم انصاف کرنا ہے اور اذیت دینے کو چھوڑ دینا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : عدل میں یہ تفصیل انتہائی اچھی اور عین عدل ہے، اور رہا احسان تو ہمارے علماء نے کہا ہے : الاحسان مصدر ہے أحسن یحسن إحسانا۔ اور اسے دو معنوں پر بولا جاتا ہے : ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ بذات خود منعدی ہے، جیسے تیرا یہ قول : أحسنت کذا، یعنی میں نے اسے اچھا کیا اور اسے مکمل کیا، اور یہ ہمزہ کے ساتھ حسن الشئ سے نقل کیا گیا ہے۔ اور دوسرا معنی یہ ہے کہ حرف جر کے ساتھ متعدی ہوتا ہے جیسے تیرا یہ قول : أحسنت إلی فلان، یعنی میں نے اس تک وہ شے پہنچائی جس کے ساتھ وہ نفع حاصل کرسکتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ لفظ اس آیت میں ان دونوں معنوں کے ساتھ اکٹھا مراد ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بعض کا بعض کے ساتھ احسان کرنا پسند فرماتا ہے، یہاں تک کہ پرندہ تیرے پنجرے میں ہو اور بلی تیرے گھر میں ہو تو تیرے احسان کے بارے یہ مناسب نہیں کہ تو اسکی دیکھ بھال اور حفاظت میں کوتاہی کرے، اور اللہ تعالیٰ تو ان کے احسان سے غنی اور بےنیاز ہے، اور اس کی طرف سے احسان، نعمتیں، فضل و مہربانی اور عنایتیں اور بخششیں ہیں۔ اور یہ حدیث جبرائیل میں پہلے معنی کے اعتبار سے ہے نہ کہ دوسرے معنی کے اعتبار سے، کیونکہ پہلا معنی عبادت کے اتقان، اور اسے ان امور کا لحاظ رکھتے ہوئے ادا کرنے کی طرف راجع ہے جو اس عبادت کو صحیح بنانے والے اور مکمل کرنے والے ہیں، اور اس میں حق کا مراقبہ کرنا، اور عبادت کے شروع اور پھر اسے جاری رکھنے کی حالت میں اس (حق) کی عظمت و جلال کے تصور کو قائم رکھنا ہے۔ اور یہی آپ ﷺ کے اس قول سے مراد ہے۔ ان تعبد اللہ کا نک تراہ فإن لم تکن تراہ فانہ یراک اور اصحاب دل کی اس مراقبہ میں دو حالتیں ہوتی ہیں : ایک یہ کہ مشاہدہ حق اس پر غالب ہوتا تو گو یا وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اور شاید حضور نبی مکرم ﷺ نے اسی حالت کی طرف اپنے اس ارشاد سے اشارہ کیا ہے : ” اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے “۔ اور دوسری حالت یہ ہے کہ وہ اس مقام تک نہیں پہنچتا، لیکن اس پر یہ تصور غالب ہوتا ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ اس پر مطلع ہے اور اس کا مشاہدہ کر رہا ہے، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول کے ساتھ اشارہ ہے : الذی یرک حین تقوم۔ وتقلبک فی السجدین۔ (الشعراء) (جو آپ کو دیکھتا رہتا ہے جب آپ کھڑے ہوتے ہیں اور (دیکھتا رہتا ہے جب) آپ چکر لگاتے ہیں سجدہ کرنے والوں (کے گھروں کا) ۔ اور قول باری تعالیٰ : الا کنا علیکم شھودا اذ تفیضون فیہ (یونس : 61) (مگر (ہر حال میں) ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب بھی تم شروع ہوتے ہو کسی کام میں) ۔ مسئلہ نمبر 3: قولہ تعالیٰ : وایتائ ذی القربی مراد قرابت دار اور رشتہ دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے : وہ (آدمی) انہیں مال دیتا ہے جیسے اس نے فرمایا : وات ذا القربی حقہ (الاسراء : 26) (اور رشتہ دار کو اس کا حق یعنی صلہ ادا کرو) اور یہ واجب پر مندوب کے عطف کے باب سے ہے، اور اس سے امام شافعی نے مکاتب کو دینے کے وجوب کے بارے استدلال کیا ہے، جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا، اور اللہ تعالیٰ نے ذوی القربیٰ کو خاص کیا ہے کیونکہ ان کے حقوق زیادہ موکد اور ان کا صلہ نسبتاً زیادہ واجب ہے، اس رحم کے حق کی تاکید کی وجہ سے جس کا نام اللہ تعالیٰ نے اپنے نام سے مشتق کیا ہے، اور اس کا صلہ اپنے صلہ سے قرار دیا ہے، پس صحیح میں فرمایا : اما ترضین أن أصل من وصلک وأقطع من قطعک (کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں جس نے تیرے ساتھ صلہ رحمی کی اور میں اس کے ساتھ قطعی تعلقی کرلوں جس نے تیرے ساتھ قطع تعلقی کی) اور بالخصوص جب وہ فقراء ہوں۔ مسئلہ نمبر 4: قولہ تعالیٰ : وینھی عن الفحشآء والمنکر والبغی الفحشاء سے مراد فحش ہے، اور اس کا اطلاق ہر قبیح پر ہے چاہے وہ قول قبیح ہو یا فعل۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس سے مراد زنا ہے۔ اور المنکر سے مراد ہر وہ شے ہے جس کا شریعت نے اس سے منع کرکے انکار کیا ہو، اور یہ تمام گناہوں، رزائل اور مختلف انواع کی کمینی حرکات کو شامل ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد شرک ہے۔ اور البغی سے مراد تکبر، ظلم، کینہ اور تعدی اور زیادتی کرنا ہے۔ اور اس کا حقیقی معنی حد سے تجاوز کرنا ہے، اور یہ منکر کے تحت بھی داخل ہے، لیکن اس کی ضرر اور نقصان کے شدید ہونے کی وجہ سے خاص طور پر اہتمام کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے اور حدیث طیبہ میں حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے : ” بغاوت اور سرکشی سے بڑھ کر تیزی کے ساتھ سزا (اور عذاب) کو لانے والا کوئی گناہ نہیں “۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” باغی کو بچھاڑ دیا گیا ہے “۔ (یعنی وہ ہلاک کردیا گیا ہے) تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے جس کے خلاف بغاوت کی گئی اور بعض کتب منزلہ میں ہے : اگر کسی پہاڑ نے کسی پہاڑ کے خلاف بغاوت کی تو ان میں سے باغی کو ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر 5: امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح میں عنوان ذکر کیا اور فرمایا : باب قول اللہ تعالیٰ : ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتآئ ذی القربی وینھی عن الفحشآء والمنکر والبغی یعظکم لعلکم تذکرون۔ ، اور قولہ تعالیٰ : انما بغیکم علی انفسکم (یونس : 23) (تمہاری سرکشی کا وبال تمہیں پر پڑے گا) ۔ ثم بغی علیہ لینصرنہ اللہ (الحج :60) (پھر (مزید) زیادتی کی گئی اس پر تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد فرمائے گا) ۔ وترک اثارۃ الشر علی مسلم أو کافر (مسلمان یا کافر پر شر بھڑکانے کو ترک کرنے کا بیان) ۔ پھر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث ذکر کی جو کہ حضور بنی مکرم ﷺ پر لبید بن اعصم کے جادو کرنے کے بارے میں ہے۔ ابن بطال نے کہا ہے : امام بخاری ؓ نے ان آیات اور ترک إثارۃ الشر علی مسلم أو کافر سے استدلال کیا ہے جیسا کہ حدیث عائشہ صدیقہ ؓ اس پر دال ہے اس حیثیت سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” خبردار آگاہ رہو اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا فرما دی ہے اور رہا میں تو یہ ناپسند کرتا ہوں کہ میں لوگوں میں شرکو جوش دلاؤں (اور اسے پھیلا دوں) “۔ اور اس کی وجہ۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ انہوں نے قول باری تعالیٰ : ان اللہ یامر بالعدل والاحسان میں تاویل کی ہے کہ برائی کرنے والے کے ساتھ احسان (اور نیکی) کرنا اور اس کی برائی پر اس کی سزا کو چھوڑ دینا یہ مستحب ہے۔ پس اگر کہا جائے : بغی والی آیات میں تاویل کیسے صحیح ہو سکتی ہے ؟ تو کہا جائے گا : اس کی وجہ۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آگاہ کردیا کہ سرکشی اور بغاوت کا ضرور و نقصان باغی کی طرف پھرجاتا ہے جیسا کہ فرمایا : انما بغیکم علی انفسکم (یونس : 23) اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد و نصرت کی ضمانت دی ہے جس کے خلاف بغاوت کی گئی ہے۔ تو پھر جس کے خلاف بغاوت کی گئی ہے اس کا بدرجہ اولیٰ یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس کی مدد و نصرت کی ضمانت دی ہے تو اس کے مقابلے میں اس کی طرف سے عفو و درگزر ہے جس کے خلاف بغاوت کی گئی ہے، اور اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ نے اس یہودی کے ساتھ کیا جس نے آپ پر جادو کیا تھا، حالانکہ اس ارشاد باری تعالیٰ کے ساتھ آپ ﷺ کے لئے اس سے انتقام لینے کی اجازت تھی : وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ (النحل : 126) (اور اگر تم (انہیں) سزا دینا چاہو تو انہیں سزا دو لیکن اس قدر جتنی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہے) ۔ لیکن آپ ﷺ نے اس ارشاد کو لیتے ہوئے عفو و درگزر کو ترجیح دی : ولمن صبرو غفران ذلک عزم الامور۔ (الشوریٰ ) (اور جو شخص ان مظالم پر) صبر کرے اور (طاقت کے باوجود) معاف کر دے تو یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے) ۔ مسئلہ نمبر 6: یہ آیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو متضمن ہے، اور ان دونوں کے بارے میں کلام پہلے گزر چکی ہے۔ روایت ہے کہ ایک جماعت نے اپنے ایک عامل کی شکایت ابو جعفر منصور عباسی کے پاس پیش کی تو عامل نے اس جماعت کے ساتھ مباحثہ کیا اور وہ ان پر غالب آگیا، اس طرح کہ وہ اس پر کوئی بڑا ظلم ثابت نہ کرسکے اور کسی شے میں اس کی زیادتی ثابت کرسکے، تو اتنے میں قوم سے ایک نوجوان کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے امیر المومنین ! بیشک اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے، اور بلاشبہ اس نے عدل کیا ہے اور احسان نہیں کیا۔ راوی نے کہا : پس ابو جعفر اس کی اصابت رائے سے بہت متعجب ہوا اور اس نے عامل کو معزول کردیا۔
Top