Al-Qurtubi - An-Nahl : 99
اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ
اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيْسَ : نہیں لَهٗ : اسکے لیے سُلْطٰنٌ : کوئی زور عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَلٰي رَبِّهِمْ : اور اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : وہ بھروسہ کرتے ہیں
کہ جو مومن ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں ان پر اس کا کچھ زور نہیں چلتا۔
آیت نمبر 99 تا 100 قولہ تعالیٰ : انہ لیس لہ سلطن علی الذین امنوا یعنی بیشک اس کا ان لوگوں پر گمراہ کرنے اور کفر کے بارے زور نہیں چلتا جو (سچے دل سے) ایمان لائے، یعنی تجھے اس پر قدرت نہیں ہے کہ تو انہیں ایسے گناہ پر ابھارے جس کی مغفرت نہیں ہوسکتی ؛ یہ سفیان نے کہا ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : اس کے لئے اس پر کوئی حجت نہیں ہے گناہوں میں سے جن کی طرف وہ انہیں دعوت دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک اس کو ان پر کسی حال میں کوئی زور نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت ان پر ڈال دی ہے جس وقت اللہ تعالیٰ کے دشمن ابلیس نے کہا اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو : ولاغوینھم اجمعین۔ الا عبادک منھم المخلصین۔ (الجر) (اور میں ضرور گمراہ کروں گا ان سب کو، سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں ان میں سے چن لیا گیا ہے) ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان عبادی لیس لک علیھم سلطن الا من اتبعک من الغوین۔ (الحجر) (بےشک میرے بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا مگر وہ جو تیری پیروی کرتے ہیں گمراہوں میں سے) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : تحقیق ہم نے بیان کیا ہے کہ یہ ایسا عام ہے جس میں تخصیص داخل ہے، تحقیق اس نے حضرت آدم و ھوا (علیہما السلام) سے اپنے زور کے ساتھ لغزش کا ارتکاب کروایا، اور اس نے اپنے اپنے وقت کے فضلاء کو اپنے اس قول کے ساتھ کہ ” تیرے رب کو کسی نے پیدا کیا ؟ “ تشویش میں مبتلا کیا، جیسا کہ اس کا بیان سورة الاعراف کے آخر میں گزر چکا ہے۔ انما سلطنہ علی الذین یتولونہ بلاشبہ اس کا زور صرف ان پر چلتا ہے جو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : تولیتہ یعنی میں نے اس کی اطاعت کی، اور تولیت عنہ، یعنی میں نے اس سے اعراض کرلیا۔ والذین ھم بہ مشرکون اور ان پر جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ؛ یہ حضرت مجاہد (رح) اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں بہ ضمیر شیطان کی طرف لوٹ رہی ہے ؛ یہ ربیع بن انس اور قتبی نے کہا ہے۔ اور اس کا معنی ہے : اور وہ لوگ جو اس کی وجہ سے شرک کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : کفرت بھذہ الکلمۃ، یعنی میں نے اس کلمے کی وجہ سے کفر کیا۔ اور صار فلان بک عالما، یعنی فلاں تیری وجہ سے عالم ہوگیا، یعنی وہ جو شیطان کی اطاعت کرتے ہیں (اور اس کے ساتھ یارانہ گانٹھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں) ۔
Top