Al-Qurtubi - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور سیدھا راستہ تو خدا تک جا پہنچتا ہے اور بعض راستے ٹیڑھے ہیں (وہ اس تک نہیں پہنچتے) اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھا راستے پر چلا دیتا۔
آیت نمبر 9 قولہ تعالیٰ : وعلی اللہ قصد السبیل یعنی راہ راست کا بیان اور وضاحت اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے، اس کلام میں مضاف محذوف ہے اور وہ بیان ہے۔ اور السبیل سے مراد اسلام ہے یعنی رسل علیہم الصلوٰت والتسلیمات اور دلائل و براہن کے ساتھ اس کی وضاحت کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔ اور قصد السبیل سے مراد سیدھی راہ ہے ؛ کہا جاتا ہے : طریق قاصد یعنی وہ راستہ جو مطلوب اور منزل تج پہنچانے والا ہو۔ ومنھا جآئر ای ومن السبیل جائر، یعنی ایسے راستے بھی ہیں جو حق سے پھرنے والے ہیں پس ان سے ہدایت اور راہنمائی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اور اسی سے امرء القیس کا قول ہے : ومن الطریقۃ جائز و ھدی قصد السبیل ومنہ ذودخل اور طرفہ نے کہا ہے : عدولیۃ أو من سفین ابن یامن یجور بھا الملاح طورا ویھتدی اس میں العدولیۃ کشتی ہے جو عدولی کی طرف منسوب ہے اور یہ بحرین کا ایک گاؤں ہے اور العدولی سے مراد ملاح ہے ؛ یہ صحاح میں ہے۔ اور قرآن کریم میں ہے وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل (الانعام : 153) (اور بیشک یہ مرا راستہ سیدھا سو اس کی پیروی کرو اور نہ پیروی کرو اور رستوں کی) ۔ اور پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے ومنھم جائر عن السبیل الحق، یعنی ان میں سے رواہ حق سے پھرنے والے بھی ہیں پس اس کی طرف راہنمائی نہیں پائی گئی۔ اور ان کے بارے میں دو قول ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مختلف خواہشات رکھنے والے ہیں ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ اور دوسرا قول ہے وہ ملل الکفر ہیں مثلاً یہودیت، مجوسیت اور عیسائیت ،۔ اور مصحف حضرت عبد اللہ میں ومنکم جائز ہے اور اسی طرح حضرت علی ؓ نے ومنکم کاف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے وعنھا جائز ای عن السبیل (یعنی راستے سے پھرنے والے) پس من بمعنی عن ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : مراد یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینے کا ارادہ فرمائے تو اس کے لئے ایمان کا راستہ سہل اور آسان کردیتا ہے، اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ فرمائے تو اس پر ایمان اور اس کے احکام ثقیل اور بھاری کردیتا ہے۔ (من اراد اللہ ان یھدیہ سھل لہ طریق الایمان، ومن اراد أن یضلہ ثقل علیہ الایمان وفروعہ) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : قصد السبیل کا معنی ہے تمہارا چلنا اور تمہار لوٹنا۔ اور السبیل واحد ہے لیکن جمع کے معنی میں ہے، اسی لئے ضمیر مؤنث لائی گئی ہے اور فرمایا : ومنھا اور لغت اہل حجاز کے مطابق سبیل مؤنث ہے۔ قولہ تعالیٰ : ولوشآء لھدکم اجمعین یہ بیان فرمایا کہ مشیت اللہ تعالیٰ کیلئے ہی ہے، اور یہ اس موقف کو صحیح قرار دے رہا ہے جو آیت کی تأویل میں حضرت ابن عباس ؓ نے اختیار کیا ہے، اور یہ قدریہ اور ان کے موافق لوگوں کو رد کرتا ہے جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔
Top