بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
آیت نمبر 1 اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : سبحٰن۔ سبحان اسم ہے جو مصدر کی جگہ رکھا گیا ہے، اور یہ غیر متمکن ہے، کیونکہ اس میں وجوہ اعراب جاری نہیں ہوسکتیں، اور نہ اس پر الف لام ہوسکتا ہے، اور نہ اس سے فعل آیا ہے، اور یہ غیر منصوف ہے کیونکہ اس کے آخر میں الف نون زائدہ تان ہے، تو کہتا ہے : سبحت یسبیحا وسبحانا، جیسا کہ کفرت الیمین تکفیراو کفرانا ہے۔ اور اس کا معنی ہے التنزیہ والرأۃ للہ عزوجل من کل نقص (ہر نقص سے اللہ تعالیٰ کی برأت اور پاکی بیان کرنا ہے) ۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر عظیم ہے اس کے سوا اس کی صلاحیت رکھتا۔ اور رہاشاعرکا قول : أقول لما جاءنی فخرہ سبحان من علقمۃ الفاخر تو بلا شبہ شاعر نے یہ بطریق نادر ذکر کیا ہے۔ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ الفیاض ؓ جو کہ اصحاب عشرہ میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے عرض کیا : سبحان اللہ کا معنی کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تنزیہ اللہ من کل سوء (اللہ تعالیٰ کو ہر کمزوری اور نقص سے پاک قرار دینا) ۔ سیبویہ کے مذہب کے مطابق اس میں عامل وہ فعل ہے جو اس کا ہم معنی ہو نہ کہ اس کے لفظوں سے ہو، جبکہ اس کے لفظ سے فعل آتا ہی نہیں، اور یہ اسی طرح ہے جیسا کہ قعد القرفصاء (وہ اپنے ہاتھوں کے ساتھ احتباء کی حالت میں بیٹھا) اور إشتمل الصماء (وہ کپڑے میں مکمل طور پر لپٹ گیا) (دونوں مثالوں میں دونوں فعل ہم معنی ہیں) پس ان کے نزدیک تقدیر عبارت یہ ہے : أنزہ اللہ تنزیھا، تو ” سبحان اللہ “ آپ کے قول تنزیھا کی جگہ واقع ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : اسرٰی بعبدہ ٖ ۔ أسری میں دو لغتیں ہیں : سری اور أسری، جیسا کہ سقی اور أسقی ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ شاعر نے کہا : اسرت علیہ من الجوزاء ساریۃ تزجی الشمال علیہ جامد البرد اور دوسرے نے کہا ہے : حی النضیرۃ ربۃ الخدر اسرت الی ولم تکن تسری دونوں شعروں میں دونوں لغتیں جمع کردی گئی ہیں۔ اور اسراء کا معنی رات کو چلنا ہے۔ کہا جاتا ہے : سریت مسری و سری، اور اسریت إسراء۔ جیسا کہ شاعر کا قول ہے : ولیلۃ ذات ندی سریت ولم یلتنی من سراھا لیت اور یہ بھی کہا گیا ہے : أسریٰ وہ رات کے پہلے حصہ میں چلا۔ اور سری وہ رات کے آخری حصہ میں چلا۔ پہلا قول زیادہ معروف ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : بعبدہٖ علماء نے کہا ہے : اگر حضور نبی مکرم ﷺ کا کوئی اور اسم گرامی اس سے اشرف واعلی ہوتا تو یقینا اس حالت علیا میں اللہ تعالیٰ آپ کا ذکر اس کے ساتھ فرماتا۔ اور اس معنی میں انہوں نے یہ شعر بیان کئے ہیں : یاقوم قلبی عند زھراء یعرفہ السامع والرائی لا تدعنی إلابیا عبدھا فإنہ أشرف أسمائی اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ علامہ قشیری (رح) نے کہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنی بارگاہ عالی کی طرف اٹھا یا، اور آپ کو ستاروں کی بلندی سے بھی اوپر لے گیا، تو امت کے سامنے تواضع کے لئے آپ کا ذکر اسم عبودیت کے ساتھ فرمایا۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ تمام کتب حدیث میں اسراء ثابت ہے، اور جملہ اطراف اسلام میں یہ صحابہ کرام ؓ سے رویت کیا گیا ہے پس اس یہ اس وجہ سے متواتر اخبار میں سے ہے، اور نقاش نے اس سے ذکر کیا ہے جس نے اسے بیس صحابہ کرام سے روایت کیا ہے۔ اور صحیح میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میرے پاس براق لایا گیا اور یہ سفید رنگ کا طویل جانور ہے جو گدھے سے بڑا ہے اور خچر سے ذرا کم ہے وہ اپناپاؤں اپنی حد نظر پر رکھتا ہے۔۔۔ فرمایا۔۔۔ پس میں اس پر سوار ہوا یہاں تک کہ میں بیت المقدس میں آگیا۔۔۔۔ فرمایا۔۔۔۔ پھر میں نے اسے اس حلقہ کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ انبیاء (علیہم السلام) سواریاں باندھتے تھے۔۔۔ فرمایا۔۔۔۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور میں نے اس میں دو رکعتیں نماز پڑھی پھر میں (باہر) نکلا تو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) میرے پاس ایک برتن میں شراب اور ایک برتن میں دودھ لے کر آئے تو میں نے دودھ کو پسند کیا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے۔۔۔ فرمایا۔۔۔ پھر وہ ہمارے ساتھ آسمان کی طرف چڑھے۔۔۔ اور آگے پوری حدیث ذکر کی۔ اور ان روایات میں سے جو صحیحین میں نہیں ہیں وہ ہے جسے آجری اور سمرقندی نے ذکر کیا ہے، آجری نے حضرت ابوسعید حدری ؓ سے اس قول باری تعالیٰ کے تحت ذکر کیا ہے : سبحٰن الذی اسرٰی بعبدہٖ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی بٰرکنا حولہ حضرت ابو سعید ؓ نے بیان کیا : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اس رات کے بارے بتایا جس میں آپ کو سفر معراج پر لے جایا گیا، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” میرے پاس ایک جانور لایا گیا جو جانوروں میں سے خچر کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتا تھا اس کے دونوں کان حرکت کررہے تھے اور وہ براق ہے جس پر اس سے قبل انبیاء (علیہم السلام) سواری کرتے تھے پس اس پر سوار ہوا اور وہ چل پڑا وہ اپنا قدم انتہا نگاہ پر رکھتا تھا پس میں نے اپنی دائیں جانب سے ایک آواز سنی : اے محمد ! ﷺ ٹھہرے جایئے یہاں تک کہ میں آپ سے کچھ دریافت کرلوں، پس میں چلتا رہا اور میں نے اس پر کوئی اعتماد نہ کیا (کوئی توجہ نہ دی) پھر میں نے اپنی بائیں جانب سے ایک ندا سنی : اے محمد ! ﷺ ٹھہر جایئے یہاں تک کہ میں آپ سے کچھ پوچھ لوں، لیکن میں چلتا رہا اور میں نے اس پر کوئی اعتماد نہ کیا پھر میرے سامنے ایک عورت آئی جس پر دنیا کی ہر زینت و آرائش تھی وہ اپنا ہاتھ اٹھائے ہوئے کہہ رہی تھی ٹھہرجایئے یہاں تک کہ میں آپ سے کچھ پوچھ لوں لیکن میں چلتا رہا اور میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ پھر میں بیت المقدس مسجد اقصیٰ آیا اور اس جانور سے اتر گیا اور میں نے اسے اسی حلقہ سے باندھ دیا جس کے ساتھ انبیاء (علیہم السلام) باندھتے تھے، بعد ازاں میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں نماز پڑھی تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے کہا : اے محمد ! ﷺ تم نے سنا ہے ! تو میں نے کہا : میں نے اپنی دائیں جانب سے ایک آواز سنی اے محمد ! ﷺ ٹھہرجایئے یہاں تک کہ میں آپ سے کچھ پوچھ لوں لیکن میں چلتا رہا اور اس پر اعتماد نہ کیا۔ تو حضرت جبرائیل نے کہا : وہ یہود کی دعوت دینے والا تھا۔ اگر آپ ٹھہر جاتے تو آپ کی امت یہودی ہوجاتی۔۔۔ فرمایا۔۔۔ پھر میں نے ایک ندا اپنی بائیں جانب سے سنی ہے ٹھہر جایئے یہاں تک کہ میں آپ سے کچھ پوچھ لوں لیکن میں چلتا رہا اور اس پر اعتماد نہ کیا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : وہ عیسائیت کی دعوت دینے والا تھا۔ بلاشبہ آپ ٹھہر جاتے تو آپ کی امت عیسائی ہوجاتی۔۔۔ فرمایا۔۔۔۔ پھر میرے سامنے ایک عورت آئی اس پر دنیا کی ہت قسم کی زیب وزینت تھی وہ اپنے ہاتھ اٹھائے یوئے کہہ رہی تھی ٹھہرجایئے لیکن میں چلتا رہا اور میں نے اس پر کوئی اعتماد نہ کیا۔ تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : وہ دنیا تھی اگر آپ ٹھہر جاتے تو آپ دنیا کو آخرت پر ترجع دیتے۔ اور اسے پسند کرتے۔ فرمایا۔۔۔ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے ان میں سے ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی، سو مجھے کہا گیا : پکڑو اور پئیو جسے چاہو، تو میں نے دودھ لے لیا اور اسے پیا، تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے کہا : آپ نے فطرت کو اپنا لیا ہے اور اگر آپ شراب لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔ پھر وہ سیڑی (معراج) لے کر آئے جس کے ساتھ نبی آدم کی ارواح اوپر چڑھتی ہیں تو وہ اس سب سے حسین تھی جو کچھ میں نے دیکھا تھا کیا تم نے مرنے والے کی طرف نہیں دیکھا وہ کیسی تیز نظر سے اس کی طرف دیکھتا ہے پھر ہمیں اوپر لے جاتا گیا یہاں تک کہ ہم آسمان دنیا کے دروازے پر پہنچ گئے۔ تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اسے کھولنے کو کہا تو پوچھا گیا : یہ کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جبریل۔ انہوں نے پوچھا : آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : محمد ﷺ ۔ انہوں نے پوچھا : کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں۔ پس انہوں نے میرے لئے دروازہ کھولا اور مجھے سلام کیا وہاں آسمان کا محافظ فرشتہ تھا اس کو اسماعیل کہا جاتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے تھے اور پر فرشتے کے ساتھ ایک لاکھ تھے۔۔۔ فرمایا ویعلم جنودربک الاھو (المدثر :31) (اور کوئی نہیں جانتا آپ کے رب کے لشکروں کو بغیر اس کے) اور آگے حدیث ذکر کی یہاں تک کہ فرمایا : ” پھر پانچویں آسمان پر پہنچے تو وہاں میری ملاقات حضرت ہارون بن عمران (علیہ السلام) سے ہوئی وہ اپنی قوم میں بڑے محبوب تھے اور ان کے اردگرد ان کی امت کے کثیر متبعین تھے تو حضور نبی مکرم ﷺ نے ان کا وصف بیان کیا اور فرمایا : ان کی ریش مبارک طویل تھی حتیٰ کہ وہ ان کی ناف تک پہنچنے کے قریب تھی، پھر ہم چھٹے آسمان کی طرف چلے تو وہاں میرے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تھے انہوں نے مجھے سلام پیش کیا اور مرحبا کہا۔۔۔ حضور ﷺ نے ان کا وصف بیان کیا اور فرمایا۔۔۔ وہ بہت زیادہ بالوں والے آدمی تھے اگر ان پر دو قمیضیں بھی ہوتیں تو ان سے ان کے بال باہر نکلے رہتے۔۔۔ “ الحدیث۔ اور بزارنے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گھوڑا لایا گیا اور آپ کو اس پر سوار کیا گیا اس کا ہر قدم اپنی حد نگاہ پر پڑتا تھا۔۔۔۔ اور آگے مکمل حدیث ذکر کی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث میں براق کی صفت میں یہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اس اثنا میں کہ میں حجر میں سویا ہوا تھا کہ اچانک میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرے پاؤں کو حرکت دی تو میں نے پلٹ کع ایک شخص کو دیکھا اور وہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو مسجد کے دروازے پر کھڑے تھے ان کے ساتھ ایک جانور جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اس کا چہرہ انسان کے چہرہ کی مثل تھا اس کے پاؤں کھر والے جانور کے پاؤں کی مثل تھے، اس کی دم بیل کی دم کی مثل تھی اور اس کی کلغی گھوڑے کی کلغی (مراد گردن کے بال تھے) کی مثل تھی پس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اسے میرے قریب کیا تو وہ بدکنے لگا اور اس کی کلغی کے بال بکھرے گئے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اسے پاتھ پھیرا اور کہا : اے برقہ تو محمد ﷺ سے مت بدک قسم بخدا ! کوئی مقرب فرشتہ تجھ پر سوار نہیں ہوا اور نہ کوئی نبی مرسل جو حضرت محمد ﷺ سے افضل ہو اور کوئی نبی مرسل جو حضرت محمد ﷺ سے افضل ہو اور کوئی بھی انسے بڑھکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معزز ومکرم نہیں۔ وقال یا برقہ لاتنفری من محمد ﷺ فو اللہ مارکبک ملک مقرب ولا نبی مرسل افضل من محمد ﷺ ولا اکرم علی اللہ منہ۔ اس نے جواب دیا میں جانتا ہوں کہ آپ اسی طرح ہیں اور یہ کہ آپ صاحب شفاعت ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ بھی اسکی شفاعت میں ہوجاؤں تو میں نے کہا : تو میری شفاعت میں ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔۔۔۔ “ الحدیث ابو سعید عبدالملک بن محمد نیشا پوری نے حضرت ابوسیعد خدری ؓ سے روایت ذکر کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : جب حضور نبی مکرم ﷺ چوتھے آسمان میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا : مرحباً بالأخ الصالح والنبی الصالح (خوش آمدید صالح بھائی اور صالح نبی) جس کے بارے ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ہم اسے دیکھیں گے پس ہم نے اسے آج کی رات کے سوا نہیں دیکھا فرمایا : پس اس میں پریم بنت عمران تھیں ان کے لئے موتیوں کے بنے ہوئے ستر محل تھے اور حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کی والدہ کے لئے ستر محل تھے جو سرخ مرجانہ کے بنے ہوئے تھے ان کے دروازے موتیوں سے مرصع تھے اور ان کے پلنگ ایک ہڈی سے بنے ہوئے تھے۔ پس جب معراج ( سیڑھی) پانچویں آسمان کی طرف بلند ہوئی اور اس کے باسیوں کی تسبیح سبحان من جمع بین الثلج والنار (پاک ہے وہ ذات جس نے برف اور آگ کو اکٹھا کیا) جس نے یہ تسبیح ایک بار کہی اس کے لئے ان کے ثواب ہوگا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھلوایا پس ان کے لئے دروازہ کھول دیا گیا پس وہاں ایک بوڑھا تھا اس سے زیادہ خوبصورت بوڑھا کبھی نہیں دیکھا گیا ان کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں ان کی ریش مبارک ناف کے قریب پہنچی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ وہ سیاہ وسفید رنگ میں ہو۔ اور ان کے اردگرد قوم بیٹھی ہوئی تھی وہ ان پر قصے بیان کر رہے تھے تو میں نے پوچھا : اے جبرائیل ! یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ حضرت ہ اورن (علیہ السلام) ہیں جو اپنی قوم میں محبوب ہیں۔۔۔۔ “ آگے پوری حدیث ذکر کی۔ یہ ان احادیث معراج کا مختصر خلاصہ ہے جو صحیحین سے خارج ہیں، انہیں ابو الربیع سلیمان ابن سبع نے مکمل طور پر کتاب ” شفاء الصدرو “ میں ذکر کیا ہے۔ اہل علم اور جماعت اہل السیر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نماز حضور نبی مکرم ﷺ پر مکہ مکرمہ میں اس وقت فرض کی گئی جس وقت آپ کو آسمان کی طرف سفر معراج پر لے جاتا گیا۔ اور انہوں نے واقعہ معراج کی تاریخ اور نماز کی ہیئت میں اختلاف کیا ہے، کیا یہ معراج روح کو ہوئی یا آپ کے جسم کے ساتھ ہوئی ؟ پس یہ تین مسائل ہیں جو اس آیت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، اور یہ ان میں سے ہیں جن پر واقفیت ہونی چاہیے اور ان کے بارے بحث ہونی چایئے، اور یہ ان احادیث کو بیان کرنے سے زیادہ اہم ہے، اور اب میں وہ ذکر کرتا ہوں جس پر علماء کے اقوال سے اور فقہاء کے اختلاف سے اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ میں واقف ہوا ہوں۔ جہاں تک پہلا مسئلہ ہے۔۔۔ وہ یہ ہے کہ کیا معراج روح کے ساتھ ہوئی یا جسم کے ساتھ ؟ اس کے بارے میں سلف و خلف کا اختلاف ہے، پس ایک گروہ کا موقف یہ ہے کہ معراج روح کو ہوئی، اور یہ کہ آپ کا جسم اقدس آپ کے بستر سے الگ نہیں ہوا، اور یہ کہ یہ خواب تھا جس میں آپ نے حقائق کو دیکھا، اور انبیاء (علیہم السلام) کے خواب حق ہیں۔ یہ نظریہ حضرت معاویہ ؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ہے، اور اسے حضرت حسن اور حضرت ابن اسحاق سے بیان کیا گیا ہے۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : یہ معراج جسم کے ساتھ بیداری میں بیت القدس تک ہوئی، اور آسمان تک روح کے ساتھ ہوئی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کیا ہے : سبحٰن الذیٓ اسرٰی بعبدہٖ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الا قصا پس انہوں نے مسجد اقصیٰ کو اسراء کی غایت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے : اگر اسراء آپ کو جسم کے ساتھ مسجد اقصیٰ سے آگے تک ہوتی تو یقیناً اس کا ذکر ہوتا کیونکہ یہ مدح وتعریف میں مزید مبالغہ اور اضافہ ہے۔ اور عظیم اسلاف اور مسلمانوں نے یہ نظریہ اپنایا ہے کہ آپ ﷺ کو معراج جسم کے ساتھ حالت بیداری میں ہوئی، اور یہ کہ آپ مکہ مکرمہ سے براق پر سوار ہوئے، اور آپ بیت المقدس تک پہنچے، اس میں نماز پڑھی پھر وہاں سے جسم کے ساتھ معراج پر لے جایا گیا۔ اور اس پر سوار ہوئے، اور دلالت کرتی ہیں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے اور آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ اور معراج کے جسم کے ساتھ اور حالت بیداری میں ہونے میں استحالہ نہیں ہے، اور ظاہر اور حقیقت سے تاویل کی طرف عدول تب کیا جاتا ہے جب کوئی استحالہ لازم آئے، اور اگر یہ خواب ہوتی تو اللہ تعالیٰ کہتا : بروح عبدہ (اپنے بندے کی روح کو) اور یہ نہ کہتا بعبدہ۔ اور قول باری : مازاغ البصروماطغی۔ (النجم) اس پر دلالت کرتا ہے۔ اور اگر یہ خواب ہوئی تو اس میں کوئی نشانی اور معجزہ نہ ہوتا، اور ام ہانی آپ کو یہ کہتیں : آپ لوگوں کے سامنے بیان نہ کریں وہ آپ کو جھٹلادیں گے۔ اور نہ اس کے سبب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو فضیلت دی جاتی، اور نہ قریش کے لئے تشبیع وتکذیب ممکن ہوتی، حالانکہ جب آپ ﷺ نے اس بارے خبر دی تو قریش نے آپ کو جھٹلا یا حتیٰ کہ کچھ لوگ مرتد ہوگئے جو ایمان لاچکے تھے۔ پس اگر یہ خواب ہوتی تو کوئی اس کا انکار نہ کرتا، حالانکہ مشرکین نے آپ کو کہا : اگر آپ سچے ہیں تو پھر ہمیں قافلے کے بارے بتایئے کہ کہاں آپ اس سے ملے تھے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” فلاں فلاں جگہ میں اس کے پاس سے گزرا اور فلاں آدمی پریشان اور گھبرایا ہوا تھا “۔ تو اس کو کہا گیا : اے فلاں ! تو نے کیا دیکھا ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں نے کوئی شے نہیں دیکھی ! سوائے اس کے کہ اونٹ بدکنے لگا ہے۔ پھر انہوں نے کہا : پس آپ ہمیں بتایئے : ہمارا قافلہ کب آئے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ تمہارے پاس فلاں فلاں دن پہنچے گا۔ “ انہوں نے پوچھا : کون سے وقت ؟ آپ نے فرمایا : ” میں نہیں جانتا، ادھر سے سورج پہلے طلوع ہوگا یا ادھر سے قافلہ پہلے آئے گا۔ “ پس اس دن ایک آدمی نے کہا : یہ سورج طلوع ہوگیا ہے۔ تو ادھر دوسرے آدمی نے کہا : یہ تمہارا قافلہ بھی آگیا ہے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے بیت المقدس کی صفات و کیفیات کے بارے معلومات طلب کیں تو آپ ﷺ نے وہ سب بیان فرمادیں حالانکہ اس سے پہلے آپ نے اسے نہیں دیکھا ہوا تھا۔ صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تحقیق میں حجر میں تھا اور قریش مجھ سے سفر معراج کے بارے پوچھنے لگے، تو انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کے بارے میں کچھ چیزیں پوچھیں میں نے انہیں اچھی طرح محفوظ نہیں کیا ہوا تھا تو مجھے اتنی شدید پریشانی لاحق ہوئی کہ اس کی مثل پریشانی کبھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ فرمایا : ” پس اللہ تعالیٰ نے اسے میرے لئے اٹھایا میں اس کی طرف دیکھنے لگا تو انہوں نے اس کے بارے مجھ سے جو شے بھی پوچھی میں نے اس کے بارے انہیں بتادیا “۔ الحدیث۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کے قول پر اعتراض یہ ہے : ” بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی ذات کو معراج پر لے جایا گیا۔ “ اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ چھوٹی عمر میں تھیں آپ نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا، اور نہ آپ نے حضور نبی کریم ﷺ سے کچھ بیان کیا ہے۔ اور رہے حضرت معاویہ ؓ ! تو وہ اس وقت کافر تھے انہوں نے بھی نہ اس حال کا مشاہدہ کیا، اور نہ حضور نبی کریم ﷺ سے کوئی حدیث بیان کی۔ جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے جو اس سے زیادہ معلوم کرنا چاہے تو اس چاہئے کہ وہ قاضی عیاض (رح) تعالیٰ کی ” کتاب الشفاء “ کا مطالعہ کرے اس سے وہ شفاء پالے گا۔ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے نظریہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کیا ہے : وما جعلنا الرء یا التیٓ ارینٰک الا فتنہ للناس (الاسراء :60) (اور نہیں بنایا ہم نے اس نظارہ کو جو ہم نے دکھایا تھا آپ کو مگر آزمائش لوگوں کے لئے) پس اسی وجہ سے انہوں نے اسے (معراج کو) رؤیا کا نام دیا ہے۔ اور اس کی تردید اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے : سبحٰن الذی اسرٰی بعبدہ ٖ لیکا اور حالت خواب (کے سفر) کو أسری نہیں کہا جاتا۔ اور یہ بھی کہ رؤیۃ العین (آنکھ کے ساتھ دیکھنے) کو بھی رؤما کہا جاتا ہے، جیسا کہ اس کا بیان اسی سورت میں آئے گا۔ اور اخبار ثابتہ کی نصوص میں اس پر واضح دلالت ہے کہ معراج بدن کے ساتھ ہوتی، اور جب ایک شے کے بارے میں خبر کے بارے میں خبر بھی وارد ہو، عقل بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہونے کو جائز قرار دیتی ہو تو پھر اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں، بالخصوص خلاف عادات امور کے زمانہ میں، حضور ﷺ کے اس قول کو محمول کیا جائے گا جو صحیح میں ہے : بینا اناعند البیت بین النائم وایقظان ( اس اثنا میں کہ میں بیت اللہ شریف کے پاس حالت نیند اور بیداری کے درمیان تھا۔ ) الحدیث۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ آپ اسراء سے نیند کی طرف لوٹے ہوں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ یہ معراج کی تاریخ کے بارے ہے، علماء نے اس میں بھی اختلاف کیا ہے، اور اس میں اختلاف ابن شہاب پر ہے، پس آپ سے موسیٰ بن عقبہ نے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ کو مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے ایک سال قبل بیت المقدس کی طرف سفر اسراء پر لے جایا گیا۔ اور آپ سے یونس نے عن عروہ طیبہ عائشہ ؓ کی سند سے یہ روایت کیا ہے کہ ام المومنین ؓ نے بیان کیا : حضرت ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ کا وصال نماز فرض کئے جانے سے پہلے ہوا۔ ابن شہاب نے کہا ہے : یہ واقعہ حضور نبی مکرم ﷺ کی بعثت کے سات سال بعد پیش آیا۔ اور ان سے وقاصی نے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : آپ ﷺ کی بعثت کے پانچ سال بعد آپ کو معراج پر لے جایا گیا۔ ابن شہاب نے کہا ہے : روزے مدینہ طیبہ میں بدر سے فرض کے گئے، اور زکوٰۃ اور حج مدینہ طیبہ میں فرض کیے گئے، اور شراب غزوہ احد کے بعد حرام کی گئی۔ اور ابن اسحاق (رح) نے کہا ہے : آپ ﷺ کو مسجد حرام اقصیٰ اور وہی بیت المقدس ہے کی طرف رات کے وقت لے جایا گیا، اور اسلام مکہ مکرمہ کے قبائل میں پھیلا۔ اور ان سے یونس بن بکیر نے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ نے ئ حضور نبی کریم ﷺ کی معیت میں نماز ادا کی۔ عنقریب اس کا ذکر آرہا ہے۔ ابو عمر نے کہا : یہ قول تیری اس پر راہنمائی کرتا ہے کہ معراج ہجرت سے کئی سال پہلے ہوئی، کیونکہ حضرت خدیجہ ؓ کا وصال ہجرت سے پانچ سال پہلے ہوا۔ بعض نے کہا : تین سال پہلے ہوا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چا رسال پہلے ہوا ہے۔ اور ابن اسحاق کا قول ابن شہاب کے قول کے مخالف ہے، اس بنا پر ابن شہاب سے اختلاف ہوا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور حربی نے کہا ہے : آپ ﷺ کو ہجرت سے ایک پرس پہلے ماہ ربیع الثانی کی ستایئسویں رات کو معراج ہوئی۔ اور ابوبکر محمد بن علی بن قاسم ذہبی نے اپنی تاریخ میں کہا ہے : آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کی طرف سفر اسراء پر لے جایا گیا اور وہاں سے آسمان کی طرف بلند کیا گیا اور یہ واقعہ آپ ﷺ کی بعثت کے اٹھا رہ مہینے بعد پیش آیا۔ ابوعمر نے کہا ہے : اہل سیر میں سے میں کسی کو نہیں جانتا جس نے وہ کہا ہو جو ذہبی نے بیان کیا ہے، اور نہ انہوں نے اپنے قول کو کسی ایسے شخص کی طرف منسوب کیا ہے جن کی طرف اس علم کی نسبت کی جاتی ہے، اور نہ اسے ان میں سے کسی پر پیش کیا ہے جن سے حجت پکڑی جاتی ہے۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ رہی نماز کی فرضیت اور اس کی ہیئت، جس وقت نماز فرض کی گئی، تو اہل علم اور اہل سیر کی جماعت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نماز مکہ مکر مکہ میں شب معراج اس وقت فرض کی گئی جب آپ ﷺ کو آسمان کی طرف بلندی پر لے جایا گیا، صحیح وغیرہ میں اس پر نصوص موجود ہیں۔ البتہ انہوں نے نماز کی ہیئت میں اختلاف کیا ہے جس وقت یہ فرض ہوئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ نماز دو دو رکعتیں فرض کی گئی ہے، پھر مقیم کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اور چار رکعتیں مکمل کردی گئیں، اور حالت سفر کی نماز کو دو رکعتوں پر برقرار رکھا گیا، اسی طرح حضرت شعبی، میمون بن مہران اور محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے۔ شعبی (رح) نے کہا ہے : سوائے مغرب کے۔ یونس (رح) بن بکیر نے کہا ہے : اور ابن اسحاق (رح) نے کہا ہے : پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب آپ پر نماز فرض ہوئی یعنی اسراء میں پس انہوں نے وادی کے کنارے پر اپنی ایڑی ماری تو اس سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس سے وضو کیا اور حضور نبی رحمت ﷺ دیکھتے رہے۔ پس انہوں نے اپنا چہرہ دھویا، ناک میں پانی ڈالا اور کلی کی، اپنے سر اور اپنے کانوں کا مسح کیا اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا اور اپنی شرمگاہ پع پانی چھڑکا، پھر اٹھے اور دورکعتیں چار سجدوں کے ساتھ پڑھی، پس رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی آنکھ کو ٹھنڈا کردیا، آپ کا دل انتہائی خوش اور مطمئن تھا اور آپ اللہ تعالیٰ کے امر میں سے پسندیدہ امر لے کر آئے، پس آپ نے حضرت خدیجہ ؓ کا ہاتھ پکڑا اور اسی چشمے پر لے آئے اور اسی طرح وضو کیا جیسے حضرت جبرائیل امین نے وضو کیا تھا پھر آپ ﷺ نے اور حضرت جدیجہ ؓ نے دو رکعتیں چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں، پھر آپ ﷺ اور حضرت خدیجہ ؓ برابر نماز پڑھتے رہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضر میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں نماز فرض ہوئی، اسی طرح نافع بن جبیر، حسن بن ابی الحسن بصری نے کہا ہے اور یہی ابن جزیج کا قول ہے، اور حضور نبی مکرم ﷺ سے جو مروی ہے وہ اس سے موافقت کرتا ہے۔ اور اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) شب معراج کو زوال کے وقت نازل ہوئے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو نماز اور اس کے اوقات سکھائے۔ یونس بن بکیر نے سالم مولی ابی المہاجر سے روایت بیان کی ہے انہوں نے کہا میں نے میمون بن مہران کو کہتے سنا ہے کہ پہلے نماز دورکعتیں تھی، پھر رسول اللہ ﷺ نے چار رکعتیں نماز پڑھی تو وہی سنت ہوگئی، اور مسافر کے لیے اسی نماز کو برقرار رکھا گیا اور وہی مکمل نماز ہے۔ ابو عمر نے بیان کیا ہے : ایسی اسناد ہے جس کی مثل سے استدلال نہیں کیا جاسکتا، اور ان کا قول : فصارت سنۃ (پس وہی سنت ہوگئی) یہ قول منکر ہے، اور اسی طرح شعبی (رح) کی اکیلے مغرب کی نماز کی استثنا کرنا بھی ہے اور انہوں نے صبح کا ذکر نہیں کیا تو یہ ایسا قول ہے جس کا کوئی معنی نہیں۔ تحقیق مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ حضر میں نماز کے فرض چار ہیں سوائے مغرب اور صبح کی نماز کے اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں جانتے نہ عملاً اور کسی خبر مستفیض سے نقلا۔ اور جو اختلاف بھی اصل فرض میں ہے وہ ان کے لئے قطعاً ضرر رساں اور نقصان دہ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ اذان کے بارے میں بحث سورة المائدہ میں گزر چکی ہے، والحمدللہ۔ اور سورة آل عمران میں یہ گزر چکا ہے کہ پہلی مسجد جو زمین میں بنائی وہ مسجد حرام ہے، پھر مسجد اقصیٰ ہے۔ اور یہ کہ ان دونوں کے درمیان چالیس برس کا فرق ہے، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مسجد اقصیٰ اور آپ کا اس کے لئے بلانا حضرت عبداللہ بن عمرو کی حدیث سے مروی ہے اور ان میں تطبیق کی وجہ بھی مذکور ہے، پس وہیں غور کرلو اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اور یہاں ہم آپ ﷺ کا یہ قول ذکر کریں گے : لاتشدالرحال الا إلی ثلاثۃ مساجد إلی المسجد الحرام وإلی مسجدی ھذا وإلی مسجد ایلیاء۔۔۔۔ اوبیت المقدس (کجاوے نہ کسے جائیں مگر تین مساجد کی طرف (یعنی) مسجد حرام کی طرف اور میری اس مسجد (مسجد نبوی) کی طرف، اور مسجد اقصیٰ کی طرف) اسے امام مالک (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ اور اس میں جو ہے وہ تمام مساجد ان تین مساجد کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے، اسی لئے علماء نے کہا ہے : جس نے کسی مسجد میں نماز کی نذر مانی جس تک وہ سواری اور کجاوے کے بغیر نہ پہنچ سکتا ہو تو وہ اس پر عمل نہ کرے، اور وہ اپنی مسجد میں نماز پڑھ لے، سوائے مذکورہ تین مساجد کے، کیونکہ جس نے ان میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تو وہ ان کی طرف نکلے۔ اور امام مالک (رح) اور اہل علم کی ایک جماعت نے اس آدمی کے بارے میں کہا ہے جس نے سرحد پع لشکر کی حفاظت کے لئے چھاؤنی بنانے کی نذر مانی کہ وہ اسے بند کردے گا، تو وہیں اسے پورا کرنا اس پر لازم ہے جہاں چھاؤنی ہو کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ اور ابو البختری نے اس حدیث میں مسجد الجند کا اضافہ کیا ہے، اور یہ صحیح نہیں ہے اور حدیث موضوع ہے، کتاب کے مقدمہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ قولہ تعالیٰ : الی المسجد الاقصا مسجد اقصیٰ اور مسجد حرام کے درمیان بہت دوری اور بعد ہونے کی وجہ سے اس کا نام اقصیٰ رکھا گیا ہے، اور وہ زمین میں اہل مکہ سے بہت دور مسجد تھی زیارت کے ساتھ جس کی تعظیم و تکریم کی جاتی تھی، پھر فرمایا : الذی بٰرکنا حولہ کہا گیا ہے : اس کے ارد گرد پھلوں کے ساتھ اور نہریں جاری کرنے کے ساتھ ہم نے برکت رکھ دی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ان انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین کے سبب جو اس کے اردگرد مدفون ہیں ہم نے وہاں برکت رکھ دی ہے۔ اور اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے اسے مقدس بنا دیا ہے۔ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے شام تو میری جگہوں (زمین) میں سے عمدہ اور چنا ہوا علاقہ ہے اور میں اپنے بندوں میں سے انتہائی مخلص دوست تیری طرف بھیجنے والا ہوں “۔ (شام کی اصل ہے اسے مغرب بنایا گیا ہے) لنریہ من اٰیٰتنا یہ اسلوب کلام کی تبدیلی کے باب سے ہے۔ اور آیات اور نشانیاں وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان عجائبات میں سے دکھائے جس کے بارے آپ نے لوگوں کو خبر دی، اور آپ ﷺ کو مکہ سے مسجد اقصیٰ کی طرف ایک رات میں لے جانا حالانکہ ایک مہینے کی مسافت تھی، اور آپ کا آسمان کی طرف اوپر جانا اور آپ کا انبیاء (علیہم السلام) کا ایک ایک کرکے وصف بیان کرنا، جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں ثابت ہے۔ انہ ھو السمیع البصیر اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔
Top