Al-Qurtubi - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے خوف سے (ان کو) بند رکھتے اور انسان دل کا بہت تنگ ہے۔
آیت نمبر 100 قولہ تعالیٰ : قل لو انتم۔۔۔۔ ربی یعنی اگر تم رزق کے خزانوں کے مالک ہوتے اور یہ بھی کہا گیا ہے : اگر تم نعمتوں کے خزانوں کے مالک ہوتے، اور یہ اعم ہے۔ اذا لا مسکتم خشیۃ الانفاق تو تم بخل کے سبب ضرور ہاتھ روک لیتے، اور یہ ان کے اس قول کا جواب ہے : لن نؤمن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعا۔ (الاسراء) یہاں تک کہ ہم معیشت میں خوشحال اور وسیع ہوجائیں، یعنی اگر تم خوشحال ہوجائیں، یعنی اگر تم خوشحال ہو بھی جاؤ تب بھی ضرور بخل کرو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اگر مخلوق میں سے کوئی ایک اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا مالک بن جائے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے سخاوت کرنے کی طرح ان کے ساتھ سخاوت نہ کرے ؛ اسکی دو وجہیں ہیں : ایک یہ ہے۔۔ کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس سے اپنے خرچ اور اپنی منفعت کے حصول کے لیے ہاتھ روک لے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اسے فقر و افلاس کا خوف ہو اور ختم ہونے کا ڈر لا حق ہوجائے (لہٰذا وہ ہاتھ روک لے) ۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے وجود میں ان دونوں حالتوں سے بلند اور اعلیٰ ہے۔ اور اس آیت میں انفاق بمعنی فقر ہے ؛ یہ حضرت ابن عباس اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے۔ اور اہل لغت نے انفق، أصرم، أعدم اور اقتر سبھی کو مال کم ہونے کے معنی میں بیان کیا ہے۔ وکان الانسان قتورا۔ اور واقعی انسان بخیل اور تنگ دل ہے۔ کہا جاتا ہے : قتر علی عیالہ یقتر ویقتر قترا وقتورا جب آدمی اہل و عیال پر نفقہ (خرچہ) تنگ کر دے (تو مذکورہ جملہ کہا جاتا ہے) ، اور اسی طرح التقتیر اور الأقتار ہیں، اور یہ تینوں لغات ہیں۔ اور اس آیت کے بارے میں دو مختلف قول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ صرف مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؛ یہ حسن نے کہا ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ عام ہے، اور یہ جمہور کا قول ہے ؛ اور اسے ماوردی نے ذکر کیا ہے۔
Top