Al-Qurtubi - Al-Israa : 16
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا
وَاِذَآ : اور جب اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اَنْ نُّهْلِكَ : کہ ہم ہلاک کریں قَرْيَةً : کوئی بستی اَمَرْنَا : ہم نے حکم بھیجا مُتْرَفِيْهَا : اس کے خوشحال لوگ فَفَسَقُوْا : تو انہوں نے نافرمانی کی فِيْهَا : اس میں فَحَقَّ : پھر پوری ہوگئی عَلَيْهَا : ان پر الْقَوْلُ : بات فَدَمَّرْنٰهَا : پھر ہم نے انہیں ہلاک کیا تَدْمِيْرًا : پوری طرح ہلاک
اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوا تو وہاں کے آسودہ لوگوں کو (فواحش) پر مامور کردیا، تو وہ نافرمانیاں کرتے رہے، پھر اس پر (عذاب کا) حکم ثابت ہوگیا اور ہم نے اسے ہلاک کر ڈالا
آیت نمبر 16 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت میں یہ خبر دی ہے کہ وہ رسول بھیجنے سے پہلے کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا، اس لئے نہیں کہ یہ اس کی طرف سے قبیح ہوگا اگر وہ ایسا کرے گا، بلکہ یہ اس کی طرف سے وعدہ ہے، اور وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ پس جب وہ اپنے وعدہ کے اس طرح ثابت ہونے کے ساتھ جس طرح اس نے کہا ہے کسی بستی کو ہلاک اور برباد کرنے کا ارادہ کرے تو وہ وہاں کے رئیسوں کو فسق وفجور اور ظلم وستم میں لگا دیتا ہے تو پھر ان پر ہلاکت و بربادی کا فرمان حق اور ثابت ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تجھے یہ بتارہا ہے کہ جو کوئی ہلاک ہوا بلاشبہ وہ اس کے ارادہ کے ساتھ ہلاک ہوا، پس وہی ہے جو اسباب پیدا کرتا ہے اور انہیں اپنے انجام کی طرف لے جاتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قول سابق ثابت اور متحقق ہوجائے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : امرنا ابوعثمان نہدی، ابورجا، ابوالعالیہ، ربیع، مجاہد اور حسن رحمہم اللہ تعالیٰ نے امرنا تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، اور یہی حضرت علی ؓ کی قرات ہے، یعنی ہم نے وہاں کے شریروں کو مسلط کردیا پس انہوں نے اس میں نافرمانی کی اور فسق وفجور کا ارتکاب کیا، پس جب انہوں نے ایسا کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔ اور ابوعثمان نہدی نے کہا ہے : امرنا یعنی میم کی تشدید کے ساتھ (اس کا معنی ہے) تو ہم ان پر امراء بنادیتے ہیں در آنحا لی کہ وہ ان پر غالب اور مسلط ہوتے ہیں : اور یہ ابن عزیز نے کہا ہے اور تأمرعلیھم کا معنی ہے تسلط علیھم (وہ ان پر غالب ہوگیا، قابض ہوگیا) اور حسن نے بھی، قتادہ، ابو حیوہ شای، یعقوب اور خارجہ نے نافع اور حماد سے انہوں نے ابن کثیر اور علی اور حضرت ابن عباس ؓ سے ان دونوں (قرأتوں) کے خلاف پڑھا ہے : امرنا یعنی مد اور تخفیف کے ساتھ، یعنی ہم اس کے جابروں اور رئیسوں کو زیادہ کردیتے ہیں : یہ کسائی نے کہا ہے۔ اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : آمرتہ مد کے ساتھ ہو اور أمرتہ یہ دونوں لغتیں بمعنی کثرتہ (میں نے اسے زیادہ کردیا) ہے اور اس معنی میں حدیث طیبہ ہے خیر المال مھرۃ مامورۃ اوسکۃ مابورۃ۔ یعنی بہترین مال وہ ہے جس کے بچے اور نسل کثیر ہو۔ اور اسی طرح عزیزنے کہا ہے : آمرنا اور أمرنا دونوں ایک ہی معنی میں ہیں، یعنی اکثرنا (ہم نے زیادہ کردیا) اور حسن سے بھی اور یحییٰ بن یامر سے امرنا بغیر مد اور میم کے کسرہ کے ساتھ فعلنا کے وزن پر روایت ہے، اور اسے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا گیا ہے۔ حضرت قتادہ اور حسن نے کہا ہے : اس کا معنی ہے اکثرنا اور اسی طرح ابوزید اور ابو عبید نے بیان کیا ہے، اور کسائی نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے : کثرت کے معنی میں فقط آمرنا مد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا : اس کی اصل أأمرنا ہے پھر اس میں تخفیف کی گئی ہے، اسے مہدوی نے بیان کیا ہے۔ اور صحاح میں ہے : اور ابوالحسن نے کہا ہےأمرمالہ (یعنی میم کے کسرہ کے ساتھ) یعنی اس کا مال زیادہ ہوگیا۔ اور امر القوم یعنی قوم بڑھ گئی، زیادہ ہوگئی۔ شاعر نے کہا ہے : أمرون لا یرثون سھم القعدد (وہ کثیر ہیں وہ قلیل الآباء کے حصے کے وارث نہیں ہوسکتے ) اور آمر اللہ مالہ (مد کے ساتھ) (اللہ تعالیٰ نے اس کا مال زیادہ کردیا) ۔ ثعلبی نے کہا ہے : کثیرشی کو امر کہا جاتا ہے، اور اس سے فعل آتا ہے : امرالقوم یأمرون أمراجب قوم زیادہ ہوجائے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا ہے : جب دور جاہلیت میں کوئی قبیلہ زیادہ ہوجاتا تو ہم اس کے لئے کہتے تھے : أمرأمربنی فلان (بنی فلاں کی تعداد بڑھ گئی) ۔ جیسا کہ لبید نے کہا ہے : کل بنی حرۃٍ مصیرھم قل وإن اکثرت من العدد ان یغبطوا یھبطوا وان امردا یوما یصیروا للھلک والنکد تو اس میں امروا کثرت کے معنی میں ہی استعمال ہورہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ہر قل کی حدیث میں ہے اور وہ حدیث صحیح ہے : مقد امرامرابن ابی کبشہ، لیخافہ ملک بنی الاصفر، ای کثر۔ (یعنی ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ ﷺ ہیں) کی تعداد زیادہ ہوگئی تاکہ بنی اصفر کا حاکم اس سے خوفزدہ ہوجائے۔ ) اور یہ سب غیر متعدی ہیں اسی لئے کسائی نے اس کا انکار کیا ہے، واللہ اعلم۔ مہدوی نے کہا ہے : جس نے امرپڑھا ہے تو وہ بھی ایک لغت ہے، اور امر کے متعدی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمر کے مشابہ ہے اس حیثیت سے کہ کثرت کسی شے کو عمارۃ (آبادی) نے زیادہ قریب کرنے والی ہے پس یہ عمر کے متعدی ہونے کی طرح متعدی ہوا۔ اور باقیوں نے امرنا عمارۃ (آبادی) کے زیادہ قریب کرنے والی ہے پس یہ عمر کے متعدی ہونے کی طرح متعدی ہوا۔ اور باقیوں نے امرنا الأمر سے بنایا ہے، یعنی ہم نے انہیں اطاعت کے بارے حکم دیا الزام سے برات کے لئے، خوفزدہ کرنے کے لئے اور وعید سناتے ہوئے، ففسقوا یعنی وہ ہماری نافرمانی کرتے ہوئے ہماری اطاعت سے نکل گئے۔ فحق علیھا القول پس ان پر وعید (ہلاکت و بربادی) واجب ہوگئی، ثابت ہوگئی : یہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : امرنا یعنی ہم نے انہیں امراء بنا دیا، کیونکہ عرب کہتے ہیں : امیر غیر مأمور یعنی امیر وہ ہے جس پر کوئی امیر نہ ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے ہم نے اس کے تکبر کرنے والوں کو بھیج دیا۔ ہارون نے کہا ہے : اور یہ حضرت ابی کی قرات ہے : ” ہم نے اس میں بڑے بڑے مجرم بھیج دیئے اور انہوں نے فسق وفجور کا ارتکاب کیا “۔ اسے ماوردی نے بیان کیا ہے۔ اور نحاس نے بیان کیا ہے : اور ہارون نے ابی کی قرأت میں کہا ہے : اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس میں اس کے بڑے بڑے مجرم بھیج دیتے ہیں پس وہ اس میں مکروفریب کرتے ہیں تو اس پر (عذاب کا) فرمان واجب ہوجاتا ہے۔ واذا اردناان قریۃ بعثنا فیھا اکابر مجرمیھا فمکر وا فیھا فحق علیھا القول، اور یہ بھی جائز ہے کہ امرنا بمعنی اکثرنا ہو، اور اسی سے خیر المال مھرۃ مأمورۃ ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : مامورۃ مأبورۃ کے تابع ہے، جیسا کہ الغدایا والعشایا ہیں اور جیسا کہ آپ کا یہ قول ہے : ارجعن مأزورات غیر مأجورات (گناہ کرنے والیاں بغیر کسی اجر کے لوٹ جائیں۔ ) اور اس بنا پر یہ نہیں کہا جاتا : امرھم اللہ، بمعنی کثرھم (اللہ تعالیٰ نے انہیں زیادہ کردیا) ، بلکہ یہ کہا جائے گا : آمرہ اور امرہ (اس نے اسے زیادہ کردیا) اور ابوعبید اور ابو حاتم نے قرأت عامہ کو اختیار کیا ہے۔ ابوعبید نے کہا ہے : بلاشبہ ہم نے امرنا کو اختیار کیا ہے کیونکہ أمر، امارت اور کثرت میں سے تینوں معنی اس میں جمع ہیں اور المترف سے مراد خوشحال اور رئیس ہے اور انہیں امر کے ساتھ خاص اس لئے کیا ہے کیونکہ ان کے سوا دوسرے لوگ ان کے تابع ہوتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : فدمرنٰھا یعنی ہم ہلاکت کے سبب اسے جڑ سے اکھڑدیتے ہیں۔ تدمیرًا مصدر کا ذکر ان پر واقع ہونے والے عذاب میں مبالغہ کے اظہار کے لئے ہے۔ اور صحیح میں حضرت زینب بنت حجش ؓ جو کہ حضور نبی مکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں ان کی حدیث ہے، انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اس حال میں کہ آپ گھبرائے ہوئے تھے اور آپ کا چہرہ سرخ تھا آپ فرمانے لگے : ” اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں عربوں کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے اس شر سے جو قریب آچکا ہے آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سا سواخ ہوگیا ہے “۔ اور آپ ﷺ نے انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی سے حلقہ سا بنایا۔ آپ فرماتی ہیں : تو میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے حالانکہ ہم میں صالحین موجود ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” ہاں جب خبث (پلیدی) بڑھ جائے گا “۔ اس بارے میں کلام پہلے گزر چکی ہے۔ بیشک گناہ اور معاصی جب جائیں اور انہیں تبدیل نہ کیا جائے تو وہ تمام کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
Top