Al-Qurtubi - Al-Israa : 3
ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا
ذُرِّيَّةَ : اولاد مَنْ : جو۔ جس حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا مَعَ نُوْحٍ : نوح کے ساتھ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا عَبْدًا : بندہ شَكُوْرًا : شکر گزار
اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا تھا، بیشک نوح (ہمارے) شکر گذار بندے تھے
آیت نمبر 3 یعنی یاذریۃ من حملنا، اے ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے (کشتی میں) سوار کرایا ! یہ ندا کی بنا پر ہے : یہ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے اور ان سے اسے ابن ابی نجیح نے روایت کیا ہے اور ذریۃ سے مراد ہر وہ ہے جس پر قرآن سے حجت پیش کی گئی، اور وہ زمین پر بسنے والے تمام لوگ ہیں : اسے مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ اور ماوردی نے کہا ہے : مراد ہر وہ جس پر قرآن سے حضت پیش کی گئی، اور وہی زمین پر بسنے والے تمام لوگ ہیں : اسے مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ اور ماوردی نے کہا ہے : مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل میں سے آپ کی قوم ہے، اور اس کا معنی ہے اے ان لوگوں کی اولا جنہیں ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کیا ! تم شرک نہ کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت توح (علیہ السلام) کا ذکر کیا تاکہ وہ انہیں ان کے آباء کو غرق ہونے سے بجات دلانے کی نعمت یاددلائے۔ اور سفیان نے حمید سے اور انہوں نے حضرت مجاہد ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ذریۃ ذال کے فتحہ اور را اور یا کو تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اس قرأت کو عامر بن واحد نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور حضرت زید بن ثابت ؓ سے بھی ذریۃ ذال کا کسرہ اور را اور یا کی شد مروی ہے۔ پھر بیان فرمایا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) شکر گزار بندے تھے وہ اللہ تعالیٰ کا اس کی ہر نعمت پر شکر ادا کرتے تھے اور ہر خیر اور بھلائی اس کی طرف سے جانتے تھے۔ حضرت قتادہ نے بیان کیا ہے : جب وہ کپڑا پہنتے تھے تو کہتے : بسم اللہ، اور جب اتارتے تو کہتے : الحمدللہ۔ اسی طرح ان سے معمر نے منصور سے اور انہوں نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے جب کھانے لگتے : کہتے بسم اللہ۔ اور جب کھانے سے فارغ ہوتے تو کہتے : الحمد للہ۔ اور حضرت سلمان فارسی ؓ نے بیان کیا ہے : چونکہ وہ اپنے طعام پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے تھے (اس لئے وہ عہد شکور تھے) اور عمران بن سلیم نے بیان کیا ہے : بیشک حضرت نوح (علیہ السلام) کو عبد اشکور کا نام دیا گیا ہے کیونکہ جب آپ کھانا تناول فرماتے تھے تو کہتے : سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے کھانا کھلایا اور اگر وہ چاہتا تو مجھے بھوکا رکھتا، (الحمد للہ الذی أطعمنی ولو شاء لاجاعنی) ، اور جب (پانی وغیرہ) پیتے تو کہتے : سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے سیراب کیا اور اگر وہ چاہتا تو مجھے پیاسا رکھتا۔ (الحمدللہ الذی سقانی ولو شاء لأظمأنی) اور جب آپ لباس پہنتے تو کہتے : سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے پہنایا اور اگر وہ چاہتا تو مجھے ننگارکھتا۔ (الحمدللہ الذی کسانی ولوشاء لأعرانی) اور جب جوتا پہنتے تو کہتے : سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھے جوتا پہنایا ہے اور اگر وہ چاہتا تو مجھے ننگے پاؤں رکھتا۔ (الحمدللہ الذی حذانی ولوشاء لأحفانی) ، اور جب قضاء حاجت کرتے تو کہتے : سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے مجھ سے اذیت (اور تکلف دہ شے) کو باہر نکال دیا اور اگر وہ چاہتا تو اسے میرے اندرروک لیتا۔ (الحمدللہ الذی أخرج عنی الأذی ولوشاء لجسہ فی) اور آیت کا مقصود یہ ہے : بیشک تم حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور وہ شکر گزار بندے تھے پس ان کی اقتدا کرنا تمہارا زیادہ حق ہے نہ کہ اپنے جاہل آباء و اجداد کی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) شکر گزار بندے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے بنایا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ ذریۃ، تتخذوا میں یا اور تا کی قرأت ہے۔ اور دونوں قرأتوں میں ایک ساتھ یہ بھی جائز ہے کہ ذریۃ قول باری تعالیٰ : وکیلا سے بدل ہو کیونکہ یہ جمع کے معنی میں ہے : تو گویا اس نے یہ فرمایا : لاتتخذوا ذریۃ من حملنا مع نوح۔ (تم ان کی اولاد کو نہ بناؤ جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا۔ اور اس کی نصب اعنی اور امدح فعل مضمر کے ساتھ بھی جائز ہے، اور عرب مدح وذم پر نصب دیتے ہیں۔ اور تتخذوا میں مضمر ضمیر سے بدل ہونے کی بنا پر رفع دینا بھی جائز ہے اس کی قرأت میں جس نے یا کے ساتھ پڑھا ہے اور ان کے نزدیک اچھا نہیں جنہوں نے تا کے ساتھ قرأت کی ہے، کیونکہ مخاطب سے غائب بدل بن سکتا۔ اور دونوں صورتوں میں بنی اسرائیل سے بدل قرار دے کر اسے جردینا بھی جائز ہے۔ پس رہا أن۔ قول باری تعالیٰ : الا تتخذوا میں تو یہ ان کی قرات میں حرف جار کے حذف کے ساتھ محل نصب میں ہے جنہوں نے اسے یا کے ساتھ پڑھا ہے، تقدیر کلام ہے : ھدینا ھم لئلایتخذوا (ہم نے ان کی راہنمائی فرمائی تاکہ وہ نہ بنائیں ) ۔ اور تا کی قرأت پر یہ زائدہ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں قول مضمر ہو جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ان مفسرہ بمعنی ای ہو، اور اس کا اعراب میں کوئی محل نہ ہو، اور لا نہی ہو پس یہ خبر سے نہی کی جانب خروج ہوگا۔
Top