Al-Qurtubi - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی۔
آیت نمبر 36 اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : ولا تقف یعنی پیروی نہ کرو اس کی جسے تم جانتے نہیں اور نہ وہ مقصود اور مراد ہوسکتی ہے۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : تو نہ کہہ میں نے دیکھا ہے حالانکہ تو نے نہیں دیکھا، اور میں نے سنا ہے حالانکہ تو نے نہیں سنا، اور میں جانتا ہوں حالانکہ تو نہیں جانتا : اور یہی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : تو اس چیز کے سبب کسی کی مذمت نہ کر جس کے بارے تیرے پاس علم نہیں ہے : اور یہ بھی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ اور حضرت محمد بن حنیفہ ؓ نے کہا ہے : یہ چھوٹے آدمی کا شہادت دینا ہے۔ اور قتبی نے کہا ہے : اس کا معنی ہے ظن اور وہم کی پیری نہ کر۔ اور یہ تمام معانی باہم متقارب ہیں۔ اور القفوکا اصل معنی بہتالگانا اور کسی باطل کی تمہمت لگانا ہے اور اسی سے آپ ﷺ کا ارشاد ہے :” ہم بنونضر بن کنانہ اپنی ماں کی پیروی نہیں کرتے اور نہ ہم اپنے باپ سے نفی کرتے ہیں “۔ یعنی ہم اپنی ماں کو برا نہیں کہیں گے۔ اور کمیت نے کہا ہے : فلا أرمی البرئ بغیر ذنب ولا أتفو الحواصن ان قفینا کہا جاتا ہے : قفوتہ اقفوہ اور قفتہ اقوفہ اور قفیتہ جب تو کسی کے نشان کی پیروی کرے۔ اور اسی سے القافۃ ہے کیونکہ وہ ان کے آثار ونشانات قدم کی پیروی کرتا ہے اور ہر شی کے قافیہ سے مراد اس کا آخر ہوتا ہے، اور اسی سے قافیۃ الشعر بھی ہے، کیونکہ وہ شعرکا آخر ہوتا ہے۔ اور اسی سے حضور نبی مکرم ﷺ کا اسم گرامی المقفی ہے، کیونکہ آپ ﷺ تمام انبیاء (علیہم السلام) کے آخر میں تشریف لائے۔ اور اسی سے لقائف ہے۔ یہ وہ ہے جو کسی شبہ کے اثر اور نشان کا پیچھا کرتا ہے (کھرا تلاش کرنے والا) ۔ کہا جاتا ہے : قاف القائف یقود جب وہ ایسا کرے (یعنی کھرا تلاش کرلے) اور آپ کہتے ہیں : فقوت الاثر (میں نے نشان کا پیچھا کیا) اس میں فاقاف پر مقدم ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : شبہ یہ ہے کہ یہ لفظ ان بعض الفاظ میں سے ہو جس میں عرب کھیل اور تفریح کا عمل کرتے رہتے ہیں، جیسے وہ کہتے ہیں : رعملی فی لعمری میں ایسا کرتے ہیں۔ اور علامہ طبری (رح) نے ایک فرقہ کی جانب سے بیان کیا ہے کہ اس نے کہا ہے : قفاوقاف، جیسا کہ عتاوعات ہے۔ اور منذرین سعید اس طرف گئے ہیں کہ قفا اور قاف جبذ اور جذب کی مثل ہے۔ المختصر یہ کہ یہ آیت جھوٹے قول اور تہمت لگانے سے اور پر اس سے جو جھوٹے اور ردی اقوال میں سے اس کے مشابہ ہو یہ اس سے منع کرتی ہے اور روکتی ہے۔ کسائی نے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں نے تقف قاف کو ضمہ اور فا کو سکون کیساتھ پڑھا ہے۔ اور جراح (قاضی بصرہ) نے دالفآدفا کو فتحہ کیساتھ پڑھا ہے، اور یہ بعض لوگوں کی لغت ہے، اور ابوحاتم وغیرہ نے اسکا انکار کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ ابن خویزمنداد نے کہا ہے : یہ آیت قافہ (آثار دیکھ کر پہچان کرنے والا) کے حکم کو متضمن ہے، کیونکہ جب یہ فرمایا : تم اس کی پیروی نہ کرو جس کے بارے تمہیں علم نہ ہو۔ تو یہ اس کے جواز پر دلیل ہے جس کے بارے ہمیں علم ہو، تو پر وہ چیز جسے انسان جان لے یا اس کے بارے اسے ظن حاصل ہوجائے تو اس کے ساتھ اس کا حکم لگانا جائز ہے، اور اسی سے ہم نے قرعہ اندازی اور تخمینہ لگانے کے اثبات پر استدلال کیا ہے، کیونکہ یہ بھی غلبہ ظن کی ایک قسم ہے، اور اسے وسعت علم کا نام دیا جاتا ہے، پس (اعضاء وآثار دیکھ کر پہچان کرنے والا) بیٹے کو باپ کے ساتھ ان دونوں کے درمیان مشابہت پائے جانے کی وجہ سے ملا دیتا ہے، جیسا کہ ایک فقیہ فرع کو اصل کے ساتھ بطریق مشابہت ملا دیتا ہے۔ اور صحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ انتہائی مسرت و فرحت کی کیفیت میں میرے پاس تشریف لائے آپ کے چہرے کے خدوخال چمک رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا :” کیا تو نہیں جانتی کہ ایک اعضاء بدن دیکھ کر پہچان کرنے والے نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت اسامہ بن زید ؓ کی طرف دیکھا ہے اس حال میں کہ ان دونوں پر ایک چادر تھی وہ اپنے سروں کو ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پاؤں ظاہر تھے تو اس (دیکھنے والے) نے کہا ہے : بیشک ان قدموں کا بعض اس کا بعض ہے “۔ (یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کا جز ہیں۔ ) اور حدیث میں مجزز سے مراد قائف ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ امام ابو عبداللہ مازری نے کہا ہے : زمانہ جاہلیت میں حضرت اسامہ ؓ کے نسب میں جرح قدح ہوتی تھی کیونکہ ان کا رنگ انتہائی زیادہ سیاہ تھا، اور ان کے والد حضرت زید ؓ روئی سے زیادہ سفید تھے، اسی طرح اسے ابو داؤد نے احمد بن صالح سے ذکر کیا ہے۔ اور قاضی عیاض (رح) تعالیٰ نے کہا ہے : اور احمد کے سوا کسی نے کہا کہ حضرت زید ؓ کا رنگ انتہائی صاف اور روشن تھا اور حضرت اسامہ ؓ انتہائی شدید سیاہ رنگ کے تھے اور حضرت زید بن حارثہ ؓ عنہ عربی کلب قبیلہ سے تھے، اور آپ کو قید اور دوری آپہنچی، جیسا کہ اس کا بیان سورة الاحزاب میں آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ جمہور علماء نے بیٹے میں تنازع اور اختلاف کے وقت قیافہ شناس کی طرف رجوع کرنے پر اس سے استدلال کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ اس قیافہ شناس کے قول سے بہت خوش ہوئے اور آپ ﷺ وہ نہیں تھے کہ آپ کو باطل اور غلط طریقہ سے خوش کیا جاسکے اور نہ اس پر تعجب اور خوشی کا اظہار فرماتے۔ اور امام ابوحنیفہ، اسحاق، ثوری اور ان کے اصحاب رحمہم اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح نہیں لیا ہے اور استدلال اس سے کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حدیث کے اصحاب رحمہم اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح نہیں لیا ہے اور استدلال اس سے کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حدیث لعان میں مشابہت کو لغو قرار دیا ہے، جیسا کہ سورة النور میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ قیافہ شناس کے اقوال کو لینے والوں نے اختلاف کیا ہے کہ کیا ان اقوال کو آزاد عورتوں اور لونڈیوں دونوں کی اولاد میں قبول کیا جائے گا یا یہ لونڈیوں کی اولاد کے ساتھ مختص ہے ؟ تو اس کے بارے دو قول ہیں : پہلا قول ہیں : پہلا قول حضرت امام شافعی (رح) اور امام مالک (رح) کا ہے اس روایت میں جو آپ سے ابن وہب (رح) نے نقل کی ہے۔ اور آپ کا مشہور مذہب یہ ہے صرف لونڈی کی اولاد میں محصور ہے۔ اور صحیح وہ ہے جو آپ سے ابن وہب (رح) نے روایت کی ہے اور وہی امام شافعی (رح) نے کہا ہے، کیونکہ وہ حدیث جو اس باب میں اصل ہے بلاشبہ وہ آزاد عوتوں کے بارے میں واقع ہے، کیونکہ حضرت اسامہ اور ان کے والد ؓ دونوں آزاد تھے تو اس سبب کو کیسے لغو قرار دیا جاسکتا ہے جس پر حکم کی دلیل کا انحصار ہے اور وہ اس کا باعث بنا ہے ؟ یہ علماء اصول کے نزدیک صروری ہے کیونکہ یہ شہادت ہے ؟ پہلا قول ابن قاسم نے کہا ہے اور یہی خبر کا ظاہر ہے بلکہ اسکی نص ہے۔ اور دوسرا قول امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ قولہ تعالیٰ : ان السمع النصر والفؤادکل اولٰئک کان عنہ مسولاً یعنی ان میں سے ہر ایک سے اسکے بارے پوچھا جائے گا جو اس نے عمل کیا، پس دل سے اس کے بارے پوچھا جائے گا جس میں اس نے غور فکر کیا اور اسکا اعتقاد بنایا۔ اور کان اور آنکھ سے اس کے بارے پوچھا جائے گا جو اس نے دیکھا اور جو سنا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ انسان سے اس کے بارے پوچھے گا جسے اسکے کان، آنکھ اور اس کے دل نے جمع کیا ہوگا اور اس کی نظیر حضور ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے :” تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی اپنی رعیت کے بارے پوچھا جائے گا “۔ پس انسان اپنے اعضاء پر حاکم ہے، تو گویا فرمایا یہ کہ تمام کے بارے انسان سے پوچھا جائے گا، تو اس صورت میں مضاف حذف ہوگا، لیکن حجت میں پہلا معنی زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ اس کی تکذیب اس کے جوارح سے واقع ہوگی، اور یہ ذلت ورسوائی کی انتہا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : الیوم نختم علیٰ افواھھم و تکلمنآ ایدیھم وتشھد ارجلھم بماکانو ایکسبون۔ (یٰسین) (آج ہم مہر لگا دیں گے کفار کے مونہوں پر اور بات کریں گے ہم سے ان کے ہاتھ اور گواہی دیں گے ان (بدکاریوں پر) جو وہ کمایا کرتے تھے) اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : شھد علیھم سمعھم وابصارھم وجلودھم بما کانوا یعملون۔ (حم السجدہ) (اس وقت) گواہی دیں گے ان کے خلاف ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں اس بارے میں جو وہ کیا کرتے تھے) ۔ اور انہیں سمع، بصر اور فواد سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہ ان کا ارداک کرنے والے حواس ہیں، اور اس آیت میں انہیں مسئولہ بنایا ہے، اور یہ اس کی حالت ہے جو عقل اور سمجھ رکھتا ہے، پس اسی وجہ سے ان کو ان کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ اور سبیویہ نے قول باری تعالیٰ رایتھم لی سٰجدین۔ (یوسف) میں کہا ہے : بلاشبہ انہوں نے کہا : رایتھم میں نے ستاروں میں دیکھا، کیونکہ جب انہیں سجود کے ساتھ متصف کیا اور یہ (سجدہ کرنا) اس کا فعل ہے جو عقل رکھتا ہے تو پھر انہیں کنایۃ ان سے تعبیر کیا جو عقل رکھتے ہیں : اور یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اور زجاج نے بیان کیا ہے کہ عرب ذوالعقول اور غیر ذوالعقول کو ان کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں۔ انہوں نے اور طبری نے یہ شعر بیان کیا ہے : ذم المناذل بعد منزلۃ اللوی والعیش بعد أولئک الأیام یہ امر ہے ان کے نزدیک اس پر وقف کیا جاتا ہے، اور شعر تو اس میں ایک روایت الاقوام کی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top