Al-Qurtubi - Al-Israa : 41
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْا١ؕ وَ مَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا
وَ : لَقَدْ صَرَّفْنَا : البتہ ہم نے طرح طرح سے بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں وَمَا : اور نہیں يَزِيْدُهُمْ : بڑھتی ان کو اِلَّا : مگر نُفُوْرًا : نفرت
اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کی باتیں بیان کی ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں۔
آیت نمبر 41 قولہ تعالیٰ : ولقد صرفنا اور بلاشبہ ہم نے بیان کیا۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے ہم نے بار بار بیان کیا۔ فی ھٰذا القراٰن کہا گیا ہے کہ : فی زائدہ ہے۔ اور تقدیر کلام ہے : ولقد صرفنا ھذا القرآن (بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو بیان کیا) مثلاً : اصلح لی فی ذریتی (الاحقاف :15) ای اصلح ذریتی۔ (میری اولاد کی اصلاح فرما) ۔ اور تصریف کا معنی ہے : کسی شی کو ایک جہت سے دوسری جہت کی طرف پھیرنا۔ اور اس تصریف سے مراد بیان اور تکریر (یعنی باربار کسی چیز کو بیان کرنا) ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد مغایرت ہے یعنی ہم نے مواعظ ونصائح کے انداز کو بدل بدل کر بیان کیا تاکہ وہ غور وفکر کریں، عبرت پکڑیں اور نصیحت حاصل کریں۔ اور عام قرأت صرفنا کثرت کے معنی کی بنا پر نشدید کے ساتھ ہے۔ اور حسن نے اسے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور قول باری تعالیٰ : فی ھٰذا القراٰن اس سے مراد امثال، باعث عبرت قصص، حکمتیں، مواعظ اور احکام واخبار ہیں۔ ثعلبی نے بیان کیا ہے : میں نے ابوالقاسم حسین کو امام شیخ ابوالطیب کی موجودگی میں یہ کہتے سنا ہے کہ قول باری تعالیٰ : صرفنا کے دو معنی ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے (قرآن مجید کو) ایک نوع پر نہیں رکھا بلکہ وعدہ و وعید، محکم و متشابہ، امرونہی، باسخ ومنسوخ اور اخبار وامثال کے متنوع انداز میں بیان کیا ہے، جیسا کہ ہواؤں کو صبا، دبور، جنوب اور شمال کی متنوع اقسام میں چلاتا ہے، اور افعال کو ماضی، مستقبل، امر، نہی، فعل وفاعل اور مفعول وغیرہ کی طرف پھیرا جاتا ہے۔ اور دوسرا معنی یہ ہے کہ اس نے اسے ایک ہی بار نازل نہیں کیا بلکہ آہستہ آہستہ اور تدریجاً نازل کیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : وقراٰ نًا فرقنٰہ (الاسراء :106) اور اس کا معنی ہے ہم نے کثرت سے جبرئیل (علیہ السلام) کو آپ کی طرف بھیجا ہے : لیذکروا (الفرقان :50) یحییٰ ، اعمش، حمزہ اور کسائی رحمہم اللہ تعالیٰ کی قرأت لیذکرواتخفیف کے ساتھ ہے۔ اور اسی طرح فرقان حمید میں ہے : ولقد صرفنہ بینھم لیذکروا (الفرقان :50) اور باقیوں نے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابوعبیدہ نے اسے اختیار کیا ہے، کیونکہ اس کا معنی لیتذکروا لیتعظوا (تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں) ہے مہدوی نے کہا ہے : جنہوں نے لیذکروا کو شددی ہے، انہوں نے اس سے تدبر کرنے اور غورو فکر کرنے کا معنی مراد لیا ہے۔ اور اسی طرح جنہوں نے لیذکروا پڑھا ہے۔ اور پہلے کی نظیریہ ارشاد ہے : ولقد وصلنا لھم القول لعلھم یتذکرون، (القصص) ( اور ہم مسلسل بھجتے رہے ان کی طرف اپنا کلام تاکہ وہ نصیحت قبول کریں ) ۔ اور دوسرے کی نظیر واذکروامافیہ (البقرہ :63) ہے۔ ومایریدھم یعنی باربار بیان کرنے اور نصیحت کرنے نے ان میں اضافہ نہیں کیا۔ الانفورًا مگر حق سے دور کرنے اور نظر و فکر سے غفلت برتنے کا اور یہ اسلئے ہوا کیونکہ انہوں نے قرآن کریم کے بارے یہ اعتقاد رکھا کہ یہ محض حیلہ، سحر، کہانت اور شعر ہے
Top