Al-Qurtubi - Al-Kahf : 76
قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَیْءٍۭ بَعْدَهَا فَلَا تُصٰحِبْنِیْ١ۚ قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًا
قَالَ : اس (موسی) نے کہا اِنْ سَاَلْتُكَ : اگر میں تم سے پوچھوں عَنْ شَيْءٍ : کسی چیز سے بَعْدَهَا : اس کے بعد فَلَا تُصٰحِبْنِيْ : تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا قَدْ بَلَغْتَ : البتہ تم پہنچ گئے مِنْ لَّدُنِّىْ : میری طرف سے عُذْرًا : عذر کو
انہوں نے کہا اگر میں نے اس کے بعد (پھر) کوئی بات پوچھوں (یعنی اعتراض کروں) تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے گا کہ آپ میری طرف سے عذر (کے قبول کرنے میں غایت) کو پہنچ گئے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان سالتک عن شیء بعدھا فلا تصحبنی یہ شرط ہے اور وہ لازم ہے۔ مسلمانوں کے معاملات ان کی شرائط کے مطابق ہوتے ہیں اور جو شرائط پوری کرنے کے زیادہ حقدار ہیں وہ وہ ہیں جن کو انباء لازم کرتے ہیں اور جو انبیاء کے لئے لازم کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قد بلت من لدنی عذرا پہلی مرتبہ کچھ ہوجائے تو مطلقاً عذر خواہی کے قیام پر دلیل ہے اور دوسری مرتبہ قطعی طور پر حجت کے قیام پر دلیل ہے، یہ ابن عربی نے کہا : ابن عطیہ نے کہا ہو سکتا ہے (1) کہ قصہ احکام میں مدتوں کی اصل ہو اور وہ مدت تین دن ہے اور تین دن ہی سے احکام مختلف ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا تصحبنی۔ جمہور نے اسی طرح پڑھا ہے، یعنی آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ اعرج نے تمحبنی تاء اور باء کے فتحہ کے ساتھ اور نون کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے اور تصحبنی بھی پڑھا گیا ہے۔ یعقوب نے تصحبنی تاء کے ضمہ اور حاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، سہل نے اس کو ابو عمرو سے روایت کیا ہے۔ کسائی نے کہا : اس کا معنی ہے تو مجھے نہ چھوڑ کہ میں تیری سنگت اختیار کروں۔ قد بلغت من لدنی عذرا تو میری سنگت چھوڑنے پر معذوری پر پہنچ جائے گا۔ جمہور علماء نے من لدنی وال کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، مگر نافع اور عاصم نے نون کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ اصل میں لدن ہے اس کے ساتھ یاء متکلم متصل ہوئی جو غلامی اور فرسی میں ہوتی ہے یاء کے ماقبل کو کسرہ دیا گیا جس طرح غلامی اور فرسی میں دیا گیا۔ ابوبکر عاصم نے لدنی لام کے فتحہ اور دالل کے سکون اور نون کی تخفیف کے ساتھ روایت کیا ہے۔ عاصم سے لدنی لام کے ضمہ اور دال کے سکون کے ساتھ مروی ہے۔ ابن مجاہد نے کہا : یہ غلط ہے۔ ابو علی نے کہا : یہ تغلیط روایت کی جہت سے ہونے کے مشابہ ہے رہا عربیت کے قیاس کی بنا پر تو یہ صحیح ہے۔ جمہور نے عذراً پڑھا ہے۔ عیسیٰ نے عذراً ذال کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ دانی نے حکایت کیا ہے کہ حضرت ابی نے نبی کریم ﷺ سے ” عذری “ راء کے کسرہ اور اس کے بعد یائء کے ساتھ روایت کیا ہے۔ مسئلہ : طبری نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے (1) فرمایا : نبی پاک ﷺ جب کسی کے لیے دعا کرتے تو پہلے اپنا ذکر کرتے ایک روایت میں فرمایا : ” رحمۃ اللہ علینا وعلی موسیٰ “ اگر وہ اپنے ساتھی کے ساتھ صبر کرتے تو عجیب چیزیں دیکھتے، لیکن انہوں نے کہا : ” فلا تصحبنی ج قد بلغت من لدنی عذرا۔ اور صحیح مسلم میں ہے (2) نبی پاک ﷺ نے فرمایا : رحمۃ اللہ علینا وعلی موسیٰ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جلدی نہ کرتے تو عجیب باتیں دیکھتے لیکن انہیں اپنے ساتھی کی طرف سے عار نے آلیا اگر وہ صبر کرتے تو عجیب چیزیں دیکھتے “ فرمایا : جب آپ کسی نبی کا ذکر کرتے تو پہلے اپنا ذکر کرتے، آپ فرماتے : ” رحمۃ اللہ علینا وعلی اخی کذا “۔ اور بخاری میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے ( 3) فرمایا : ” یرحم اللہ موسیٰ لوددنا أنہ صبر حتی یقص علینا من امرھما “۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ہماری خواہش تھی کہ آپ صبر کرتے تاکہ ہم پر ان کے معاملات بیان کئے جاتے۔ مسلم کی حدیث میں ذمامۃ کا لفظ آیا ہے، یہ المذمۃ (ذال کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ) کے معنی میں ہے جس کا معنی ہے حرمت کے ترک پر عار اور رقت محسوس کرنا۔ کہا جاتا ہے : اخذتنی منک مذمۃ ومذمۃ وذمامۃ۔ گویا وہ مخالفت کے تکرار سے شرم محسوس کرنے لگے اور انکار کی تغلیظ کی جوان سے صادر ہوئی اس پر رقت محسوس کرنے لگے۔
Top