Al-Qurtubi - Al-Kahf : 90
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًاۙ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَطْلِعَ : طلوع ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے اس کو پایا تَطْلُعُ : طلوع کر رہا ہے عَلٰي قَوْمٍ : ایک قوم پر لَّمْ نَجْعَلْ : ہم نے نہیں بنایا لَّهُمْ : ان کے لیے مِّنْ دُوْنِهَا : اس کے آگے سِتْرًا : کوئی پردہ
یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے جن کے لئے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لم نجعل لھم من دونھا شترا۔ یعنی ایسا حجاب جس کے ساتھ وہ سورج کے طلوع ہونے کے وقت چھپتے۔ قتادہ نے کہا : ان کے اور سورج کے درمیان کوئی پردہ نہ تھا وہ ایسی جگہ میں تھے جہاں کوئی عمارت ٹھہرتی نہیں تھی وہ سرنگوں میں رہتے تھے حتیٰ کہ جب سورج ڈھل جاتا تھا تو وہ اپنے مال، مویشی اور کھیتوں کی طرف لوٹتے تھے یعنی وہ سورج سے نہ کسی پہاڑ کی غار میں چھپ سکتے تھے اور نہ کسی گھر میں چھپ سکتے تھے۔ امیہ نے کہا : میں نے کچھ لوگوں کو سمرقند میں پایا ہے جو ان لوگوں کے متعلق بیان کرتے ہیں۔ بعض نے کہا : میں چین کی طرف چلا تو مجھے کہا گیا تیرے اور ان کے درمیان ایک دن اور ایک رات کی مسافت ہے، میں نے ایک شخص کو اجرت پر لیا تاکہ وہ مجھے وہ قوم دکھائے حتیٰ کہ میں نے صبح ان کے پاس کی، میں نے دیکھا کہ ان کا ایک شخص اپنا ایک کان نیچے بچھاتا تھا اور دوسرا کان اوپر لپیٹ لیتا تھا۔ میرا ساتھی ان سے اچھی طرح کلام کرتا تھا ہم نے ان کے ساتھ رات گزاری، انہوں نے پوچھا : تم کیسے آئے ہو ؟ ہم نے کہا : ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ دیکھیں کہ سورج کیسے طلوع ہوتا ہے ؟ ہم اسی اثناء میں تھے کہ ہم نے گھنٹی کی ہیت کی آواز سنی تو میں مدہوش ہوگیا پھر مجھے افاقہ ہوا تو وہ مجھے تیل کی مالش کر رہے تھے۔ جب پانی پر سورج طلوع ہوا تو پانی پر زیتون کے تیل کی ہیت کی طرح تھا، جب آسمان کی طرف پر تھا تو خیمہ کی مانند تھا جب مزید بلند ہوا تو انہوں نے مجھے ایک سرنگ میں داخل کیا، جب سورج بلند ہوا اور ان کے سروں سے ڈھل گیا تو وہ مچھلیوں کے شکار کے لیے نکلے وہ مچھلیوں کو سورج کے سامنے کرتے تھے تو وہ پک جاتی تھیں۔ ابن جریج نے کہا : ایک دفعہ ان کے پاس ایک لشکر آیا تو انہوں نے لشکر والوں کو کہا : سورج کے طلوع ہونے کے وقت تم یہاں نہ ہونا۔ انہوں نے کہا : ہم سورج کے طلوع ہونے تک یہاں ٹھہریں گے۔ انہوں نے کہا : یہ ہڈیاں کیسی ہیں ؟ انہوں نے کہا : یہ ایک لشکر کی ہڈیاں ہیں جن پر سورج طلوع ہوا تھا پس وہ مر گئے تھے۔ فرمایا : وہ زمین میں پیٹھ پھیر کر بھاگ گئئے۔ حسن نے کہا : ان کی زمین ایسی تھی کہ نہ کوئی پہاڑ تھا اور نہ درخت اور ان کی زمین عمارت کو برداشت نہیں کرتی تھی جب ان پر سورج طلوع ہوتا تو وہ پانی میں اتر جاتے تھے جب سورج بلند ہوجاتا تو وہ نکل آتے تھے اور وہ جانوروں کی طرح چرتے تھے (1) میں کہتا ہوں : یہ تمام اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں کہ وہاں کوئی شہر نہیں تھا۔ بعض اوقات ان میں سے کوئی نہر میں داخل ہوتا بعض سرنگ میں داخل ہوتے۔ حسن اور قتادہ کے قول میں کوئی تضاد نہیں۔
Top