Al-Qurtubi - Al-Kahf : 94
قَالُوْا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَ مَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلٰۤى اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهُمْ سَدًّا
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ : اے ذوالقرنین اِنَّ : بیشک يَاْجُوْجَ : یاجوج وَ : اور مَاْجُوْجَ : ماجوج مُفْسِدُوْنَ : فساد کرنیوالے (فسادی) فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَهَلْ : تو کیا نَجْعَلُ : ہم کردیں لَكَ : تیرے لیے خَرْجًا : کچھ مال عَلٰٓي : پر۔ تاکہ اَنْ تَجْعَلَ : کہ تو بنادے بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان سَدًّا : ایک دیوار
ان لوگوں نے کہا کہ ذوالقرنین ! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں بھلا ہم آپ کے لئے خرچ (کا انتظام) کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے دریمان ایک دیوار کھینچ دیں ؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قالوا یذا القرنین۔ یعنی ایک صالح قوم نے اسے کہا : ان یاجوج وماجوج مفسدون فی الارض اخفش نے کہا : یاجوج ہمزہ کے ساتھ ہے اور دونوں الفوں کو اصل سے بنایا ہے انہوں نے کہا : یاجوج کا وزن یفعول ہے اور ماجوج کا وزن مفعول ہے گویا یہ اجیج النار سے مشتق ہیں اور جو مہموز نہیں بناتے وہ دونوں الفوں کو زائد بناتے ہیں وہ کہتے ہیں : یاجوج یججت سے ہے اور ماجوج مججت سے ہے اور یہ دونوں غیر منصرف ہیں۔ روبہ نے کہا : لوان یاجوج وماجوج معا وعاد عاد واستجاشوا تبعا یہ جوہری نے ذکر کیا ہے۔ بعض علمائء نے فرمایا : دونوں غیر منصرف ہیں کیونکہ دونوں اسم عجمی ہیں جیسے طالوت اور جالوت، غیر مشتق ہیں ان کے غیر منصرف ہونے کے اسباب عجمہ اور تعریف اور تانیث ہیں اور ایک جماعت نے کہا : یہ آج اور اجج سے مشتق ہو کر معرب ہیں۔ ان کے غیر منصرف ہونے کی علتیں تعریف اور تانیث ہیں۔ ابوعلی نے کہا : یہ بھی جائز ہے کہ یہ دونوں عربی لفظ ہوں جس نے ہمزہ سے یاجوج پڑھا ہے یہ اس کے نزدیک یربوع کی طرح یفعول کے وزن پر ہو جیسے تیرا قول ہے : اجت النار، اسی سے الجیج ہے، یعنی روشن کی گئی آگ اسی سے ملح اجاج ہے اور جس نے ہمزہ سے نہیں پڑھا ممکن ہے اس نے ہمزہ میں تخفیف کر کے اسے الف سے بدل دیا ہو جیسے راس ہے۔ رہا یاجوج یہ اج سے مفعول کے وزن پر ہے دونوں کلمے اشتقاق میں ایک اصل سے ہیں اور جس نے ہمزہ سے نہیں پڑھا جائز ہے کہ اس نے ہمزہ میں تخفیف کی ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ مج سے فاعول کے وزن پر ہو اور تانیث اور تعریف کی وجہ سے غیر منصرف ہے گویا یہ قبیلہ کا اسم ہے ان کے فساد میں اختلاف ہے۔ سعید بن عبدالعزیز نے کہا : ان کا (فساد برپا کرنا یہ تھا کہ وہ) بنی آدم کو کھاتے تھے۔ ایک جماعت نے کا ان کا فساد متوقع ہے یعنی وہ فساد کریں، پس انہوں ان سے بچائو کی وجہ کو تلاش کیا۔ ایک جماعت نے کہا : ان کا فساد ظلم، زیادتی، قتل اور وہ تمام شر انگیزیاں ہیں جو انسانیت میں معروف ہیں۔ واللہ اعلم۔ یاجوج، ماجوج کی صفات، ان کے خروج کے بارے میں اخبار وارد ہیں۔ وہ یافت کی اوللاد سے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نببی کریم ؛ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” حضرت نوح علیہ اللسلام کے تین بیٹے ہوئے، سام، حام اور یافث، پھر سام سے عرب، فارس اور روم پیدا ہوئے اور ان میں خیر ہے۔ یافث سے یاجوج، ماجوج، ترک اور صقالبۃ پیدا ہوئے اور ان میں خیر نہیں ہے۔ اور حام سے قبط، بربر اور سودان پیدا ہوئے۔ “ کعب احبار نے کہا : حضرت آدم (علیہ السلام) کو احتلام ہوا ان کا پانی مٹی سے ملا تو انہوں نے افسوس کیا پس اس پانی سے یاجوج ماجوج پیدا کیے گئے۔ یہ باپ کی طرف سے ہمارے ساتھ متصل ہیں اور ماں کی طرف سے متصل نہیں اس میں نظر ہے کیونکہ انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم وسلامہ کو احتلام نہیں ہوتا۔ یہ یافث کی اولاد سے ہیں ؛ اسی طرح مقاتل وغیرہ نے کہا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” ان کا کوئی آدمی فوت نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس کی پشت سے ہزار افراد پیدا ہوچکے ہوتے ہیں یعنی یاجوج وماجوج “۔ حضرت ابو سعید نے کہا : یاجوج وماجوج کے علاوہ یہ پچیس قبائل ہیں ان میں سے اور یاجوج وماجوج میں سے کوئی شخص فوت نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس کی پشت سے ہزار افراد پیدا ہوچکے ہوتے ہیں یعنی یاجوج ماجوج “ حضرت ابو سعید نے کہا : یاجوج وماجوج کے علاوہ یہ پچیس قبائل ہیں ان میں سے اور یاجوج وماجوج میں سے کوئی شخص فوت نہیں ہوتا حتیٰ کہ اس کی پشت سے ہزار آدمی پیدا ہوچکے ہوتے ہیں، یہ قشیری نے ذکر کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا : میں نے نبی کریم ﷺ سے یاجوج وماجوج کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” یاجوج اور ماجوج دو امتیں ہیں ہر امت چار لاکھ امت ہے ان کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ان میں سے کوئی شخص نہیں مرتا حتیٰ کہ اس کے اس کی صلب سے ہزار افراد پیدا ہوچکے ہوتے ہیں، تمام کے تمام ہتھیار اٹھا چکے ہوتے ہیں۔ “ عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے ان کی صفت بیان فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ تین قسمیں ہیں ان میں سے ہر صنوبر کے درخت کی مثل ہے، ایک درخت شام میں ہے اس درخت کی لمبائی ایک سو بیس ہاتھ ہے۔ ایک قسم وہ ہے جس کا عرض اور طول برابر ہے جیسے ہاتھ ہے۔ ایک قسم وہ ہے جو ایک کان بچھونا بناتے ہیں اور دوسرے کان کو لحاف بناتے ہیں وہ کسی ہاتھی، وحشی اور خنزیر سے گزرتے ہیں تو اسے کھا جاتے ہیں اور جوان میں سے مر جاتا ہے اسے بھی کھا جاتا ہیں ان کا مقدمہ شام میں ہوگا اور ان کا ساقہ خراسان میں ہوگا۔ وہ مشرق کی نہریں اور بحیرہ طربہ کو پی جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اور بیت المقدس سے روک لے گا “ (1) ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : میں سے ایک قسم لمبائی میں ایک بالشت ہے ان کے پنجے ہیں اور درندوں جیسی کچلیاں ہیں، کبوتر کی طرح ہلاتے ہیں، جانوروں کی طرح جفتی کرتے ہیں اور بھیڑیوں کی طرح غراتے ہیں اور ان کے بال انہیں گرمی اور سردی سے بچاتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے کان ہیں۔ ایک وبرہ ہے جس میں وہ سردیاں گزارتے ہیں اور دوسرا جلدہ ہے جس میں وہ گرمیاں گزارتے ہیں وہ دیوار کو کھودتے ہیں حتیٰ کہ وہ سوراخ کرنے کے قریب پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پھر اسے پہلے کی طرح بھر دیتا ہے حتیٰ کہ وہ کہیں گے : گل انشاء اللہ ہم اس کا سوراخ مکملل کریں گے اور باہر نکل آئیں گے، لوگ اپنے قلعوں میں پناہ لیں گے وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے وہ تیر ان کی طرف خون میں لت پت لوٹایا جائے گا پھر اللہ تعالیٰ انہیں اس کیڑے سے ہلاک کرے گا جو ان کی گردنوں میں نکلے گا ؛ یہ غزنوی نے ذکر کیا ہے۔ حضرت علی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ ” یاجوج ایک امت ہے اس کے چار سو امیر ہیں اور اسی طرح ماجوج ہے ان کا کوئی فرد نہیں مرتا حتیٰ کہ وہ اپنی اولاد سے ہزار شہسوار دیکھ لیتا ہے۔ “ میں کہتا ہوں : حضرت ابوہریرہ ؓ سے حدیث مروی ہے (2) جیسے ابن ماجہ نے انن میں تخریج کیا ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” یاجوج وماجوج ہر روز دیوار کو کھودتے ہیں جب وہ سورج کی شعاع دیکھنے کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کے اوپر جو مسلط ہوتا ہے وہ کہتا ہے : اب واپس چلے جائو باقی کل کھودنا تو اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے زیادہ مضبوط کر کے بھر دیتا ہے حتیٰ کہ جب ان کی مدت پوری ہوگی اور اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں پر بھیجنے کا ارادہ کرے گا تو وہ دیوار کو کھودیں گے حتیٰ کہ سورج کی شعاع دیکھنے کے قریب پہنچ جائیں گے تو وہ کہے گا : اب واپس چلے جائو پھر کل انشاء اللہ تم اسے کھو دو گے پس وہ انشاء اللہ کہیں گے تو پھر وہ لوٹ کر اس کی طرف آئیں گے تو وہ اسی طرح ہوگی جس طرح وہ چھوڑ کر گئئے ہوں گے وہ پھر اسے کھو دیں گے اور لوگوں پر نکل آئیں گے وہ سارا پانی نکالیں گے لوگ اپنے قلعوں میں اپنا بچائو کریں گے پھر وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے تو ان پر خون لوٹے گا۔ “ الذی احفظ۔ پس وہ کہیں گے : ہم اہل زمین پر غالب آگئے اور ہم اہل آسمان پر بھی غالب آگئے۔ اللہ تعالیٰ ان پر ایک کیڑا مسلط فرمائے گا جو ان کی گدیوں میں پیدا ہوگا پس اللہ تعالیٰ انہیں اس کے ذریعے قتل کر دے گا۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! زمین کے کیڑے یاجوج وماجوج کا گوشت کھانے کی وجہ سے موٹے ہوجائیں گے اور خوب خون سے بھر جائیں گے “ (1) جوہری نے کہا : شکرت الناقۃ تشکرشکرافھی شکرت واشکر الضرع امتلاء لبنا۔ یعنی اونٹنی کی کھیری دودھ سے بھر گئی۔ وہب بن منبہ نے کہا : ان کو ذوالقرنین نے دیکھا ان میں سے ایک کے قد کی لمبائی ہم میں سے درمیانے قد والے شخص کے نصف کے برابر تھی۔ ان کے ناخنوں کی جگہ پنجے تھے۔ اور ان کے درندوں کی طرح داڑھیں اور کجلیاں اور اونٹوں کی طرح ان کے جبڑے تھے وہ بالوں والے تھے ان پر اتنے بال تھے کہ وہ انہیں چھپا دیتے تھے، ہر ایک کے بڑے بڑے کان تھے۔ ایک کان کو لحاف بناتے اور دوسرے کان کو بچھونا بناتے تھے۔ ان میں ہر ایک کی عمر معلوم نہیں ان میں سے کوئی نہیں مرتا حتیٰ کہ اس کی پشت سے ہزار مرد پیدا ہوجاتے تھے۔ اگر وہ مذکر ہوتا تھا اور اس کے رحم سے ہزار مؤنث پیدا ہوجاتے تھے اگر وہ مونث ہوتی۔ سدی اور ضحاک نے کہا : ترک، یاج وما جوج سے ایک جماعت ہے جو ان سے نکلی ہے تبدیل ہوچکی ہے۔ ذوالقرنین آیا تو اس نے دیوار تعمیر کی پس وہ دیوار کی دوسرے جانب ہیں۔ سدی نے کہا : وہ دیوار اکیس قبائل پر بنائی گئی ہے۔ ان میں سے ایک قبیلہ دیوار سے باہر رہ گیا اور وہ ترک ہیں ؛ یہ قتادہ کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : جب یہ ہے تو نبی کریم ﷺ نے ترکوں کی اسی طرح صفت بیان کی جس طرح یاجوج وماجوج کی بیان کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” قیات قائم نہ ہوگی حتیٰ کہ مسلمان ترکوں سے لڑیں گے وہ ایسی قوم ہے جن کے چہرے ایسی ڈھاللوں کی طرح ہیں جن پر تہہ در تہہ کھا لیں چڑھائی گئی ہوں، وہ بالوں کا لباس پہنیں گے اور بالوں میں چلیں گے “ (2) ایک روایت میں ہے ” وہ بالوں کے جوتے بنائیں گے۔ “ اس حدیث کو مسلم، ابو دائود و غیر ہما نے روایت کیا ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے ان کی کثرت تعداد اور ان کی شوکت کی حدت جان لی تو فرمایا : ” ترکوں کو چھوڑے رکھو جس وقت تک وہ تمہیں چھوڑے رہیں (3) ان سے اس وقت اتنی امتیں نکلیں جن کی تعداد کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور مسلمانوں سے انہیں صرف اللہ تعالیٰ نے ہی روکا حتیٰ کہ گویا وہ یاجوج وماجوج ہیں یا ان کا مقدمہ ہیں۔ “ ابو دائود نے ابوبکرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” میری امت سے کچھ لوگ کھلی ہموار جگہ پر اتریں گے جو نہر کے پاس ہے وہ اس جگہ کو بصرہ کہیں گے اور اس نہر کو دجلہ کہا جاتا ہوگا اس کے اوپر ایک پل ہوگا اس کے رہنے والے زیادہ ہوں گے اور وہ مہاجرین کے شہروں سے ہوگا۔ “ ابن یحییٰ نے کہا : ابو معمر نے کہا : یہ آخر زمانہ میں ہوگا۔ بنو قنطور یا جوڑے ہوئے مونہوں والے، چھوٹی آنکھوں والے آئیں گے حتیٰ کہ وہ نہر کے کنارے اتریں گے پھر وہ لوگ تین فرقوں میں بٹ جائیں گے۔ ایک فرقہ گائیوں کی دم پکڑے گا اور بریت کو اختیار کرے گا اور وہ ہلاک ہوجائیں گے۔ ایک گروہ اپنے نفسوں کو اختیار کرے گا اور وہ کفر کریں گے اور ایک فرقہ اپنی عورتوں اور بچوں کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے رکھے گا اور وہ ان سے لڑیں گے اور وہ شہداء ہیں۔ ببنو قنطور اسے مراد ترک ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قنطوراء ایک لونڈی کا نام ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تھی اس سے آپ کی اولاد ہوئی تو ان کی نسل سے ترک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے : فھل نجعل لک خرجاً علی ان تجعل بیننا وبینھم سدا۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فھل نجعل لک خرجا۔ یہ استفہام حسن ادب کے اعتبار سے ہے۔ خرجاً کا معنی ہے کچھ مال، خراجاً بھی پڑھا گیا ہے۔ الخرج، الخراج سے خاص ہے۔ کہا جاتا ہے : ادخرج رأسک وخراج مدینتک۔ ازہری نے کہا : الخراج کا اطلاق ٹیکس پر ہوتا ہے اور مال فی پر بھی ہوتا ہے اور جزیہ پر بھی ہوتا ہے اور غلہ پھر بھی ہوتا ہے اور الخراج اس کو کہا جاتا ہے جو اموال میں سے فرضی حصہ نکالا جاتا ہے اور الخراج مصدر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : علی ان تجعل بیننا وبینھم سدا۔ یعنی ردم (دیوار) ، ردم اس کو کہتے ہیں جس کا بعض، بعض پر جوڑا گیا ہو حتیٰ کہ وہ مل جائے۔ ثوب مردم وہ کپڑا جو جوڑا گیا ہو ؛ ہر وی کا یہ قول ہے، کہا جاتا ہے : ردمت الثلمۃ اردمھا ردماً ۔ میں سوراخ ببند کردیا۔ الردم اسم ہے اس کا معنی دیوار بھی ہے کسی چیز کو کسی چیز پر رکھنا خواہ پتھر ہو، مٹی ہو یا کوئی اور چیز ہو حتیٰ کہ اس کے ساتھ مضبوط پردہ بنجائے گا اس سے ردم ثوبہ۔ جب اس پر مزید کپڑے لگائئے جائیں بعض بعض پر جڑے ہوئے ہوں۔ اسی سے عشرہ کا قول ہے : ھل غادر الشعراء من متردم یعنی ایسا قول جس کا بعض بعض پر مرکب کیا گیا ہو۔ اور سداً ۔ سین پر فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ خلیل اور سیبویہ نے کہا : سین کے ضمہ کے ساتھ اسم ہے اور فتحہ کے ساتھ مصدر ہے۔ کسائی نے کہا : ضمہ اور فتحہ کے ساتھ دونوں لغتیں ہیں دونوں کا معنی ایک ہے۔ عکرمہ، ابو عمرو بن العلاء اور ابو عبیدہ نے کہا : جو اللہ کی تخلیق سے ہو اس میں کوئی کسی عمل سے شریک نہ ہو تو وہ ضمہ کے ساتھ ہے اور جو بشر کے عمل سے ہو وہ فتحہ کے ساتھ پڑھنا واجب ہے اور اس سے پہلے بین السدین ضمہ کے ساتھ پڑھنا واجب ہے ؛ یہ حمزہ اور کسائی کی قرأت ہے۔ ابو حاتم نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ سے ابو عبیدۃ کے قول کا برعکس مروی ہے، اببن ابی اسحاق نے کہاٖ : جس کو تیری آنکھیں دیکھیں وہ سد (ضمہ کے ساتھ) ہے اور جس کو آنکھیں نہ دیکھیں وہ سد (سین کے فتحہ کے ساتھ) ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس آیت میں جیل خانے بنانا اور فسادیوں کو ان میں قید کرنا اور انہیں تصرف سے روک دینا جائز ہے اور ان فسادیوں کو اپنے حال پر نہیں رہنے دیا جائے گا بلکہ ان کو سزا دی جائئے گی یا ان سے ضامن لیے جائیں گے اور انہیں چھوڑ دیا جائے گا جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے کیا تھا۔
Top