Al-Qurtubi - Al-Kahf : 99
وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَئِذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًاۙ
وَتَرَكْنَا : اور ہم چھوڑ دیں گے بَعْضَهُمْ : ان کے بعض يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّمُوْجُ : ریلا مارتے فِيْ بَعْضٍ : بعض (دوسرے) کے اندر وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ : اور پھونکا جائے گا صور فَجَمَعْنٰهُمْ : پھر ہم انہیں جمع کرینگے جَمْعًا : سب کو
(اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کرلیں گے
(تفسیر آیت 99-110) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وترکنا بعضھم یومئذ یموج فی بعض۔ ترکنا من ضمیر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے یعنی ہم جن و انس کو قیامت کے روز واگزار کردیں گے وہ (تند موجوں کی طرح) ایک دوسروں میں گھس جائیں گے۔ بعض نے کہا : ہم یاجوج وماجوج کو واگزار کردیں گے۔ یومئذ اس دیوار کے کمال کے وقت وہ ایک دوسرے میں گھس جائیں گے۔ ان کے موج کا استعارہ حیرت سے عببارت ہے اور ان کے تردد سے عبارت ہے جیسے غم اور خوف کی وجہ سے نڈھال لوگ ہوتے ہیں انہیں دریا کی موج سے تشبیہ دی ہے جس کی موجیں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں۔ بعض نے کہا : اس کا مطلب ہے ہم یاجوج و ماجوج کو دیوار کے کھلنے کے دن دنیا میں دریا کی موجوں کی طرح کردیں گے کثرت کی وجہ سے خلط ملط ہوجائیں گے۔ میں کہتا ہوں : یہ تین اقوال ہیں ان میں سے اظہر دوسرا قول ہے اور زیادہ بعید آخری قول ہے۔ پہلا قول حسن ہے کیونکہ فاذا جاء وعدربی کے ارشاد کی تاویل میں قیامت کا ذکر گزر چکا ہے۔ فجمعنہم جمعاً ۔ یعنی قیامت کے میدان میں جن و انس کو ہم جمع کریں گے۔ وعرضنا جہنم یعنی ان کے لیے ہم جہنم کو ظاہر کریں گے۔ یومئذ للکفرین عرضا۔ الذین کا نت اعینھم اسم موصول کافرین کی صفت کی بناء پر محل جر میں ہے۔ فی غطاء عن ذکری وہ اس آنکھ کی طرح ہیں جو ڈھانپی گئی ہے وہ اللہ کے دلائل (توحید) کو دیکھتی ہی نہیں۔ وکانوا لا یستطیعون سمعا۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سننے کی طاقت نہیں رکھتے وہ بہرے شخص کی طرح ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : افحسب الذین کفروا حسبب کا معنی ہے گمان کیا۔ حضرت علی، عکزہ، مجاہد اور ابن محیصن نے افحسبب سین کے سکون اور باء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے یعنی انہیں کافی ہے۔ ان یتخذوا عبادی یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، ملائکہ اور حضرت عزیز علیہ السللام۔ من دونی اولیآء من انہیں سزا نہیں دوں گا۔ کلام میں حذف ہے۔ زجاج نے کہا : اس کا معنی ہے کیا انہوں نے گمان کیا ہے کہ انہیں یہ نفع دے گا ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا۔ الذین ضل سذعیھم فی الحیوۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا۔ اولئک الذین کفروا بایت ربھم ولقآئہ فحبطت اعمالھم فلا نقیم لھم یوم القیمۃ وزنا۔ اس میں دو مسئلے ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ قل ھل ننبئکم آیۃ۔ اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ لوگوں میں سے جو عمل کرتا ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے وہ اچھائی کرنے والا ہے حالانکہ اس کی محنت رائیگان ہوچکی ہوتی ہے اور جو چیز اس کی محنت کے ضیاع کا باعث بنتی ہے وہ اس کے عقیدہ کی خرابی ہے یا ریاکاری ہے اور یہاں کفر مراد ہے۔ امام بخاری نے مصعب سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے اپنے باپ سے پوچھا : قل ھل ننبئکم بالخسرین اعمالا۔ سے مراد حروریہ (خوارج) ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : نہیں وہ یہود و نصاریٰ ہیں کیونکہ یہود حضرت محمد ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں اور نصاریٰ جنت کا انکار کرتے ہیں، انہوں نے کہا : اس میں کھانا، پینا نہیں ہے اور حروریہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پختہ عہد کرنے کے بعد عہد کو توڑا۔ حضرت سعد انہیں فاسقین کہتے تھے۔ آیت میں تو بیخ ہے یعنی ان کفار کو کہو جو میرے علاوہ کی عبادت کرتے ہیں ان کی سعی اور ان کی امنگیں کل قیامت کے روز سب خائب و خاسر ہوں گی۔ پس یہی لوگ اعمال کے اعتبار سے گھاٹے میں ہیں۔ الذین ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا۔ یعنی میرے سوا کوئی عبادت میں گمان رکھتے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا : وہ حروراء کے خوارج ہیں۔ مرۃ نے کہا : وہ راہب ہیں جو صوامع میں رہتے ہیں۔ روایت ہے کہ اببن الکوائء نے الاخسرین اعمالا کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : اس سے مراد تو اور تیرے ساتھی ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا : ان تمام اقوال کو اس کے بعد والا قول کمزور کردیتا ہے وہ یہ ہے : اولئک الذین کفروا بایت ربھم ولقآئہ فحبطت اعمالھم اور ان گروہوں میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ ، اس کی ملاقات، بعث اور نشور کا انکار نہیں کرتا۔ یہ مشرکین مکہ کی صفت ہے جو بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ حضرت علی اور حضرت سعد ؓ نے ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس آیت سے اپنا حصہ لیا۔ اعمالا۔ پر نصب تمیز کی بناء پر ہے۔ حبطت۔ جمہور کی قرأت باء کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ حضرت ابن عبب اس ؓ نے باء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ (1) مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا نقیم لھم یوم القیمۃ وزنا۔ جمہور کی قرأت نقیم نون عظمت کے ساتھ ہے۔ مجاہد نے یاء غائب کے ساتھ پڑھا یعنی اللہ قائم فرمائے گا۔ عبید بن عمیر نے فلا یقوم پڑھا ہے اسے وزن پڑھنا لازم ہے اسی طرح مجاہدنے، فلا یقوم لھم یوم القیاۃ وزن پڑھا ہے۔ عبید بن عمیر نے کہا : قیامت کے روز ایک بہت لمبے تڑنگے، زیادہ کھانے پینے والے کو لایا جائے گا اللہ کی بارگاہ میں مچھر کے برابر بھی وزن نہ ہوگا۔ میں کہتا ہوں : ایسا قول رائے سے تو نہیں کہا جاتا۔ اس کا معنی بخاری و مسلم کی صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً مروی ہے (2) ، نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” قیامت کے روز ایک بڑے موٹے شخص کو لایا جائے گا اللہ کی بارگاہ میں مچھر کے برابر بھی اس کا وزن نہ ہوگا۔ اگزر چاہو تو یہ پڑھ لو، فلا نقیم لھم یوم القیمۃ وزنا۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا ثواب نہ ہوگا اور ان کے اعمال کے مقابل عذاب ہوگا، ان کی کوئی نیکی نہ ہوگی کہ قیامت کے میزانوں میں اس کا وزن کیا جائے اور جس کی کوئی نیکی نہ ہوگی وہ آگ میں ہوگا۔ حضرت ابو سعید خدری نے کہا : تہامہ پہاڑ کی طرحاعمال کے ساتھ لایا جائے گا لیکن ان کا کچھ وزمن نہ ہوگا۔ بعض نے فرمایا : یہ بھی احتمال ہے کہ مجاز اور استعارہ مراد ہو گویا فرمایا : ہمارے نزدیک اس دن ان کی کوئی قدر نہ ہوگی۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث میں فقہ یہ ہے کہ اس موٹاپے کی مذمت کی گئی ہے جو تکلفاً حاصل کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے کھانے پینے کا تکلف کرنا ہوگا اور مکارم سے دوری ہوگی، بلکہ یہ دلیل ہے کہ کفایت کی قدر سے زائد کھانا حرام ہے جس کے ساتھ ترفہ اور موٹاپا مطلوب ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین شخص موٹا دینی پیشوا ہے۔ “ (3) عمران بن حصین نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” تم میں سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر جو اس کے ساتھ مصل ہوں گے۔ “ عمران نے کہا : میں نہیں جانتا، آپ ﷺ نے اپنے زمانہ کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین زمانوں کا ذکر کیا۔ پھر فرمایا : ” تمہارے بعد ایک قوم ہوگی جو گواہی دیں گے جبکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی، وہ خیانت کریں گے اور امین نہ ہوں گے، نذریں مانیں گے اور نذر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوگا۔ “ یہ مذمت ہے اس کا سبب یہ ہے کہ موٹاپا جو حاصل کیا جاتا ہے وہ کثرت سے کھانے اور حرص کرنے، آرام اور امن سے رہنے اور نفس کو شہوات پر چھوڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پس وہ اپنے نفس کی عبادت کرنے والا ہے، اپنے رب کی عبادت کرنے والا نہیں اور جس کی یہ حالت ہو وہ حرام میں واقع ہوتا ہے اور ہر وہ گوشت جو حرام سے پیدا ہوتا ہے آگ اس کی زیادہ مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زیادہ کھانے کی وجہ سے کفار کی مذمت کی ہے فرمایا : والذین کفروا یتمتعون ویاکلون کما تاکل الانعام والنار مثوی لھم۔ (محمد) جب ایک مومن ان کے مشابہ ہوگا اور ہر حال اور زمانہ میں ان جیسے تنعم سے لطف اندوز ہوگا تو اس کے ایمان کی حقیقت کہاں ہوں گی اور وہ اسلام کے وظائف کو کیسے قائم کرے گا ؟ جو زیادہ کھاتا پیتا ہے اس کی حرص اور لالچ زیادہ ہوتی ہے۔ رات کو سستی اور نیند زیادہ ہوتی ہے، پس اس کا دن لالچ میں گردش کرتے ہوئے اور رات سوتے ہوئے گزرتی ہے۔ یہ مفہوم سورة اعراف میں گزر چکا ہے۔ اس میں میزان کا ذکر بھی گزر چکا ہے۔ اس کے دو پلڑے ہیں جن میں اعمان کے صحائف کا وزن کیا جائے گا، اعادہ کی ضرورت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب صحابہ حضرت ابن مسعود کی پنڈلی کی باریکی کو دیکھ کر ہنستے تھے جب کہ وہ کھجور پر چڑھ رہے تھے : ” تم پنڈلی کی وجہ سے ہنس رہے ہو تمام اہ زمین کے عمل کے ساتھ اس کا وزن کیا جائے گا۔ “ یہ دلیل ہے کہ اشخاص کا وزن کیا جائے گا ؛ غزنوی نے اس کو ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلک جزآو ھم۔ ذالک مشار الیہ وزن کا ترک ہے۔ ذالک مبتدا ہے اور جزاء ھم خبر ہے۔ جہنم، متبدا سے بدل ہے جو ذالک ہے۔ اور بما کفروا میں ما مصدر یہ ہے اور الھزء کا معنی مزاح کرنا اور ہلکا سمجھنا ہے۔
Top