Al-Qurtubi - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذکرفی الکتب مریمیہ قصہ کی ابتدا ہے اس کا پہلے واقعہ سے تعلق نہیں اور خطاب حضرت محمد ﷺ کو ہے، یعنی دور ہوگئی۔ انبذ کا معنی پھکنکنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فنبذوہ ورآء ظھورھم (آل عمران :187) من اھلھا، یعنی ان سے جو آپ کے ساتھ تھے۔ اذ، مریم سے بدل اشمال ہے کیونکہ اوقات اس پر مشتمل ہوتے ہیں جوان میں ہوتا ہے۔ الانتباذ کا معنی جدا ہونا اور علیحد ہونا ہے۔ علماء کا اختلاف ہے کہ حضرت مریم کیوں جدا ہوئیں اور مشرقی جانب محراب میں داخل ہوئیں تاکہ خلوت میں عبادت کریں تو ان کے پاس جبرئیل آئے۔ مکانا شرقیاً ، مشرقی جانب کی جگہ۔ الشرق راء کے سکون کے ساتھ اس مکان کو کہتے ہیں جس میں سورج کی دھوپ پڑتی ہے۔ الشرق راء کے فتحہ کے ساتھ ہو تو اس سے مراد سورج ہوتا ہے۔ مشرقی مکان کا خاص کیا گیا ہے کیونکہ وہ مشرقی جہت کی تعظیم کرتے تھے اور اس وجہ سے کہ انوار طلوع ہوتے تھے۔ اور جہات شرقیہ ہر چیز سے افضل تھیں، یہ طبری نے حکایت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے حکایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں (1) کہ نصاریٰ نے مشرق کو کیوں قبلہ بنایا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذ انتبذت من اھلھا مکاناً شرقیاً ۔ پس انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی جگہ کی جہت کو قبلہ بنا لیا وہ کہتے تھے : اگر زمین کی کوئی جہت مشرق سے بہتر ہوتی تو حضرت مریم (علیہما السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس جہت میں جنم دیتیں۔ علماء کا حضرت مریم کی نبوت کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : اس ارسال اور فرشتے سے گفتگو کی وجہ سے نبیہ تھیں۔ بعض نے فرمایا : نبیہ نہیں تھیں انسان کی مثال نے ان سے کلام کیا تھا اور ان کا فرشتے کو دیکھنا ایسے ہی تھا جیسے جبرئیل کو وحیہ کلبی کی صفت میں دیکھا گیا تھا جب انہوں نے ایمان اور اسلام کے بارے میں سوال کیا تھا۔ پہلو قول اظہر ہے اس مفہوم پر کلام سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ والحمد للہ۔
Top