بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کھیعص
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کھٰیٰعص۔ حروف مقطعات پر کلام پہلے سورتوں کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : کاف۔ کافی سے، ھا۔ ھادی ہے، یا۔ حکیم سے اور عین۔ علیم سے اور صاد۔ صادق سے ہے، یہ ابن العزیز نے ذکر کیا ہے۔ قشیری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے لیے کافی ہے اپنے بندوں کو ہدایت دینے والا ہے۔ اس کا ہاتھ سب کے ہاتھوں پر ہے (یعنی سب پر غالب ہے) ان کو جاننے والا ہے اپنے وعدہ میں سچا ہے۔ یہ قول ثعلبی نے کلبی، سدی، مجاہد اور ضحاک سے روایت کیا ہے۔ کلبی نے یہ بھی کہا ہے کہ الکاف، کریم، کبیر اور کافی سے، ھا، ھادی سے ہے۔ یا رحیم سے ہے۔ عین علیم اور عظیم سے ہے۔ صاد صادق سے ہے۔ معنی ایک ہی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ام ہے اور حضرت علی ؓ اس طرح دعا مانگتے تھے : یا کھٰیٰعص اعفرلی، یہ غزنوی نے ذکر کیا ہے۔ سدی نے کہا : یہ وہ اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سوال کیا جائے تو اللہ عطا فرماتا ہے اور جب اس کے ذریعے سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور جب اس کے ذریعے دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ دعا قبول فرماتا ہے۔ قتادہ نے کہا : یہ قرآن کے اسماء میں سے اسم ہے، یہ عبد الرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سے روایت کیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ سورت کا نام ہے۔ قشیری کا اختیار یہی ہے (1) کہ حروف مقطعات سورتوں کے نام ہیں اسی وجہ سے کہا گیا کہ کہ کھٰیٰعص پر کلام کا تمام ہے۔ گویا یہ سورت کے نام متعلق بتایا گیا ہے جیسے تو کہتا ہے : فلاں کتاب (طہارت) یا باب فلاں (وضو) پھر تو مقصد میں شروع ہوتا ہے۔ ابو جعفر نے ان حروف کو علیحدہ علیحدہ پڑھا ہے۔ اور باقی قراء نے وصل کیا ہے۔ ابو عمرو نے ھا میں امالہ کیا اور یاء کو فتح کے ساتھ پڑھا۔ ابن عامر اور حمزہ نے اس کے برعکس پڑھا ہے اور ان دونوں کی کسائی، ابوبکر اور خلف نے امالہ کیا ہے۔ اہل مدینہ، نافع وغیرہ نے ان دو لفظوں کے درمیان پڑھا ہے اور باقی قراء نے دونوں کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ خارجہ سے مروی وے کہ حسن کاف کو ضمہ دیتے تھے اور اس کے علاوہ سے حکایت ہے کہ انہوں نے ھا کو ضمہ دیا ہے۔ اسماعیل بن اسحاق نے حکایت کیا ہے کہ وہ یاء کو ضمہ دیتے تھے۔ ابو حاتم نے کہا : کفا کو ضمہ دینا اور ھا کو ضمہ دینا جائز نہیں۔ نحاس نے کہا : اہل مدینہ کے قرأت سب سے بہتر ہے اور ھا اور یا میں امالہ جائز ہے اور حسن کی قرأت جماعت قرار پر مشکل ہے حتی کہ انہوں کہا : یہ جائز نہیں ہے، ان علماء میں سے ابو حاتم بھی ہیں اس کے بارے میں ہاروا القاری نے بیان کیا ہے انہوں نے کہا : حسن رفع کو اشمام کرتے تھے، اس کا معنی ہے وہ اشارہ کرتے تھے جیسا کہ سیبویہ نے حکایت کیا ہے کہ عربوں میں سے بعض کہتے ہیں : الصلوۃ والزکاۃ یومی الی الواد۔ یعنی الصلوۃ اور الزکاۃ کے لفظ وائو کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اور صاد کے ہجے سے دال کو نافع، ابن کیثر، عاصم اور یعقوب نے ظاہر کیا ہے، یہی ابو عبیدہ کا اختایر ہے اور باقی قراء نے اسے ادغام کیا ہے
Top