Al-Qurtubi - Maryam : 29
فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ١ؕ قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا
فَاَشَارَتْ : تو مریم نے اشارہ کیا اِلَيْهِ : اس کی طرف قَالُوْا : وہ بولے كَيْفَ نُكَلِّمُ : کیسے ہم بات کریں مَنْ كَانَ : جو ہے فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں صَبِيًّا : بچہ
تو مریم نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں ؟
اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاشارت الیہ قالوا کیف نکلم من کان فی المھد صبیا۔ حضرت مریم کو ترک کلام کا جو حکم دیا گیا تھا۔ آپ نے اسے لازم پکڑا۔ اس آیت میں وارد نہیں ہے کہ آپ نے انی نذرت للرحمن صوما بول کر کہا تھا بلکہ یہ وارد ہے کہ آپ نے اشارہ فرمایا۔ پس یہ ان علماء کے قول کو تقویت دیتا ہے کہ (قولی) کا جو امر آپ کو دیا گیا تھا اس سے مراد اشارہ ہے۔ روایت ہے کہ جب آپ نے بچے کی طرف اشارہ کیا تو لوگوں نے کہا : اس کا ہمارے ساتھ استخفاف اس کے زنا سے بھی ہم پر زیادہ سخت ہے۔ پھر انہوں نے تقریر و ثبوت کی جہت سے کہا : کیف نکلم من کان فی المھد صبیا۔ (1) اس آیت میں کان سے مراد ماضی نہیں کیونکہ جو بھی مہد میں ہوتا ہے وہ بچہ ہی ہوتا ہے بلکہ یہ الا ان (اب) کے معنی میں ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : کان یہاں لغو ہے : جیسے شاعر نے کہا : و جیران لنا کانوا کرام۔ بعض علماء نے فرمایا : کان یہاں وجود اور حدوث کے معنی میں ہیں جیسے ارشاد ہے : وان کان ذو عسرۃ (البقرہ : 280) یہ پہلے گزر چکا ہے۔ ابن انباری نے کہا : اسے زائدہ کہنا جائز نہیں کیونکہ صبیا کو اس نے نصب دی ہے اور کان بمعنی حدث ہونا تو کہتا ہے : وکان لا یقبل عطیۃ۔ میں اسے کیسے عطا کروں جو عطیہ قبول ہی نہیں کرتا یعنی : من یکن لا یقبل کبھی ماضی، جزا میں مستقبل میں ہوتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تبرک الذی ان شاء جعل لک خیرا من ذلک جنت تجری من تحتھا الانھر (الفرقان :10) اس آیت میں انشاء اللہ جعل کا معنی ان یشا یجعل ہے اور تو کہتا ہے : من کان إلی منہ احسان کان إلیہ منی مثلہ، یعنی من یکن منہ الی احسان یکن الیہ منی مثلہ۔ جس کا مجھ پر احسان ہوگا اس پر میری طرف سے اس کی مثل احسان ہوگا۔ المھد بعض علماء نے فرمایا : وہ چارپائی پنگھوڑے کی طرح تھی۔ بھض نے فرمایا : یہاں المھد سے مراد ماں کی گود ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے کیسے بات کریں کمسنی کی وجہ سے پنگھوڑے میں سونا جس کا معمول ہے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی باتیں سنیں تو آپ نے اپنی آرام گاہ میں لیٹے ہوئے کہا : انی عبداللہ الخ۔ مسئلہ نمبر 2 بعض علماء نے فرمایا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دودھ پی رہے تھے جب انہوں نے لوگوں کی باتیں سنیں تو دودھ پینا چھوڑ دیا اور ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بائیں طرف متوجہ ہوئے اور بائیں طرف متوجہ ہوئے اور بائیں طرف پر سہارا لیا اور ان کی طرف اپنی دائیں سبا بہ انگلی سے اشارہ کیا اور فرمایا : انی عبد اللہ سب سے پہلے آپ نے اللہ تعالیٰ کے عبد ہونے کا اعتراف کیا اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا تاکہ ان لوگوں کا رد ہوجائے جو آپ کے بعد آپ کی شان میں غلو کرنے والے تھے۔ الکتاب سے مراد انجیل ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : بچپن کی حالت میں آپ کو کتاب عطا فرمائی تھی اور اس کا فہم اور علم بھی بخشا تھا اور اس وقت انہیں نبوت عطا فرمائی تھی جیسا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو اسماء سکھائے تھے۔ وہ اس وقت روزہ بھی رکھتے تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے۔ یہ انتہائی ضعیف قول ہے جیسا کہ ہم اس کے بعد مسئلہ میں بیان کریں گے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ نے ازل میں مجھے کتاب اور نبوت دینے کا حکم دیا تھا اگرچہ کتاب فی الحال نازل نہیں ہوئی تھی ؛ یہ واضح قول ہے۔ وجعلنی مبرکا، برکت والا بنایا۔ دین میں نفع دینے والا، اس کی طرف بلانے والا، اور اس کی معرفت کی تعلیم دینے والا بنایا۔ اس کا معنی ہے وہ مجھے نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے منع کرنے والا اور گمراہوں کو راہ ہدایت دینے والا، مظلوم کی مدد کرنے والا اور مجبور کی معاونت کرنے والا بنایا۔ واوصنی بالصلوٰت والزکوٰت یعنی جب میں مکلف ہوں تو نماز اور زکوٰۃ ادا کروں جب میرے لیے ان کی ادائیگی ممکن ہو۔ یہ آخری صحیح قول کے مطابق ہے۔ ما دمت حیا، ماظروف کی بناء پر محل نصب میں ہے یعنی دوام حیاتی (جب تک میری زندگی ہے) وبر بوالدتی، فرمایا اور بوالدی نہیں فرمایا۔ تو معلوم ہوا کہ یہ چیز اللہ کی طرف سے تھی۔ ولم یجعلنی جبارا اور اس نے مجھے جابر و متکبر نہیں بنایا جو غصہ میں آکر قتل کرتا ہے اور مارتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : جبار وہ ہوتا ہے جو اپنے اوپر کسی کا حق نہیں دیکھتا۔ شقیا خیر سے محروم، اس نے اس کا معنی نافرمان کیا ہے، بعض نے رب کا نافرمان معنی کیا ہے۔ بعض نے فرمایا : اس نے مجھے اپنے حکم کا تارک نہیں بنایا کہ میں بدبخت ہوں جس طرح ابلیس اللہ کے حکم کو ترک کر کے بدبخت ہوا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ حضرت مالک بن انس ؓ نے اس آیت کے تحت فرمایا : یہ اہل القدر پر کتنی سخت ہے (1) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس بات کی خبر دی جو فیصلہ ہوچکا ہے اور جو ان کی وصال تک ہونے والا ہے۔ اس آیت کے قصص میں ابن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام سنا تو انہیں یقین ہوگیا۔ اور انہوں نے کہا : یہ کسی امر عظیم کی وجہ سے ہے۔ روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے طفولیت میں کلام کی تھی۔ یہ اس آیت سے ثابت ہے لیکن پھر بچوں کی حالت پر لوٹ گئے تھے حتیٰ کہ انسانی عادت کے مطابق بچوں کی طرح بڑھے۔ آپ کا بولنا اپنی والدہ کی برأت کے لیے تھا نھہ کہ وہ اس حالت میں یہ شعور رکھتے تھے وہ اس طرح بولے تھے جس طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اعضاء انسانی کو قوت گویائی بخشے گا یہ منقول نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ بولتے رہے۔ اور نہ وہ نماز پڑھتے تھے جب وہ ایک دن یا ایک مہینہ کے تھے۔ اگر وہ اس بچپن میں متواتر بولتے رہتے اور تسبیح و نصیحت اور نماز پڑھتے رہتے تو یہ چیز پوشیدہ نہ ہوتی۔ یہ تمام چیزیں پہلے قول کے فساد پر دلیل ہیں اور قائل کی جہالت پر صریح ہیں اور یہ بھی دلیل ہے کہ آپ پنگھوڑے میں بولے تھے۔ جبکہ یہود و نصاریٰ کا قول اس کے مخالف ہے۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ نماز، روزہ، والدین کی خدمت گزاری پہلی امتوں پر بھیواجب تھیں یہ وہ چیزیں ہیں جن کا حکم ثابت رہا اور آپ کی شریعت میں یہ حکم منسوخ نہ ہوا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انتہائی متواضع تھے درختوں کے پتے کھاتے تھے اور بالوں سے بنا ہوا لباس پہنتے تھے اور مٹی پر بیٹھتے تھے اور جہاں رات ہوجاتی وہی رہ جاتے تھے۔ آپ کا کوئی خاص مسکن نہ تھا۔ صلی اللہ علی نبینا وعلیہ وسلم۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ کو فیوں نے کہا : گونگے کا قذف اور لعان صحیح نہیں ہے اس کی مثل شعبی سے بھی مروی ہے۔ امام اوزاعی، امام احمد اور اسحاق نے بھی یہی کہا ہے۔ ان علماء کے نزدیک قذف صریح زنا کے لفظ سے صحیح ہے اور اس کے معنی سے۔ اور گونگے سے ضرورۃ قذف صحیح نہیں ہے، پس وہ قاذف نہ ہوگا۔ اشارہ کے ساتھ زنا، حلال اور شبہ وطی سے ممتاز نہیں ہوتا۔ نیز یہ علماء کہتے ہیں : لعان ہمارے نزدیک شہادت ہیں اور گونگے کی شہادت بالاجماع مقبول نہیں ہے۔ ابن القصار نے کہا : ان علماء کیا یہ قول ہے کہ قذف صرف صریح زنا سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ تمام زبانوں کے اعتبار سے باطل ہے سوائے عربی زبان کے۔ اسی طرح گونگے کا اشارہ ہے اور انہوں نے جو اجماع ذکر کیا ہے کہ گونگے کی شہادت کے عدم قبولیت پر اجماع ہے یہ بھی غلط ہے۔ امام مالک کی نص موجود ہے کہ ان کے اشارہ کو سمجھا جاتا ہو تو اس کی شہادت مقبول ہے اسکا اشارہ لفظ کے ساتھ شہادت دینے کے قائم مقام ہوگا۔ رہا یہ کہ لفظ پر قدرت ہو تو پھر لفظ کے ساتھ ہی شہادت واقع ہوگی۔ ابن المنذر نے کہا : مخالفین گونگے کی طلاق، یع اور باقی تمام احکام لازم کرتے ہیں، پس قذف بھی اس کی مثل ہونا چاہیے۔ مہلب نے کہا : بہت سے فقہی ابواب میں اشارہ کلام سے قوی ہوتا ہے مثلاً نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بعثت انا والساعۃ کھاتین، میں اور قیامت ان دو انگلوں کی طرح قریب قریب مبعوث کیے گئے ہیں۔ ہم ان دو انگلیوں کے درمیان جو قرب ہے اسے وسطی انگلی کی سبابہ پر زیادتی کی مقدار سے جانتے ہیں۔ دانشوروں کا اجماع ہے کہ عیان (مشاہدہ) خبر سے اقویٰ ہوتا ہے۔ اس میں دلیل ہے کہ اشارہ بعض مواقع پر کلام سے قوی ہوتا ہے۔ والسلم علی، اللہ کی طرف سے مجھ پر سلام ہو۔ زجاج نے کہا : اس سے پہلے سلام کا لفظ الف، لام کے بغیر ذکر کیا گیا تھا پس دوبارہ الف، لام کے ساتھ ذکر کرنا بہتر تھا۔ یوم ولدت یعنی دنیا میں۔ بعض نے فرمایا : شیطان کے وسوسہ سے۔ یہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ ویوم اموت یعنی قبر میں۔ ویوم ابعث حیا۔ یعنی آخرت میں، کیونکہ آپ کے تین احوال تھے : دنیا میں زندہ رہنا، قبر میں مردہ ہونا، آخرت میں اٹھنا۔ تو آپ نے تمام حالات میں سلامتی بھیجی ؛ یہ کلبی کے قول کا معنی ہے پھر آپ کا کلام پنگھوڑے میں ختم ہوگیا حتیٰ کہ اس عمر کو پہنچے جس میں عام بچے بولتے ہیں۔ قتادہ نے کہا : ہمارے لیے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک عورت نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہر زمانہ میں مردوں کو زندہ کرتے ہیں (1) ، اندھوں اور برص کے مریضوں کو درست کرتے ہیں تو اس نے کہا : مبارک ہو اس بطن کو جس نے تجھے اٹھائے رکھا اور مبارک ہو اس سینے کو جس نے تجھے دودھ پلایا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اسے کہا : مبارک ہو اسے جس نے کتاب اللہ کی تلاوت کی اور اس کی پیروی کی جو کتاب اللہ میں تھا اور کتاب اللہ پر عمل کیا۔
Top