Al-Qurtubi - Maryam : 69
ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِیْعَةٍ اَیُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِیًّاۚ
ثُمَّ : پھر لَنَنْزِعَنَّ : ضرور کھینچ نکالیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر شِيْعَةٍ : گروہ اَيُّهُمْ : جو ان میں سے اَشَدُّ : بہت زیادہ عَلَي الرَّحْمٰنِ : اللہ رحمن سے عِتِيًّا : سرکشی کرنے والا
پھر ہر جماعت میں سے ہم ایسے لوگوں کو کھینچ نکالیں گے جو خدا سے سخت سرکشی کرتے تھے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم لنز عن من کل شیعۃ، یعنی ہم ہر امت اور ہر اہل دین سے نکالیں گے۔ ایھم اشد علی الرحمن عنیا۔ نحاس نے کہا : یہ آیت ترکیب کے اعتبار سے بہت مشکل ہے کیونکہ تمام قراء ایھم کو رفع کے ساتھ پڑھتے ہیں سوائے ہارون قاری اعور کے۔ سیبویہ نے اس سے ایھم پر نصب دی ہے کیونکہ اس پر لنزعن کو واقع کیا ہے۔ ابواسحق نے کہا : ایھم کے رفع میں تین اقوال ہیں۔ خلیل بن احمد نے کہا : یہ سیبویہ نے اس سے حکایت کیا ہے کہ یہ حکایت یر مرفوع ہے اس کا مفہوم یہ ہے : ثم لنزعن من کل شیعۃ الذی یقال من اجل عتوہ ایھم اشد علی الرحمن عتیا۔ اور خلیل نے بطور دلیل یہ شعر پیش کیا ہے : ولقد ابیت من الفتاۃ بمنزل فابیت لا حرج ولا محروم یعنی فابیت بمنزلۃ الذی یقال لہ لا ھو حرج ولا محروم۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : میں نے ابو اسحاق کو دیکھا وہ اس قول کو پسند کرتے تھے اور اچھا سمجھتے تھے فرمایا : کیونکہ یہ اہل تفسیر کے قول کا معنی ہے اور یہ کہا ہے کہ ثم لنز عن من کل شیعۃ کا معنی یہ ہے کہ ثم لنزعن من کل فرقۃ الاعتی فالاعتی۔ یعنی ہم ہر فرقہ سے جو زیادہ نافرمان ہوگا اسے نکالیں گے پھر جو اس کے بعدنافرمان ہوگا اسے نکالیں گے گو جو سب سے زیادہ نافرمان ہوگا اسے عذاب دیا جائے گا پھر جو اس سے متصل ہوگا۔ یہ اس آیت کے معنی میں ابو اسحاق کے کلام کی نص ہے۔ یونس نے کہا : لنزعن ان افعال کے قائم مقام ہے جو ملغی ہوتے ہیں اور ایھم کا رفع مبتدا کی حیثیت سے ہے۔ مہدی نے کہا : وہ فعل جو لنزعن ہے یونس کے نزدیک معلق ہے ابو علی نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ ایھم اشد، کی جگہ میں عمل کر رہا ہے ملغی نہیں ہے اور خلیل اور سیبویہ کے نزدیک لنزعن کی مثل فعل معلق نہیں ہوتا افعال شک اور وہ افعال جن کا وقوع متحقق نہیں ہوتا وہ معلق ہوتے ہیں۔ سیبویہ نے کہا : ایھم مبنی برضمہ ہے کیونکہ حذف ہے میں اس نے اپنے اخوات کی مخالفت کی ہے کیونکہ اگر تو کہہ : رأیت الذی أفضل ومن أفضل تو یہ قبیح ہوگا حتیٰ کہ تو کہے : من ھو أفضل، أیھم میں حذف جائز ہے۔ ابو جعفر نے کہا : میں کسی نحوی کو نہیں جانتا مگر اس نے اس میں سیبویہ کو غلط کہا ہے میں نے ابو اسحاق کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سیبویہ کی کتاب میں میرے لیے کوئی غلطی ظاہر نہیں ہوئی مگر دو جگہوں پر ان میں سے ایک یہ ہے فرمایا : ہم جانتے ہیں کہ سیبویہ نے ایا کو اعراب دیا ہے جبکہ یہ مفرد ہے کیونکہ یہ مضاف ہوتا ہے وہ اسے کیسے مبنی بناتا ہے جبکہ یہ مضاف ہوتا ہے ؟ ابو اسحاق نے ذکر نہیں کیا مگر یہی تین اقوال۔ ابو علی نے کہا : سیبویہ کے مذہب پر مبنی ہونا واجب ہے کیونکہ جس وجہ سے یہ پہچانا جاتا ہے وہ اس سے خذف کیا گیا ہے اور وہ ضمیر ہے حالانکہ اس کی احتیاج ہے جیسا کہ : من قبلومن بعد میں وہ چیز حذف کی گئی جس کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں کیونکہ صلہ موصول کی وضاحت کرتا ہے اور اسے خاص کرتا ہے۔ ابو جعفر نے کہا : اس میں ان مذکورہ تین اقوال کے علاوہ چار اقوال ہیں۔ کسائی نے کہا : لنزعن کا معنی ایھم پر واقع نہیں کہ اسے نصب دیتا ہے۔ مہدوی نے یہ زائد کہا ہے کہ ل اس کے نزدیک فعل، من کل شیعۃ کے محل پر واقع ہے۔ ایھم اشد جملہ مستانفہ ہے اور مبتداء کی حیثت سے ایھم مرفوع ہے اور سیبویہ الواجب میں من کی زیادتی کے قائل نہیں۔ فراء نے کہا : اس کا معنی ہے ہم ندا کے ذریعے نکالیں گے اور لنزعن کا معنی پر واقع ہے جیسے تو کہتا ہے : لیست من الثیاب واأکلت من الطعام اور لنزعن ہے ہم پکاریں گے۔ مہدوی نے کہا : نادیٰ فعل معلق ہوتا ہے جب اس کے بعد جملہ ہوتا ہے جیسا کہ ظننت ہے۔ پس یہ معنی میں عمل کرتا ہے اور لفظ میں عمل نہیں کرتا ہے۔ ابو جعفر نے کہا : ابوبکر بن شقیر نے حکایت کیا ہے کہ بعض کو فیوں نے کہا : ایھم میں شرط و جزا کا معنی ہے اس لیے ماقبل اس میں عمل نہیں کرتا، معنی یہ ہے پھر ہم ہر ایک فرقہ سے نکالیں گے اگر تم گروہ بنو یا نہ بنو جیسے تو کہتا ہے : ضربت القوم ایھم غضب، معنی یہ ہے کہ اگر وہ غصہ میں ہوں یا نہ ہوں میں قوم کو ماروں گا۔ ابو جعفر نے کہا : یہ چھ اقوال ہیں۔ میں نے علی بن سلیمان کو محمد بن یزید سے یہ حکایت کرتے ہوئے سنا کہ ایھم، شیعت کے متعلق ہے وہ مبتداء کی حیثیت سے مرفوع ہے معین یہ ہے پھر ہم ان لوگوں سے نکالیں گے جنہوں نے آپس میں تعاون کیا اور دیکھا کہ کون رحمن کا سخت نافرمان ہے ؟ یہ حسن کا قول ہے۔ کسائی نے حکایت کیا ہے کہ التشایع کا معنی تعاون کرنا ہے۔ اور عتیا کو نصب بیان کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولیٰ بھا صلیا۔ جیسے مضی یمضی مضیا جب کوئی چلا جائے۔ ھویٰ یھو ھویا۔ جوہری نے کہا : کہا جاتا ہے صلیت الرجل ناراً جب تو کسی کو آگ میں جھونک دے، گویا تو اسے جلانا چاہتا ہے۔ میں کہتا ہوں : اصلیتہ، الف کے ساتھ وصلیتہ تصلیۃ بھی آتا ہے۔ ویصلی سعیراً بھی پڑھا گیا ہے۔ اور جنہوں نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے تو وہ عربوں کے اس قول سے ہوگا : صلی فلان بالنار لام کے کسرہ کے ساتھ۔ یصلی صلیا اس کا معنی ہے جل جانا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھم اولیٰ بھا صلیا۔ عجاج نے کہا : واللہ لولا النار ان نصلاھا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے : صلی بالأمر جب گرمی اور شدت سخت ہوجائے۔ طہوری نے کہا : ولا تبلی بسالتھم وان ھم صلوا بالحرب حینا بعد حین واصطلیت بالنار وتصلیت بھا ابو زبید نے کہا : وقد تصلیت حرحربھم کما تصلی المقرورمن فرس فلان لا یصطلی بنارہ کہا جاتا ہے جب کوئی بہادر شخص ہو اور اس کا مقابلہ نہ کیا جاتا ہو۔
Top