Al-Qurtubi - Maryam : 72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا
ثُمَّ : پھر نُنَجِّي : ہم نجات دینگے الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی وَّنَذَرُ : اور ہم چھوڑ دینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) فِيْهَا : اس میں جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہوا چھوڑ دیں گے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم ننجی الذین اتقوا ونذر الظلمین فیھا جثیا۔ ابو عمر نے کتاب ” التمہید “ میں اپنی سند کے ساتھ یہ ذکر کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ خالد بن معدان، ابن جریج وغیر ہم کا یہی قول ہے۔ یونس نے حسین سے روایت کیا ہے کہ وہ ان منکم الا واردھا پڑھے تو الورود کی تفسیر الدخول سے بیان کرتے۔ بعض راویوں سے اس میں غلطی ہوئی اور انہوں نے الورود، الدخول کے الفاظ کو قرآن کے ساتھ لاحق کردیا ہے۔ مسند دارمی میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے فرمایا ” لوگ آگ پر وارد ہوں گے پھر وہ اس سے اپنے اعمال کے ساتھ نکلیں گے پہلے لوگ بجلی کی چمک کی طرح تیزی سے نکلیں گے پھر (بعد والے) ہوا کی طرح نکلیں گے پھر (بعد والے) گھوڑے کی تیز رفتاری سے نکلیں گے پھر (بعد والے) اس مسافر کی تیزی سے نکلیں گے جو اپنی سواری کو تیز چلانے والا ہوتا ہے پھر اس شخص کی طرح جو تیز چلتا ہے “ (2) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ میں نافع بن ازرق خارجی سے فرمایا : رہا میں اور تو، تو ضرور ہم وارد ہوں گے۔ رہا میں تو اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نجات دے گا اور ہا تو تو میں گمان نہیں کرتا کہ وہ تجھے نکالے گا تیرے جھٹلانے کی وجہ سے اکثر علماء ڈرتے ہیں کیونکہ دوزخ پر ورود تو یقینی ہے لیکن اس سے نکلنا مجہول ہے۔ ہم نے یہ مسئلہ (التذکرہ) میں بیان کردیا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : الورود سے مراد پل صراط سے گزرنا ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ، حضرت ابن مسعود اور کعب احبار اور سدی سے مروی ہے۔ سدی نے اس کو حضرم ابن مسعود سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ حسن کا بھی یہی قول ہے فرمایا : الورود سے مراد الدخولل نہیں ہے تو کہتا ہے : وردت البصرہ ولم ادخل۔ میں بصرہ پر وارد ہوا اور داخل نہیں ہوا۔ فرمایا : الورود سے مراد پل صراط سے گزرنا ہے۔ ابوبکر انباری نے کہا : حسن کے مذہب پر اہل لغت کی ایک قوم نے بنیاد رکھی ہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے حجت پکڑی ہے : ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ اولئک عنھا مبعدون۔ (الانبیائ) یہ علما فرماتے ہیں : وہ شخص دوزخ میں داخل نہ ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ دوزخ سے دور کرنے کی ضمانت دے گا۔ اور وہ ثم کو یاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور پہلے مقالہ والوں نے ان کے خلاف یہ حجت پکڑی ہے کہ اولئک عنھا مبعدون۔ کا معنی ہے دوزخ میں عذاب سے دور کرنا اور جلانے سے دور کرنا، جو اس میں داخل ہوگا وہ اسے محسوس نہیں کرے گا اور کوئی تکلیف نہیں پائے گا وہ حقیقت میں دوزخ سے دور کیا گیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ثم ننجی الذین اتقوا سے استدلال کرتے ہیں۔ وہ ثم کو ثناء کے ضمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں : ثم دخول کے بعد نجات پر دلالت کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں : صحیح مسلم میں ہے ” جہنم پر ایک پل لگایا جائے گا اور شفاعت کا در کھلے گا لوگ کہیں گے : سلم سلم سلامتی عطا فرمائ، سلامتی عطا فرما۔ “ (1) عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ﷺ وہ پل کیا ہے ؟ فرمایا : ” وہ ایک پھسلن ہے اس میں اچک لینے والے اور نوک دار مڑے ہوئے کنڈے ہیں۔ ان میں سے شاخے کانٹے ہیں اس کو سعدان کہا جاتا ہے۔ مومنین آنکھ جھپکنے کی طرح گزریں گے اور بجلی کی طرح اور ہوا کی طرح اور پرندوں کی طرح اور عمدہ گھوڑوں کی طرح اور اونٹوں کی طرح کچھ نجات پانے والے سلامتی والے ہوں گے اور کچھ کو خراشیں آئیں گی اور چھوڑ دیے جائیں گے اور کچھ جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ “ اس سے ان علماء نے حجت پکڑی ہے جو فرماتے ہیں کہ پل صراط سے گزر وہ ورود ہے جس کو یہ آیت اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے نہ کہ دوزخ میں داخل ہونا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : بلکہ ورود سے مراد جھانکنا، اطلاع اور قرب ہے۔ وہ حساب کی طرح حاضر ہوں گے اور وہ جہنم کے قریب ہوگی پس وہ اس کی طرف حساب کی حالت میں دیکھیں گے پھر اللہ تعالیٰ انہیں اس سے نجات دے گا جو انہوں نے دیکھا پھر انہیں جنت کی طرف پھیر دیا جائے گا۔ ونذر الظلمین ظالموں کو آگ کی طرف لے جانے کا حکم دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولما وردمآء مدین (القصص :23) یعنی پانی پر جھانکا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ پانی میں داخل ہوا۔ زہیر نے کہا : فلما وردن الماء زرقاً جمامہ وضعن عصی الحاضر المتخیم حضرت حفصہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” آگ میں اہل بدر اور اہل حدیبیہ میں سے کوئی داخل نہ ہوگا۔ “ (2) ۔ فرماتی ہیں : میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ﷺ وان منکم الا واردھا کا قول کہاں جائے گا ؟ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” خامو، ثم ننجی الآین اتقوا ونذر الظلمین فیھا جثیا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے حضرت ام مبشر سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں : میں نے نبی پاک ﷺ کو حضرت حفصہ سے یہ فرماتے سنا (الحدیث) زجاج نے اس قول کو اس ارشاد کی وجہ سے ترجیح دی ہے : ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ (الانبیائ : 101) مجاہد نے کہا : مومنین کے آگ پر وارد ہونے سے مراد بخار ہے جو مومن کو دنیا میں لاحق ہوتا ہے یہی آگ سے مومن کا حصہ ہے وہ دوزخ کی آگ میں داخل نہ ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ایک مریض کی عیادت کی جس کو بخار تھا نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا : ” تمہیں بشارت ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ (بخار) میری آگ ہے جو میں اپنے بندہ مومن پر مسلط کرتا ہوں تاکہ یہ آگ سے اس کا حصہ ہوجائے “ ابو عمر نے اسے مسند ذکر کیا ہے فرمایا عبدالوارث بن سفیان نے ہمیں بیان فرمایا ہمیں قاسم بن اصبغ نے بیان کیا فرمایا ہمیں محمد بن اسماعیل صائغ نے بیان فرمایا ہمیں ابو اسامہ نے بیان کیا فرمایا ہمیں عبدالرحمن بن یزید بن جابر نے بیان کیا انہوں نے اسماعیل بن عبید اللہ سے انہوں نے اببو صالح اشعری سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے مریض کی عیادت کی پھر یہ حدیث مذکور ذکر کی اور حدیث میں ہے ” نجار، مومن کا آگ سے حصہ ہے “ (1) اور ایک جماعت نے کہا : الورود سے مراد قبر میں دوزخ کو دیکھنا ہے پھر کامیاب شخص کو اللہ تعالیٰ نجات دیتا ہے اور جس کی تقدیر میں اس میں داخل ہونا لکھا ہوگا وہ اس میں داخل ہوگا پھر اس سے شفاعت کے ذریعے یا اس کے علاوہ اللہ کی رحمت سے نکلے گا اور حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے ان علماء نے حجت پکڑی ہے کہ ” جب تم میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے “ (الحدیث) وکیع نے شعبہ سے انہوں نے عبدالللہ بن سائب سے انہوں نے ایک شخص سے اس نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے وان منکم الا واردھا کی تفسیر میں فرمایا ہے یہ خطاب کفار کو ہے۔ ان سے یہ بھی روایت ہے کہ وہ وان منھم پڑھتے تھے وہ ان آیات پر اس کو لوٹاتے تھے جن میں کفار کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فوربک لنحشرنھم والشیطین ثم لنحضرنھم حول جہنم جثیا۔ اسی طرح عکرمہ اور ایک جماعت نے پڑھا ہے، اس قرأت پر کوئی جھگڑا نہیں۔ ایک فرقہ نے کہا : منکم سے مراد کافر ہیں معنی معنی یہ ہے کہ اے پیارے محمد ﷺ ان سے کہو : یہ تاویل آسان ہے اور کاف ضمیر منکم میں لنحشرنھم والشیطین میں ھا کی طرف لوٹ رہی ہے۔ پس کاف کا ھاء کی طرف لوٹنا پسندیدہ نہیں یہ اس ارشاد میں معروف ہے۔ وسقھم ربھم شراباً طھورا۔ ان ھذا کان لکم جزآء وکان سعیکم مشکورا۔ (الدہر) اس آیت میں کان لکم سے مراد کان لھم ہے۔ کاف ضمیر ھاء کی طرف راجع ہے۔ اکثر علماء نے فرمایا : مخاطب تمام عالم ہے اور تمام کا ورود ضروری ہے اس پر ورود میں اختلاف پیدا ہوا ہے۔ ہم نے اس کے متعلق علماء کے اقوال بیان کردیے ہیں۔ ورود کا ظاہر معنی دخول ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : فتمسہ النار۔ المسیس کا معنی لغت میں چھونا ہے۔ مگر وہ آگ مومنین پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی اور وہ اس سے سلامتی کے ساتھ نجات پائیں گے۔ خالد بن معدان نے کہا : جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوں گے تو وہ دیکھیں گے کیا ہمارے رب نے کہا نہیں تھا کہ ہم آگ پر وارد ہوں گے ؟ انہیں کہا جائے گا : تم اس میں وارد ہوئے تھے پس تم نے اسے راکھ پایا۔ میں کہتا ہوں : یہ قول مختلف اقوال کا جامع ہے اگر کوئی اس میں وارد ہو اور اسے آگ اپنے شعلے سے اذیت نہ دے تو وہ اس سے دور کیا گیا اور اس سے بچایا گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے نجات عطا فرمائے، ان لوگوں سے کرے جو اس پر وارد ہوں تو سلامتی کے ساتھ داخل ہوں اور اسے غنیمت کے ساتھ نکالے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کیا انبیاء آگ میں داخل ہوں گے ؟ ہم کہیں گے : ہم یہ مطلق نہیں کرتے بلکہ ہم کہتے ہیں : ساری مخلوق دوزخ پر وارد ہوگی جیسا کہ حضرت جابر کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے نافرمان اپنے جرائم کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوں گے، اولیاء اور سعادت مند ان مجرموں کی شفاعت کے لیے داخل ہوں گے پس ان دونوں دخولوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ ابن انباری نے مصحف عثمان اور قرأت عامہ سے حجت پکڑتے ہوئے کہا : لغت میں جائز ہے کہ غائب سے مخاطب اور مخاطب سے غائب کی طرف التفات ہوتا رہتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وسقھم ربھم شراباً طھورا۔ ان ھذا کان لکم جزآء وکان سعیکم مشکورا۔ (دہر) پہلے غائب کی ضمیریں تھیں پھر مخاطب کی ضمیریں ذکر فرمائیں ؛ یہ مفہوم سورة یونس میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد میں الا تحلت القسم یہ مستثنیٰ منقطع کا بھی احتمال رکھتا ہے لیکن تحلۃ القسم یہ کلام عرب میں معروف ہے یعنی اسے آگ بالکل نہ چھوئے گی۔ یہاں کلام مکمل ہوئی پھر نئی کلام فرمایا الا تحلۃ القسم یعنی لکن تحلۃ القسم (قسم پوری قسم کرنے کے ضروری ہے) جو کہ اس ارشاد میں ہے : وان منکم الا واردھا اور وہ پل صراط سے گزرتا ہو یا آگ کو دیکھنا یا سلامتی کے ساتھ داخل ہونا ہو پس اس میں کوئی مسیس نہ ہوگا کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” تم میں سے جن کے تین بچے فوت ہوجائیں گے پھر وہ ان پر ثوابب کی امید رکھے گا تو وہ اس کے لیے دوزخ سے ڈھال ہوں گے “ (1) ۔ الجنۃ کا معنی ڈال اور پردہ ہے۔ اور جو آگ سے بچایا گیا اور اس سے چھپایا گیا اس کو بالکل آگ نہ چھوئے گی اگر آگ اسے چھوتی تو وہ بچایا گیا نہ ہوتا۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ یہ حدیث پہلی حدیث کی تفسیر ہے کیونکہ اس میں الحسبۃ کا ذکر ہے اسی وجہ سے مالم مالک نے اپنے اثر کے ساتھ اس کو مفسر فرمایا ہے۔ اس دوسری حدیث کو اس نے مقید کیا ہے جو امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے فرمایا : من مات لہ ثلاثۃ من الولد لم یبلغوا الحنث کان لہ حجابا من النار او دخل الجنۃ ( 2) ۔ پس نبی کریم ﷺ کا ارشاد : لم یبلغوا الحنث، اہل علم کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اس عمر کو نہ پہنچے ہوں کہ ان پر گناہ لازم ہوتا ہو۔ یہ دلیل ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں ہوں گے، واللہ اعلم۔ کیونکہ رحمت جب ان کے آباء پر نازل ہوئی تو یہ محال ہے کہ جن کی وجہ سے دوسروں پر رحم کیا گیا ہو وہ خود مرحوم نہ ہوں۔ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں ہیں، اس میں مخالفت نہیں کی مگر جبر یہ فرقہ نے انہوں نے اس کو مشیئت کے ساتھ خاص کیا ہے۔ یہ ان کا اجماع کی وجہ سے مردود قول ہے جن کی مخالفت جائز نہیں اور نہ ان کی مثل پر غلطی جائز ہے نیز ثقہ عادل لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے اخبار آحاد روایت کی ہیں اور نبی کریم ﷺ کا قول : الشقی من شقی فی بطن امہ والسعید من سعد فی بطن امہ وان الملک ینزل فیکتب اجلہ وعملہ ورزقہ (1) ۔ بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے بطن میں بدبخت تھا اور سعید وہ ہے جو اپنی ماں کے بطن میں سعید تھا فرشتہ نازل ہوتا ہے وہ اس کی عمر اس کا عمل اور اس کا رزق لکھتا ہے۔ یہ حدیث مخصوص ہے مسلمانوں کے بچوں میں سے جو اکتساب سے پہلے مر جائے گا وہ ہو ہوگا جو اپنی ماں کے بطن میں سعید تھا اور وہ ببدبخت نہیں تھا اس کی دلیل احادیث اور اجماع ہے، اسی طرح حضرت عائشہ کو نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” اے عائشہ ! اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا اور اس کے لیے رہنے والے بھی پیدا کیے جبب کہ وہ اپنے آباء کی صلبوں میں تھے۔ “ یہ اجماع اور آثار کی وجہ سے ضعیف اور مردود ہے۔ طلحہ بن یحییٰ جس نے اس حدیث کو روایت کیا ہے وہ ضعیف ہے قابل حجت نہیں۔ اس حدیث کے ساتھ وہ منفرد ہے اس لیے قبول نہیں۔ شعبہ عن معاویہ بن قرۃ بن ایاس مزنی عن ابیہ عن النبی ﷺ کے سلسلہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری کا چھوٹا بچہ فوت ہوگیا وہ اس پر بہت افسردہ ہوا اسے نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” کیا تجھے یہ خوشی نہیں کہ تو جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے آئے تو تو اسے پائے کہ وہ تیرے لیے دروازہ کھوللتا ہے “ (2) ۔ یہ حدیث ثابت صحیح ہے ان احادیث کے معنی کے ساتھ جو ہم نے ذکر کی ہیں نیز جمہور کا اجماع بھی ہے۔ یہ صحیح حدیث یحییٰ کی حدیث کے معارض ہے اور اسے دور کرتی ہے۔ ابو عمر نے کہا : میرے نزدیک اس حدیث میں اور اس کے مشابہ آثار میں وجہ یہ ہے کہ یہ اس کے لیے ہے جس نے فرائض کی ادائیگی کی محافظت کی، کبائر سے اجتناب کیا، مصیبت پر صبر کیا اور ثواب کی امید رکھی۔ خطاب اس زمانہ میں ایسی قوم کو تھا جن کا غالب اسی پر تھا وہ صحابہ کرام تھے۔ نقاش نے بعض علماء سے ذکر کیا ہے کہ : وان منکم الاواردھا کا قول منسوخ ہے اور اس کی ناسخ یہ آیت ہے : ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ لا اولئک عنھا مبعدون۔ (الانبیائ) جس کو آگ نے نہیں چھوا وہی آگ سے دور کیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے ” قیامت کے روز آگ مومن کو کہے گی : ” اے مومن ! گزر جا تیرا نور میرے شعلہ کو بجھا رہا ہے “ ( ‘( مسئلہ نمبر 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کان علی ربک حتماً مقضیا۔ الحتم کا معنی ہے فیصلہ کو واجب کرنا یعنی یہ حتمی تھا۔ مقضیا اللہ تعالیٰ نے یہ تم پر فیصلہ فرما دیا تھا۔ حضرت ابن مسعود نے کہا : یہ قسم واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثم ننجی الذین اتقوا، یعنی ہم متقین کو نکالیں گے، ونذر الظلمین فیھا جثیا۔ یہ آیت دلیل ہے کہ ورود سے مراد دخول ہے کیونکہ ندخل الظالمین نہیں فرمایا۔ اس پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔ مذہب یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اگرچہ دوزخ میں داخل ہوگا اسے اس کی بداعمالیوں کی مقدار سزا ملے گی پھر وہ نجات پائے گا۔ فرقہ مرجہ نے کہا : وہ بھی داخل نہ ہوگا۔ وعید نے کہا : گناہ کبیرہ کا مرتکب ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ اس کا بیان کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔ عاصم حجدری، معاویہ بن مرۃ نے ثم ننجی تخفیف کے ساتھ انجیٰ سے پڑھا ہے، یہ حمید، یعقوب اور کسائی کی قرأت ہے اور باقی قراء نے شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن ابی لیلیٰ نے ثمہ پڑھا ہے یعنی وہاں، ثم ظرف ہے مگر یہ مبنی ہے کیونکہ غیر محصل ہے پس یہ مبنی ہوگا جیسے مبنی ہے اور ھاء یہ بھی جائئز ہے کہ یہ حرکت کے بیان کے لیے ہو پس اسے وصل میں حذف کیا جائئے گا اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ بقعہ کی تانیث کے لیے ہو پس وصل میں تاء ثابت ہوگی۔
Top