Al-Qurtubi - Maryam : 79
كَلَّا١ؕ سَنَكْتُبُ مَا یَقُوْلُ وَ نَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّاۙ
كَلَّا : ہرگز نہیں سَنَكْتُبُ : اب ہم لکھ لیں گے مَا يَقُوْلُ : وہ جو کہتا ہے وَنَمُدُّ : اور ہم بڑھا دینگے لَهٗ : اس کو مِنَ الْعَذَابِ : عذاب سے مَدًّا : اور لمبا
ہرگز نہیں یہ جو کچھ کہتا ہے ہم اس کو لکھے جاتے اور اس کے لیے آہستہ آہستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کلا قرآن کے نصف اوّل میں کلا کا ذکر نہیں ہے۔ نصف ثانی میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اس کے دو معانی ہیں۔ ایک اس کا معنی ہے حقاً اور دوسرا اس کا معنی ہے نہیں۔ جب یہ حقا کے معنی میں ہو تو اس کے ماقبل پر وقف جائز ہے پھر کلا سے آغاز ہوگا اور جب یہ لا کے معنی میں ہوگا تو کلا پر وقف جائز ہوگا جیسا کہ اس آیت میں ہے کیونکہ اس کا معنی ہے نہیں معاملہ اس طرح نہیں ہے اور عھداً پر وقف جائز ہوگا جیسا کہ اس آیت میں ہے کیونکہ اس کا معنی ہے نہیں معاملہ اس طرح نہیں ہے اور عھداً پر وقف کرنا اور کلا سے آغاز کرنا بھی جائز ہے یعنی کلا سنکتب ما یقول اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : لعلی اعمل صالحاً فیما ترکت کلا (المومنون :100) اس میں کلا پر اور ترکت پر وقف جائز ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولھم علی ذنب فاخاف ان یقتلون۔ قال کلا (الشعرائ) اس میں وقف کلا پر ہے کیونکہ اس کا معنی ہے نہیں یعنی معاملہ اس طرح نہیں جیسا کہ تم گمان کر رہے ہو۔ فاذھبتم دونوں جاؤ۔ اس میں حق کے معنی میں ہونے کی جگہ نہیں۔ فراء نے کہا : کلا، سوف کے قائم مقام ہے کیونکہ یہ صلہ ہے اور یہ حرف رد ہے گویا نعم (ہاں) اور لا (نہیں) ہے اگر تو اسے ماب بعد کے لیے صلہ بنائے تو اس پر وقف نہیں کرے گا جیسے تیرا قول ہے : کلا ورب الکعبہ، کلا پر وقف نہیں کرے گا کیونکہ یہ ای ورب الکعبہ کے قائم مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کلا والقمر۔ (المدثر) پس کلا پر وقف قبیح ہے کیونکہ یہ الیمین کا صلہ ہے۔ ابو جعفر محمد بن سعد ان کلا میں فراء کے قول کی طرح فرماتے تھے۔ احفش نے کہا : کلا کا معنی جھڑکنا اور روکنا ہے۔ ابوبکر انباری نے کہا : میں نے ابوالعباس کو یہ فرماتے ہوئے سنا پورے قرآن میں کلا پر وقف نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ جواب ہے اور اس کا فائدہ مابعد میں واقع ہوتا ہے۔ پہلا قول اہل تفسیر کا قول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سنکتب ما یقول یعنی ہم اس کے قول کو اس پر محفوظ کرلیں گے اور آخرت میں اس کی وجہ سے اسے سزا دیں گے۔ ونمدلہ من العذاب مدا۔ ہم اس کے عذاب پر عذاب کا اضافہ کریں گے۔ ونرثہ ما یقول اور ہم نے جو اسے دنیا میں مال اور اولاد عطا کی ہے وہ ہم چھین لیں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے فرمایا : اس کا مطلب ہے ہم اسے ہلاک کرنے بعد مال اور اولاد کے وارث بن جائیں گے۔ بعض نے فرمایا : ہم اسے اس خواہش سے آخرت میں محروم کردیں گے جو وہ مال اور اولاد کی رکھتا ہے اور ہم اس کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو دیں گے۔ ویاتینا فردا۔ وہ ہماری بارگاہ میں متفرد آئے گا نہ اس کے لیے مال ہوگا، نہ اولاد اور نہ خاندان جو اس کی مدد کرتا ہوگا۔
Top