Al-Qurtubi - Maryam : 81
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّاۙ
وَاتَّخَذُوْا : اور انہوں نے بنالیا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اٰلِهَةً : معبود لِّيَكُوْنُوْا : تاکہ وہ ہوں لَهُمْ : ان کے لیے عِزًّا : موجب عزت
اور ان لوگوں نے خدا کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے (موجب عزت و) مدد ہوں
(تفسیر 81-82) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتخذوا من دون اللہ الھۃ لیکونوا لھم عزا۔ اس سے مراد مشرکین ہیں۔ عزا اس کا معنی ہے مددگار اور محافظ، یعنی اولاد، العز موسلا دھار بارش کو بھی کہتے ہیں ؛ یہ ہر وی کا قول ہے۔ کلام کا ظاہر یہ ہے کہ عزاً ان بتوں کی طرف راجع ہے جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے۔ اور اس کو واحد ذکر فرمایا کیونکہ یہ مصدر کے معنی میں ہے یعنی تاکہ وہ اس کے ساتھ عزت پائیں اور ان کے ذریعے اللہ کے عذاب سے محفوظ ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کلا، معاملہ اس طرح نہیں جس طرح انہوں نے گمان کیا بلکہ وہ ان کی عبادت کا انکار کریں گے یعنی وہ انکار کریں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تبرانا الیک ز ماکانوا ایانا یعبدون۔ (القصص) اور یہ بت جمادات ہیں عبادت کا علم نہیں رکھتے۔ ویکون علیہم ضدا۔ ضدا کا معنی ہے ان کی خصوصیت و تکذیب میں ان کے خلاف مددگار ہوں گے۔ مجاہد نے کہا : اس کا معنی ہے وہ ان کے دشمن ہوں گے۔ ابن زید نے کہا : وہ ان پر مصیبت ہوں گے پس ان کے معبودوں کو جمع کیا جائے گا اور ان کو عقل دی جائے گی اور وہ بولیں گے اور کہیں گے : یا رب ! ان کو عذاب دے جنہوں نے تجھے چھوڑ کر ہماری عبادت کی۔ کلا یہاں یہ احتمال رکھتا ہے کہ یہ لا کے معنی میں ہو اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ حقاً کے معنی میں ہو۔ سیکفرون بعبادتھم ابو نہیک نے، کلا سیکفرون یعنی تنوین کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ان سے اس کے ساتھ کاف کا ضمہ اور فتحہ بھی مروی ہے۔ مہدوی نے کہا : کلازجرو تنبیہ ہے اور یہ پہلی کلام کے رد کے لیے ہوتا ہے اور کب بھی ماب بعد کی تحقیق اور اس پر تنبیہ کے لیے واقع ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کلا ان الانسان لیطعی۔ (العلق) اس معنی پر وقف نہیں کیا جاتا اور پہلے معنی پر اس پر وقف کیا جاتا ہے اگر اس میں دو معانی کی صلاحیت ہو تو اس پر وقف اور ابتداء جائز ہوتی ہے اور جنہوں نے کلا کو تنوین دی ہے اور کاف کو فتحہ بھی دیا ہے تو وہ کل کا مصدر ہے اور اس کو نصب فعل مضمر کی وجہ سے ہے معنی یہ ہے : کل ھذا الرای ولإعتقاد کلا یعنی ان مورتیوں کو معبود بنانے کا اعتضاد اور نظریہ ہرگز درست نہیں تاکہ وہ ان کے مددگار ہوں۔ پس اس مفہوم پر غزا اور کلا پر وقف ہوگا ؛ اسی طرح جماعت کے قرأت میں ہے کیونکہ یہ ما قبل کے رد اور مابعد کی تحقیق کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور جنہوں نے تنوین کے ساتھ کاف کا ضمہ روایت کیا ہے وہ بھی فعل مضمر کے ساتھ منصوب ہے۔ گویا فرمایا : سیکفرون، کلا سیکفرون بعبادتھم، یعنی اپنے بتوں کی عبادت کا انکار کریں گے۔ میں کہتا ہوں : کلا میں چار معانی حاصل ہوتے ہیں : (1) تحقیق یعنی یہ حقا کے معنی میں ہوتا ہے۔ (2) نفی، (3) تنبیہ، (4) قسم کا صلہ۔ صرف پہلی صورت میں اس پر وقف ہوگا۔ کسائی نے کہا : لاصرف نفی کرتا ہے اور کلا ایک چیز کی نفی کرتا ہے اور ایک چیز کو ثابت کرتا ہے جب کہا جاتا ہے : اکلت تمرآ تو تو کہتا ہے کلا انی اکلت عسلا لا تمرا ا میں نے شہد کھایا، کھجور نہیں کھائی۔ اس کلمہ میں ماقبل کی نفی ہے اور مابعد کی تحقیق ہے۔ الضد کبھی واحد ہوتا ہے اور کبھی جمع ہوتا ہے جیسے العدد اور الرسول واحد اور جمع استعمال ہوتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : الضد مصدر کی جگہ واقع ہے یعنی وہ ان کے علاوہ معاون ہوں گے اسی وجہ سے جمع نہیں ذکر کیا گیا، یہ چونکہ لیکونوا لھم عزا کے مقابلہ میں ہے اور العرمصدر ہے پس اسی طرح اس کے مقابلہ میں واقع ہوا ہے۔ پھر علماء نے فرمایا : یہ آیت بتوں کے بچاریوں کے متعلق ہے اور بتوں کو شعور والوں کے قائم مقام رکھا گیا ہے جیسے کہ کفار کا نظریہ تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ ان کے بارے ہے جو مسیح (علیہ السلام) یا ملائکہ یا جن یا یاطین کی عبادت کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔
Top