Al-Qurtubi - Maryam : 85
یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ
يَوْمَ : جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کرلیں گے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع) اِلَى الرَّحْمٰنِ : رحمن کی طرف وَفْدًا : مہمان بنا کر
جس روز ہم پرہیزگاروں کو خدا کے سامنے (بطور) مہمان جمع کریں گے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا۔ اس کلام میں حذف ہے یعنی رحمن کی جنت کی طرف اور اس کے دار کر اممت کی طرف متقین کو لے جائیں گے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انی ذاھب الی ربی سیھدین۔ (الصافات) اسی طرح حدیث میں ہے : من کا نت ھجرتہ الی اللہ ورسولہ فھجرتہ الی اللہ ورسولہ (1) جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے۔ الوفد اسم ہے والدفن کا، جیسا کہا جاتا ہے : صوم فطر وزور، یہ وافد کی جمع ہے جیسے رکب وراکب، صحب وصاحب یہ فدیفد وفداً ووفودا ووفادۃ سے مشتقق ہے جب کوئی فتح یا کسی خطیر امر کی صورت میں باشاہ کی طرف جائے۔ جوہری نے کہا : وفد فلان علی الامیر کہا جاتا ہے یعنی وہ پیغام رساں بن کر آیا، فھو وافد اس کی جمع وفد ہے جیسے صاحب کی جمع صاحب ہے وفد کی جمع وفاد اور وفود ہے اور اسم الوفادۃ ہے : اوفدتہ انا الی الامیر یعنی میں نے اسے امیر کی طرف بھیجا۔ اور تفسیر میں ہے وفداً یعنی وہ اپنی طاعتوں کی سواریوں پر سوار ہو کر حاضر ہوں گے۔ یہ اس لیے ہے کہ عام طور پر آنے والا سفیر سوار ہوتا ہے۔ الوفد سے مراد سوار ہیں۔ اس کو مفرد ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ مصدر ہے۔ ابن جریج نے کہا : وفداً علی النجائب سواری پر سوار ہو کر آئیں گے۔ عمرو بن قیس ملائی نے کہا : مومن جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کا عم لحسین صورت اور پاکیزہ خوشبو کی صورت میں اس کا استقبال کرے گا، وہ کہے گا : کیا تو مجھے جانتا ہے۔ مومن کہے گا : نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے تیری خوشبو بہت اچھی بنائی اور تیری صورت حسین بنائی ہے وہ کہے گا : کیا تو مجھے جانتا ہے۔ مومن کہے گا : میں دنیا میں اسی طرح تھا میں تیرا نیک عمل ہوں 0، دنیا میں میں تجھ پر سوار رہا آج تو مجھ پر سوار ہو، پھر یہ آیت تلاوت کی : یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفداً اور کافر کا عمل اس کا استقبال کرے گا وہ انتہائی قبیح صورت اور بدبو دار ہوگا، وہ کہے گا : تو مجھے جانتا ہے ؟ وہ کہے گا : نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے تیری شکل قبیح بنائی ہے اور بوبڑی کر یہ ہے۔ وہ کہے گا : میں دنیا میں اسی طرح تھا۔ میں تیرا بُرا عمل ہوں کبھی دنیا میں تو مجھ پر سوار تھا آج میں تجھ پر سوار ہوں گا پھر یہ آیت تلاوت کی : وھم یحملون اوزارھم علی ظھورھم (الانعام :31) یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں، یہ ابن عربی نے سراج المریدین میں کہا ہے اور اس حدیث کو ابو نصر عبدالرحیم بن عبدالکریم قشیری نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جو گھوڑے پر سوار ہونا پسند کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گھوڑے پر سوار ہو کر حاضر ہوگا جو نہ لید کرے گا اور نہ پیشاب کرے گا، اس کی لگام سرخ یاقوت اور سبز زبر جد اور سفید موتیوں سے ہوگی اور اس کی زین سندس اور استبرق (ریشم) کی ہوگی اور جو اونٹ پر سوارہونا پسند کرتا ہوگا وہ اونٹ پر سوار ہو کر جائے گا جو نہ مینگنیاں کرتا ہوگا اور نہ پیشاب کرتا ہوگا اس کی مہار یاقوت اور زبر جد سے ہوگی اور جو کشتی پر سوار ہونا پسند کرتا ہوگا وہ زبر جد اور یاقوت کی کشتی پر سوار ہوگا وہ غرق ہونے سے امن میں ہوں گے اور پریشانیوں سے امن میں ہوں گے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت علی ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ میں نے بادشاہ اور ان کے وفود دیکھے ہیں اور میں نے ہر وفد سوار دیکھا ہے پس اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جانے والے کیسے ہوں گے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” وہ نہ اپنے قدموں پر چلائے جائیں گے اور نہ انہیں ہانکا جائے گا بلکہ انہیں جنت کی اونٹنیوں میں سے دی جائیں گی جن کی مثل مخلوق نے پہلے نہ دیکھی ہوگی ان کے پالان سونے کے ہوں گے اور ان کی مہاریں زبر جد کی ہوں گی اور ان پر سوار ہوں گے حتیٰ کہ وہ جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے “ (1) حضرت علی شیر خدا سے مروی ثعلبی کے الفاظ اس خبر میں زیادہ واضح ہیں۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ میں نے بادشاہ اور ان کے وفد دیکھے ہیں میں نے کوئی وفد نہیں دیکھا مگر وہ سوار تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے علی ! جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لوٹنا ہوگا تو فرشتے مومنین سے ایسی سفید اونٹنیوں کے ساتھ ملیں گے جن کے پالان اور نکیلیں سونے کی ہوں گی ہر سواری پر ایک حلہ ہوگا دنیا جس کے مساوی نہ ہوگی، ہر مومن ایک لباس پہنے گا پھر ان کے ساتھ ان کی سواریاں چلیں گی پھر وہ اونٹنیاں انہیں لیکر چلیں گی حتیٰ کہ وہ انہیں جنت تک پہنچا دیں گی۔ پھر انہیں فرشتے ملیں گے اور کہیں گے : سلم علیکم طبتم فادخلوھا خلدین۔ (الزمر) میں کہتا ہوں : یہ خبر نص ہے کہ وہ نہ سوار ہوں گے اور نہ لباس پہنیں گے مگر مؤقف سے اور جب قبور سے باہر نکلیں گے پیدل چلتے ہوں گے ننگے پائوں اور ننگے بدن ہوں گے اور غیر مختون ہوں گے، اسی حالت میں مؤقف کی طرف جائیں گے۔ اس کی دلیل حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ہے فرمایا : نبی کریم ﷺ ہمیں نصیحت کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا : ” اے لوگو ! تم اللہ کی بارگاہ میں جمع کیے جائو گے جبکہ ننگے پائوں، برہنہ بدن اور غیر مختون ہو گے۔ “ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے تخریج کیا ہے۔ یہ مکمل سورة المومون میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اسی مفہوم کی حضرت عبداللہ بن انیس کی حدیث سورة آل عمران میں گزر چکی ہے۔ یہ کوئی بعید نہیں کہ دونوں حالتیں سعداء کی ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث مخصوص ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : وفدا یعنی اونٹوں پر سوار ہو کر۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : وفداً یعنی اونٹوں پر سوار ہو کر۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : وہ سوار ہوں گے انہیں جنت کی اونٹنیاں دی جائیں گے ان پر سونے کے کجاوے ہوں گے اور ان کی زینیں اور ان کی مہاریں زبر جد کی ہوں گی پس ان پر سوار کر کے انہیں جمع کیا جائے گا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! وہ پیدل جمع نہ کیے جائیں گے بلکہ وہ انٹینوں پر سوار ہوں گے جن کے کجاوے سونے کے ہوں گے ان کی زینیں یواقیت کی ہوں گی اگر وہ ارادہ کریں گے تو وہ چل پڑیں گی اور جب وہ انہیں حرکت دیں گے تو وہ اڑ پڑیں گی۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ جو پسند کریں گے اس پر سوار ہو کر آئیں گے اونٹ یا گھوڑے یا کشتیاں جیسا کہ پہلے حضرت ابن عباس ؓ سے گزر چکا ہے۔ واللہ اعلم۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وفداً کیونکہ وفود کی شان عربوں کے نزدیک یہ ہوتی ہے کہ وہ بشارات کے ساتھ آتے ہیں، وہ انعامات کا انتظار کرتے ہیں پس متقین عطا اور ثواب کا انتظار کریں گے۔ ونسوق المجرمین الی جہنم ورداً ، السوق کا معنی ہے چلنے پر ابھارنا، ورداً کا معنی ہے پیاسے، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ اور حسن کا قول ہے۔ اخفش، فراء اور ابن اعرابی نے کہا : اس کا مطلب ہے وہ برہنہ پا ہوں گے اور پیدل ہوں گے۔ بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ گروہوں کی شکل میں ہوں گے۔ ازہری نے کہا : اس کا معنی ہے وہ پیدل اور پیاسے ہوں گے جیسے اونٹ پانی پر وارد ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے : جاء ورد بنی فلاں (فلاں قبیلہ کے اونٹ پانی پر آئے) اور قشیری نے کہا : ورداً کا قول پیاس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ پانی عام طور پر پیاس کے لیے لایا جاتا ہے اور تفسیر میں ہے اس کا معنی ہے وہ پیدل ہوں گے پیاسے ہوں گے تاکہ ان کی گردنیں پیاس کی وجہ سے کٹ جائیں۔ جب مجرموں کو دوزخ کی طرف ہانکا جائے گا تو متقین کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : ورداً اس کا معنی ہے الورود جیسے تیرا قول ہے : جئتک اکراماً لک یعنی لا کرامک، اسکا معنی ہے نسوقھم لورودالنار ہم انہیں آگ پر وارد کرنے کے لیے ہانکیں گے۔ میں کہتا ہوں : ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں۔ انہیں پیاسے، برہنہ یا پیدل گروہوں کی شکل میں ہانکا جائے گا۔ ابن عرفہ نے کہا : الورود سے مراد وہ قوم ہے جو پانی پر وارد ہوتی ہے۔ پیاسوں کو ورداً کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ پانی پر ورود طلب کرتے ہیں جیسے تو کہتا ہے : قوم صوم یعنی روزے دار لوگ۔ قوم زور زیارت کرنے والے لوگ۔ یہ مصدر کے لفظ پر اسم ہے اس کا واحد وارد ہے۔ الورداس جماعت کو بھی کہتے ہیں جو پانی پر وارد ہوتی ہے خواہ وہ پرندے ہوں یا اونٹ ہوں۔ الورداس پانی کو بھی کہتے ہیں جس کے لیے ورود ہوتا ہے اور یہ کسی چیز سے کسی چیز کے ساتھ اشارہ کرنے کے باب سے ہے الورد قرآن کے جز کو بھی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : قرأت وردی، الورد نجار کے دن کو کہتے ہیں جب وہ کسی کو مخصوص وقت پر ہوتا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ لفظ مشترک ہے۔ شاعر نے کہا وہ کنویں کا وصف بیان کرتا ہے : یطموإذا لورد علیہ التکا (یعنی وہ لوگ جو پانی پر وارد ہوتے ہیں)
Top