Al-Qurtubi - Maryam : 88
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ
وَقَالُوا : اور وہ کہتے ہیں اتَّخَذَ : بنالیا ہے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَلَدًا : بیٹا
اور کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے
(تفسیر 88-95) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقالوا اتخذ الرحمن ولداً ۔ یعنی یہود و نصاریٰ اور جنہوں نے کہا : ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یحییٰ اعمش، حمزہ کسائی، عاصم اور خلف نے ولداً وائو کے ضمہ اور لام کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ چار مقامات پر ایسا ہی پڑھا ہے۔ اس سورة میں لاوتین مالا وولدا۔ یہ گزر چکا ہے اور یہ ارشاد : ان دعوا للرحمن ولدا۔ وما ینبغی للرحمن ان یتخذولداً ۔ اور سورة نوح میں مالہ وولدہ، سورة نوح میں ابن کثیر، مجاہد، حمید ابو عمرو اور یعقوب نے ان کی موافقت کی ہے اور باقی قراء نے تمام جگہ واو اور لام میں فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ دونوں لغتیں ہیں جیسے العرب والعرب، العجم والعجم۔ شاعر نے کہا : ولقد رأیت معاشرا قد ثمروا مالا وولد دوسرے شاعر نے کہا : ولیت فلافا کان فی بطن امہ ولیت فلافا کان ولد حمار اس کے مفہوم میں نابغہ نے کہا : مھلا فداء لک الاقوام کلھم وما اثمر من مال ومن ولد پس اس نے فتحہ دیا : قیس جمع میں واو پر ضمہ اور مفرد میں واو پر فتحہ دیتے ہیں۔ جوہری نے کہا : الولد کبھی واحد ہوتا ہے اور کبھی جمع ہوتا ہے اسی طرح الولد ضمہ کے ساتھ ہے۔ بنی اسد کی امثال سے ولدک من دمی عقبیک اور کبھی الولد کی جمع الولد ہوتا ہے جیسے اسد جمع ہے اسد کی اور الولدواؤ کے کسرہ کے ساتھ الولد میں ایک لغت ہے۔ نحاس نے کہا : ابو عبید نے ان کے درمیان فرق کیا ہے۔ اس نے کہا : الولد اہل کے لیے ہوتا ہے اور الولد تمام کے لیے ہوتا ہے۔ ابو جعفر نے کہا : یہ قول مردود ہے اہل لغت میں سے کوئی اسے نہیں جانتا۔ الولد اور الولد دونوں آدمی کی اولاد اور اولاد کی اولاد کی اولاد کے لیے ہوتے ہیں۔ ولداً کلام عرب میں اکثر ہوتا ہے ؛ جیسے شاعر نے کہا : مھلا فداء لک الاقوام کلھم وما اثمر من مال ومن ولد ابو جعفر نے کہا : میں نے محمد بن ولید کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے ولد کا ولد کی جمع ہونا جائز ہے، جیسے کہا جاتا ہے : وثن ووثن۔ اسد واسد۔ ولد اور ولد کا ہم معنی ہونا ببھی جائز ہے، جیسے کہا جاتا ہے : عجم وعجم، عرب وعرب جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔
Top