Al-Qurtubi - Maryam : 92
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ
وَمَا : جبکہ نہیں يَنْۢبَغِيْ : شایان لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ وہ بنائے وَلَدًا : بیٹا
اور خدا کو شایاں نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما ینبغی للرحمن ان یتخذولداً ۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰکا ارشاد ہے : وما ینبغی للرحمن ان یتخذولداً ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے بیٹے کی نفی کی کیونکہ بیٹا ہونا جنسیت اور حدوث کا تقاضا کرتا ہے جیسا کہ ہم نے سورة بقرہ میں بیان کیا یعنی اللہ تعالیٰ کی شان سے لائق یہ نہیں اس کے ساتھ اس کا یہ وصف بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے حق میں یہ جائز ہے کیونکہ بیٹا ہمیشہ والد سے ہوتا ہے پھر اس کا بھی والد اور اصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور منزہ ہے۔ شاعر نے کہا : فی رأس خلقاء من عنقاء مشرفۃ ما ینبغی دونھا سھل ولا جبل (2) ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبدا۔ ان نافیہ بمعنی ما ہے یعنی آسمانوں اور زمین میں کوئی ایسا نہیں ہے مگر وہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے لیے عبودیت کا اقرار کرنے والا ہوگا اور اس کی بارگاہ میں عجزو انکساری کرنے والا ہوگا جیسا کہ فرمایا : وکل اتوہ دخرین۔ (النمل) یعنی تمام اس کی بارگاہ میں عجزو انکساری کا اظہار کرتے ہوئے آئیں گے ساری مخلوق اس کے غلام ہیں پھر اس مخلوق میں سے کون اس کا بیٹا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ بلند وبالا ہے اس سے جو یہ کہتے ہیں اور جو کچھ یہ منکر بیان کرتے ہیں، اتی لکھنے کے یاء کے ساتھ ہے اصل تنوین ہے۔ پس یہ استحفافاً حذف کی گئی ہے اور مضاف کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ بیٹا والد کے لیے مملوک نہ ہوگا بخلاف اس شخص کے جو کہتا ہے کہ وہ اسے خریدے گا اور مالک ہوجائے گا اور وہ اس پر آزاد نہ ہوگا مگر جب وہ خود اسے آزاد کرے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اولاد ہونے اور ملک ہونے میں منافات ظاہر فرمائی ہے جب باپ بیٹے کا کسی اعتبار سے مالک ہوگا تو وہ اس پر آزاد ہوجائے گا اس دلیل کی وجہ اس آیت سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ولدیت اور عبدیت کو تقابل کی دو طرفوں میں رکھا ہے ایک کی نفی سے دوسری کا اثبات ہوگا اگر دونوں جمع ہوتیں تو اس کے قول کا کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا جس کے ساتھ احتجاج واقع ہوتا۔ صحیح حدیث میں ہے ” کوئی بیٹا اپنے والد کا حق ادا نہیں کرسکتا مگر وہ اسے مملوک پائے پھر اسے خریدے اور اسے آزاد کرے “ (1) ۔ جب باپ اپنے بیٹے کا مالک نہیں ہوتا حالانکہ باپ کو بیٹے پر ایک مرتبہ حاصل ہے تو بیٹا بدرجہ اولیٰ باپ کا مالک نہ ہوگا کیونکہ وہ مرتبہ میں اس سے کم ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اسحاق بن را ہو یہ نے نبی کریم ﷺ کے ارشاد : من اعتق شرکا لہ فی عبد، سے استدلال کیا ہے اس سے مراد مذکر غلام ہیں عورتیں نہیں ہیں۔ پس اس پر مکمل نہ ہوگا جس نے مؤنث میں سے اپنا حصہ آزاد کیا۔ یہ جمہور علماء سلف کے نظریہ کے خلاف ہے کیونکہ جمہور نے مذکر اور مونث میں فرق نہیں کیا ہے کیونکہ عبد کے لفظ سے جنس مراد ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبدا۔ یہ ارشاد مذکر، مونث تمام غلاموں کو شامل ہے اور اسحاق نے دلیل پکڑی ہے کہ عبدۃ مونث حکایت کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم نے میری تکذیب کی ہے اسے یہ جائز نہیں تھا اور اس نے مجھے برا کہا حالانکہ یہ اس کو جائز نہ تھا اور رہا اس کا میری تکذیب کرنا تو اس کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا جس طرح پہلے کیا تھا جبکہ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مجھ پر اس کے اعادہ سے آسان نہیں تھا اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ اس نے کہا : اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں یکتا ہوں، بےنیاز ہوں نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے اور نہ وہ جنم دیا گیا ہے۔ اور نہ میرا کوئی ہمسر ہے۔ “ (2) سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے اس جیسی جگہ میں اس کا اعادہ بہتر ہے۔
Top