Al-Qurtubi - Al-Baqara : 100
اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَكُلَّمَا : کیا جب بھی عَاهَدُوْا ۔ عَهْدًا : انہوں نے عہد کیا۔ کوئی عہد نَبَذَهٗ : توڑدیا اس کو فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان میں سے بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : اکثر ان کے لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے
ان لوگوں نے جب جب (خدا سے) عہد واثق کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اسکو (کسی چیز کی طرح) پھینک دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر بےایمان ہیں
آیت نمبر 100 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : او کلما عھدوا عھدًا یہاں واو عطف کے لئے ہے اس پر الف استفہام داخل ہوا ہے، جیسے فاء پر داخل ہوتا ہے جیسے أفعکم الجاھلیۃ۔ أفانت تسمع الصم۔ افتتخذونہ وذریتہ، اور جس طرح ثم پر داخل ہوتا ہے۔ اثم اذا ما وقع۔ یہ سیبویہ کا قول ہے۔ اخفش نے کہا : یہ واو زائدہ ہے، کسائی کا مذہب یہ ہے کہ یہ او تھا تسہیل کے لئے واو کو حرکت دی گئی۔ ایک قوم نے او واو ساکن کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس صورت میں یہ بل کے معنی میں ہوگا، جیسے کوئی کہتا ہے : لا ضرینک پھر جواب دینے والا کہتا ہے : او یکفی اللہ۔ ابن عطیہ نے کہا ( 1): یہ تمام تکلف ہے۔ صحیح سیبویہ کا قول ہے کلما ظرف کی بنا پر منصوب ہے۔ آیت میں مراد مالک بن صیف ہے، اس کو ابن صیف بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے کہا تھا : اللہ کی قسم ! ہماری کتاب میں ہم سے کوئی عہدو پیمان نہیں کیا گیا کہ ہم محمد ﷺ پر ایمان لائیں تو یہ آیت نازل ہوئی (2) ۔ بعض علماء نے فرمایا : یہود نے عہد کیا تھا کہ اگر حضرت محمد ﷺ مبعوث ہوں گے تو ہم ان پر ایمان لائیں گے اور اس کے ساتھ مل کر مشرکین عرب کی مخالفت کریں گے۔ جب آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو انہوں نے آپ کا انکار کیا۔ عطا نے کہا : یہ وہ عہود تھے جو نبی کریم ﷺ اور یہود کے درمیان تھے۔ ان کو انہوں نے توڑا۔ جیسے قریظہ اور نضیر نے کہا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : الذین عھدت منھم ینقضون عھدھم فی کل مرۃٍ وھم لا یتقون۔ (انفال) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نبذہ فریقٌ منھم، النبذ کا معنی پھینکنا ہے، اسی سے النبیذ، المنبوذ پھینکا ہوا۔ ابو الاسود نے کہا : وخبرنی من کنت ارسلت انما اخذت کتابی معرضاً بشمالکا نظرت الی عنوانہ فنبذتہ کنبذک فعلاً اخلقت من نعالکا مجھے اس نے بتایا جسے میں نے بھیجا تھا تو نے میری کتاب اعراض کرتے ہوئے لی۔ اور تو نے اس کے عنوان کو دیکھا تو تو نے اسے اس طرح پھینک دیا جس طرح تو پرانی جوتی پھینکتا ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : ان الذین امرتھم ان یعدلو نبذوا کتابک واستحلوا المحرما بیشک وہ لوگ جنہیں تو نے عدل کرنے کا حکم دیا انہوں نے تیری کتاب کو پھینک دیا اور حرام کو حلال کیا۔ یہ مثال اس شخص کے لئے دی جاتی ہے جو کسی شے کو حقیر سمجھے اور اس پر عمل نہ کرے۔ عرب کہتے ہیں : اجعل ھذا خلف ظھرک دبرأ منک وتحت قدمک یعنی اس کام کو چھوڑ دے اور اس سے اعراض کر۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتخذتموہ وراء کم ظھریا (ہود : 92) (اور تم نے ڈال دیا ہے اسے پس پشت) فراء نے یہ شعر پڑھا ہے : تمیم بن زید لا تکونن حاجتی بظھر فلا یعیا علی جوابھا اے تمیم بن زید ! میری حاجت کو پشت کے پیچھے نہ ڈال مجھے اس کا جواب عاجز نہیں کرے گا۔ بل اکثرھم یہ مبتدا ہے لا یؤمنون فعل مستقبل خبر ہے۔
Top