Al-Qurtubi - Al-Baqara : 121
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
الَّذِينَ : جنہیں اٰتَيْنَاهُمُ : ہم نے دی الْكِتَابَ : کتاب يَتْلُوْنَهٗ : اس کی تلاوت کرتے ہیں حَقَّ : حق تِلَاوَتِهٖ : اس کی تلاوت اُولٰئِکَ : وہی لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِهٖ : اس پر وَ مَنْ : اور جو يَكْفُرْ بِهٖ : انکار کریں اسکا فَاُولٰئِکَ : وہی هُمُ الْخَاسِرُوْنَ : وہ خسارہ پانے والے
جن لوگوں کو ہم نے کتاب عنایت کی ہے وہ اس کو (ایسا) پڑھتے ہیں جیسا اسکے پڑھنے کا حق ہے، یہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں اور جو لوگ اس کو نہیں مانتے وہ خسارہ پانے والے ہیں
آیت نمبر 121 تا 123 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذین اتینھم الکتب قتادہ نے فرمایا : اس سے مراد نبی کریم ﷺ کے اصحاب ہیں۔ اور اس تاویل پر الکتب سے مراد قرآن ہے۔ ابن زید نے کہا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو نبی اسرائیل میں سے اسلام لائے تھے۔ اس تاویل پر الکتب سے مراد تورات ہے۔ اور آیت عام ہے (1) ۔ الذین محل رفع میں ہے کیونکہ یہ مبتدا ہے۔ اتینھم اس کا صلہ ہے۔ یتلونہ مبتدا کی خبر ہے۔ اگر تو چاہے تو خبر اولئک یؤمنون بہ کو بنا دے۔ یتلونہ حق تلاوتہ اس کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : وہ پیروی کرتے ہیں جیسے اس کی پیروی کرنے کا حق ہے یعنی اس کے امرونہی کی پیروی کرنے کے ساتھ، اس کے حلال کو حلال کرتے ہیں اور اس کے حرام کو حرام کرتے ہیں اور جو احکامات اس میں ہیں ان پر عمل کرتے ہیں۔ یہ عکرمہ کا قول ہے۔ عکرمہ نے کہا : کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں سنا : والقمر اذا تلھا۔ (الشمس) (جب چاند اس کے پیچھے آتا ہے ) ۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود کے قول کا یہی معنی ہے (1) ۔ شاعر نے کہا : قد جعلت دلوی تستتلینی میرا ڈول میرے پیچھے آیا۔ نصر بن عیسیٰ نے مالک سے انہوں نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے یتلونہ حق تلاوتہ کے تحت روایت کیا ہے فرمایا : یتبعونہ حق اتباعہ۔ یعنی وہ اس کی پیروی کرتے ہیں جس طرح پیروی کا حکق ہے اس کی سند میں بہت سے مجہول راوی ہیں جیسا کہ خطیب ابوبکر احمد نے ذکر کیا ہے، لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے کہا : جو قرآن کی پیروی کرتا ہے وہ اس کے ساتھ جنت کے باغیچوں پر اترے گا۔ حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کسی رحمت والی آیت سے گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے رحمت کا سوال کرتے ہیں اور جب عذاب والی آیت سے گزرتے ہیں تو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ یہی معنی نبی کریم ﷺ سے بھی مروی ہے جب آپ آیت رحمت سے گزرتے تو رحمت کا سوال کرتے اور جب آیت عذاب سے گزرتے تو پناہ مانگتے۔ حسن نے کہا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن کی محکم آیات پر عمل کرتے ہیں اور متشابہہ پر ایمان لاتے ہیں اور جو مشکل ہوتا ہے وہ اس کے جاننے والے کے سپرد کرتے ہیں (2) ۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے (3) ۔ میں کہتا ہوں : اس میں بعد ہے مگر یہ کہ معنی یہ ہو کہ وہ اس کے الفاظ کو ترتیل سے پڑھتے ہیں اور اس کے معانی کو سمجھتے ہیں۔ معانی کا سمجھنا اتباع ہوتا ہے اس کے لئے جس کو توفیق دی گئی ہوتی ہے۔
Top